برائے اصلاح

السلام علیکم
یہ بحر ی اوزان میں میری پہلی کوشش ہے ۔ اساتذہ سے اصلاح کی التماس ہے۔

صبحو صبحو ہی گردوں پر
جب پو پھٹنے کو آتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
نم شبنم ہیرے موتی سے
جب پھولوں کو نہلاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
بارد سی صبا سرِ آنچل میں
جب خوشبو لیکر چھاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
کوئل لب گلشن میں بیٹھی
جب نغموں میں نغماتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
مہ بلبل گل کی ڈالی پر
جب گیت خوشی کے گاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
تتلی بے چیں اڑتی اڑتی
جب پھولوں سے مل جاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
سورج کی رو اک پَتّوں سے
جب جنگل کو چمکاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
بارش برسات کے موسم میں
جب آنگن میں ٹکراتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
پرزور ہوا اک آندھی کی
جب شاخوں کو ملواتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
اک ڈھلتے سورج کی سرخی
جب گال فلک پر چھاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
مہتاب فروزاں کی چندرہ
جب تاروں کو شرماتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
دن راتوں کی تنہائی میں
جب آنسو آنکھ بہاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
اک درد جو اٹھ کر پہلو میں
جب جان مجھے تڑپاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
ھکی ہوتی ہے ایک دو تین آندھیاں نہیں ہوتیں۔ اور آندھی کی ہوا بھی عجیب ہے۔ تبدیل لرنے کی ضرورت ےہ فعل تو نہیں ہوتاعروض کے لحاظ سے و صرف پہلے مصرع میں گڑبڑ ہے۔ صبحو کوئی لفظ نہیں ہوتا، محض صبح ہوتا ہے جس کا درست تلفظ صُ ب ساکن ح ساکن ہے۔ اس کو یوں کر سکتے ہیں
جب صبح سویرے گردوں پر

یہ مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔
بارد سی صبا سرِ آنچل میں
اگر یہ سرِ آنچل ہے، اضافت کے ساتھ تو کہو کہ آنچل ہندی ہے اور ہندی الفاظ کے ساتھ فارسی کی اضافت نہیں لگائی جا سکتی۔ اس کو یوں کہا جا سکتا ہے
اپنے آنچل میں سبک صبا

کوئل لب گلشن میں بیٹھی
جب نغموں میں نغماتی ہے
کوئل لب؟ نغمانا ویسے کوئی با قاعدہ فعل تو نہیں ہوتا، لیکن اکثر استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کا مطلب ہی ہوتا ہے نغموں میں تبدیل کرنا۔ اس شعر کو مکمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مہ بلبل گل کی ڈالی پر
یہ کون سی بلبل ہوتی ہے، میں واقف نہیں۔ اگر یہ وہی بلبل ہے تو کیا چمن کی ایک ہی مخصوص ڈالی پر بیٹھتی ہے؟ اسے ’شاخوں‘ ہونا چاہئے، جمع میں۔

تتلی بے چیں اڑتی اڑتی
جب پھولوں سے مل جاتی ہے
بےچیں بھی عموماً نہیں بولا جاتا، ویسے یہاں مکمل نون کی بھی گنجائش ہے، بے چین اڑتی اڑتی۔ البتہ ’پھولوں سے مل جاتی‘ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔

سورج کی رو اک پَتّوں سے
بے معنی سا مصرع ہے۔ سورج کی کرن ہوتی ہے، رو نہیں۔ پتوں سے کس طرح جنگل چمکایا جا سکتا ہے؟؟

بارش برسات کے موسم میں
بارش کسی اور موسم میں نہیں آنگن س ٹکرا سکتی؟

جب آنگن میں ٹکراتی ہے
آنگن میں یا آنگن ’سے۔‘

پرزور ہوا اک آندھی کی
جب شاخوں کو ملواتی ہے
آندی محض آندھی ہوتی ہے، ایک یا دو نہیں، اور پھر آندھی کی ہوا!! اور شاخوں کو ملوانا بھی سمجھ میں نہیں آٹا۔

اک ڈھلتے سورج کی سرخی
جب گال فلک پر چھاتی ہے
یہ بھی شاید گالِ فلک ہے، گال بھی ہندی نسل کا لفظ ہے، اضافت نہیں لگ سکتی۔

مہتاب فروزاں کی چندرہ
جب تاروں کو شرماتی ہے
چندرہ؟ اس لفظ سے میں واقف نہیں۔ تاروں کو شرمانا‘ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

اک درد جو اٹھ کر پہلو میں
جب جان مجھے تڑپاتی ہے
پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں ہوئی۔ درد پہلو میں اٹھ کر کیا کرتا ہے؟ جان کا تڑپانا بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ جان تو خود تڑپتی ہے یا کسی کو تڑپانے کا ظلم کرتی ہے؟
 
آخری تدوین:
بہت بہت شکریہ !
جب صبح سویرے گردوں پر
اس مصرع سے پھر دوسرے مصرع کا کیا بنے گا ؟
البتہ کیا ایسے لکھا جا سکتا ہے؟
"تڑکے ہی تڑکے گردوں پر"
بارد سی صبا سرِ آنچل میں
مطلب تھا کہ ٹھندی ہوا۔
اپنے آنچل میں سبک صبا
یہ بہت مناسب ہے ۔

کوئل لب گلشن میں بیٹھی
جب نغموں میں نغماتی ہے
لبِ گلشن سے مراد باغ کے دامن میں
ایسے تبدیل کیا ہے ۔ اب کیا مناسب رہے گا؟
"کوئل آموں کے موسم میں
جب میٹھا گانا گاتی ہے"
ویسے بھی کوئل کے لئے آم کا موسم ہی استعمال ہوتا ہے۔

مہ بلبل گل کی ڈالی پر
"مہ" کو خوبصورت کے معنی میں استعمال کیا ہے اس سے موزوں لفظ مجھے نہیں مل سکا ۔

تتلی بے چیں اڑتی اڑتی
جب پھولوں سے مل جاتی ہے
بےچیں بھی عموماً نہیں بولا جاتا، ویسے یہاں مکمل نون کی بھی گنجائش ہے، بے چین اڑتی اڑتی۔ البتہ ’پھولوں سے مل جاتی‘ اچھا نہیں لگ رہا ہے
اس سے مراد کہ تتلی پھول کی جدائی میں ادھر ادھر بے چینی کو وجہ سے اڑتی ہے اور پھول سے مل کر سکون حاصل لیتی ہے۔

سورج کی رو اک پَتّوں سے
بے معنی سا مصرع ہے۔ سورج کی کرن ہوتی ہے، رو نہیں۔ پتوں سے کس طرح جنگل چمکایا جا سکتا ہے؟؟
مصرع یہ تھا
"سورج کی کرن گزر کر پتوں سے" مگر یہ متعلقہ بحر میں نہیں آرہا ۔

بارش برسات کے موسم میں
بارش کسی اور موسم میں نہیں آنگن س ٹکرا سکتی؟
ٹکرا سکتی ہے مگر برسات میں فراوانی ہوتی ہے ۔

! اور شاخوں کو ملوانا بھی سمجھ میں نہیں آٹا۔
شاخوں کے ملنے سے وصل مراد لیا ہے۔
ایسے اگر لکھا جائے؟
"پرزور ہوا جو آندھی کی"

یہ بھی شاید گالِ فلک ہے، گال بھی ہندی نسل کا لفظ ہے، اضافت نہیں لگ سکتی
یہ بات پہلی بار علم میں آئی ہے اب اس میں بھی احتیاط ہو گی۔
جب گال فلک پر چھاتی ہے
ایسے اگر لکھا جائے؟
"جب چرخِ فلک پر چھاتی ہے"

چندرہ؟ اس لفظ سے میں واقف نہیں۔ تاروں کو شرمانا‘ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
چندرہ ، چاندنی، چاندنا
"چانْدْنی {چانْد (ن مغنونہ) + نی} (سنسکرت)

چَنْدرَہ، چانْدْنا، چانْدْنی
http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=چاندنی

پورے چاند کی وجہ سے تاروں کو روشنی ماند پڑتی ہوئی نظر آتی ہے ۔

کرتا ہے؟ جان کا تڑپانا بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ج
"ہر آن مجھے تڑپاتی ہے "
اس کی جگہ یہ استعمال کیا ہے مگر پچھلے سب مصروں میں "جب " کیساتھ ہی مصرع شروع کیا ہے ، اب "جب " کیساتھ کونسا لفظ مناسب رہے گا۔


اصلاح کا بہت شکریہ استاد محترم
 

الف عین

لائبریرین
تڑکے تڑکے اور پو پھٹنے کے ساتھ ’گردوں‘ کا لفظ مِس فِٹ لگتا ہے۔ اسے یوں کہو۔
آکاش میں تڑکے تڑکے ہی

کوئل آموں کے موسم میں والا بہت عمدہ بند ہے۔
مہ بلبل کہنا غلط ہے۔ اس مصرع کو یوں کہو۔
بلبل پھولوں کی شاخوں پر

سورج کی کرن کی جگہ کچھ اور استعمال کیا جائے۔ جیسے
پتوں سے چھن کر دھوپ کبھی

آندھی والا مصرع درست ہو گیا ہے، لیکن مل جانا یا ملوانا سے وصل مراد نہیں لیا جا سکتا۔

"جب چرخِ فلک پر چھاتی ہے"
چرخ اور فلک ہم معنی ہیں۔ فلک کا چرخ بے معنی ہے۔ یہاں بھی آکاش یا امبر استعمال کرو۔ ’اک‘ سورج بھی عجیب سا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے۔
ڈھلتے سورج کی سرخ شفق
آکاش پہ جب چھا جاتی ہے

لغت میں چاندنی کے معنی دئے ہیں۔ چندرہ کے نہیں۔ سنسکرت میں یہ محض चन्द्र ہے یا चन्द्रमा چندر کا درست تلفظ میں اگر ’ہ‘ بھی لکھا جاے تو اس سے وہ ’فعلن‘ نہیں بن جاتا، کہ، اور ’نہ‘ جیسا ہی مانا جاتا ہے۔ اور اس کا مطلب محض چاند ہے۔ لغت والوں کو سنسکرت نہیں آتی ہے شاید۔ اور اگر چاندنی مان بھی لیا جائے تو چاند کی چاندنی عجیب نہیں لگتا؟
تاروں کو شرمانا ان معنوں میں تو قبول کیا جا سکتا ہے۔ لیکن واضح نہیں ہوتا، تاروں کو شرمندہ کرتی ہے درست ہوتا۔ بہر حال اس مصرع کو بدل ہی دو۔
 
بہت بہت شکریہ!

آکاش میں تڑکے تڑکے ہی
بلبل پھولوں کی شاخوں پر
پتوں سے چھن کر دھوپ کبھی
یہ سب بہت زیادہ مزے کے لگے ہیں ان کو ایسے ہی شامل کر لیا ہے۔

آکاش پہ جب چھا جاتی ہے
اس کو ایسے کر دیا ہے مجھے شاید اسطرح زیادہ خفیف محسوس ہوتا ہے۔
"آکاش پہ چھا جب جاتی ہے"

تاروں کو شرمانا ان معنوں میں تو قبول کیا جا سکتا ہے۔ لیکن واضح نہیں ہوتا، تاروں کو شرمندہ کرتی ہے درست ہوتا۔ بہر حال اس مصرع کو بدل ہی دو۔

یہ مصرع ویسے ہی نکال دیتا ہوں۔

اب اصلاح کے بعد اس شکل میں آگئی ہے۔


آکاش میں تڑکے تڑکے ہی
جب پو پھٹنے کو آتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

نم شبنم ہیرے موتی سے
جب پھولوں کو نہلاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

اپنے آنچل میں سبک صبا
جب خوشبو لیکر چھاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

کوئل آموں کے موسم میں
جب میٹھا گانا گاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

بلبل پھولوں کی شاخوں پر
جب گیت خوشی کے گاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

تتلی بے چیں اڑتی اڑتی
پھولوں سے مل جب جاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

پتوں سے چھن کر دھوپ کبھی
جب جنگل کو چمکاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

بارش برسات کے موسم میں
جب آنگن میں ٹکراتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

پرزور ہوا جو آندھی کی
جب شاخوں کو ملواتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

ڈھلتے سورج کی سرخ شفق
آکاش پہ چھا جب جاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

دن راتوں کی تنہائی میں
جب آنسو آنکھ بہاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے

اک درد جو اٹھ کر پہلو میں
جب آن مجھے تڑپاتی ہے
تب یاد تمہاری آتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
مل جب جاتی ہے اور چھا جب جاتی ہے بھی چست نہیں، جب مل، اور جب چھا ہی بہتر ہو گا۔
آنگن سے ٹکراتی ہے تو میں نے لکھا ہی تھا، جو میں سمجھ رہا تھا کہ تم نے قبول کر لیا!
ہر ان مجھے تڑپاتی ہے درست لگا تھا، لیکن اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ اس کا فاعل ’درد‘ ہے جو مذکر ہے۔ س کو یوں کہو تو۔
اک پیڑا اٹھ کر پہلو میں
ہر آن مجھے ۔۔۔
پیڑا، جو ہندی ہے، اسے اردو میں ’پیرا‘ بھی لکھتے ہیں۔ یہ لفظ پسند نہ ہو تو کچھ اور سوچو۔
 
Top