برائے اصلاح

وجدان شاہ

محفلین
ہم اپنی ذات کی جب بارگاہ میں آئے
خدا گواہ خدا کی نگاہ میں آئے

مرے ضمیر کو مرنا نہیں گوارا تھا
عجب سرور اب اس کی کراہ میں آئے

نظر اٹھاؤ محبت گلے ملو ان سے
ترے فقیر تری خانقاہ میں آئے

تمام دن جو اذیت سہی وہ کیا کم تھی؟
جو رتجگے بھی مری خوابگاہ میں آئے

خرد بھی آشنائے لذتِ جنوں ہو جائے
کبھی جو خم تری زلفِ سیاہ میں آئے

مگر ہم اب بھی وہی ہیں وہی جنوں وجدانؔ
ہزار دشت محبت کی راہ میں آئے​
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
عجب سرور اب اس کی کراہ میں آئے
" کراہ "کا استعمال اچھا نہیں ۔
نظر اٹھاؤ محبت گلے ملو ان سے
شتر گربگی بھی ہے اور مصرع کی ساخت میں کچھ محاوراتی روانی کی کمزوری سی ہے۔
خرد بھی آشنائے لذتِ جنوں ہو جائے
آشنا کا الف گرانا گراں لگ رہا ہے۔ ترتیب سے شعر بہتر ہو سکتا ہے۔
مقطع بھی اچھا ہے۔مگر "مگر" سے آغاز اچھا نہیں جبکہ اس کے مطابق اسلوب کو کہیں آگے لہجے کے حساب سےسیٹ نہ کیا جائے۔
باقی بہر حال غزل اچھی ہے۔ وجدان صاحب۔
 
Top