وجدان شاہ
محفلین
ہم اپنی ذات کی جب بارگاہ میں آئے
خدا گواہ خدا کی نگاہ میں آئے
مرے ضمیر کو مرنا نہیں گوارا تھا
عجب سرور اب اس کی کراہ میں آئے
نظر اٹھاؤ محبت گلے ملو ان سے
ترے فقیر تری خانقاہ میں آئے
تمام دن جو اذیت سہی وہ کیا کم تھی؟
جو رتجگے بھی مری خوابگاہ میں آئے
خرد بھی آشنائے لذتِ جنوں ہو جائے
کبھی جو خم تری زلفِ سیاہ میں آئے
مگر ہم اب بھی وہی ہیں وہی جنوں وجدانؔ
ہزار دشت محبت کی راہ میں آئے
خدا گواہ خدا کی نگاہ میں آئے
مرے ضمیر کو مرنا نہیں گوارا تھا
عجب سرور اب اس کی کراہ میں آئے
نظر اٹھاؤ محبت گلے ملو ان سے
ترے فقیر تری خانقاہ میں آئے
تمام دن جو اذیت سہی وہ کیا کم تھی؟
جو رتجگے بھی مری خوابگاہ میں آئے
خرد بھی آشنائے لذتِ جنوں ہو جائے
کبھی جو خم تری زلفِ سیاہ میں آئے
مگر ہم اب بھی وہی ہیں وہی جنوں وجدانؔ
ہزار دشت محبت کی راہ میں آئے
مدیر کی آخری تدوین: