برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
سب محفلین کو السلام علیکم بالخصوص استادِ محترم الف عین صاحب کو
, کافی عرصہ دل و دماغ کو قبض رہا کوئی شعر نہ کہہ سکا, آج کافی عرصہ بعد غزل لکھی ہے, سو اصلاح کیلیے پیش ہے

جب بھی مجھے ملا ہے تو ہنس کر نہیں ملا
مل کر بھی تجھ سے دوست!میں اکثر نہیں ملا

مسجد میں مدرسہ میں کلیسا و دیر میں
جاؤں کہاں ترا رخِ انور نہیں ملا

حاکم کو ظلم کرنے پہ ٹوکا تھا جس نے کل
دھڑ تو ملا ہے اس کا مگر سر نہیں ملا

وہ حبس وہ گھٹن ہے, کہ مت پوچھ شہر میں
باہر جو دِکھ رہا ہے, وہ اندر نہیں ملا

انجام جانتا ہوں سکندر کا, اس لیے
میں خوش پوں مجھ کو بختِ سکندر نہیں ملا

میں کیوں ڈروں انیس, بلا سے ڈریں وہ لوگ
جن کو کہ ظلِّ دامنِ حیدر نہیں ملا
 
آپ نے تیسرے شعر میں (تو) دو حرفی باندھا ہے یہ مناسب نہیں سمجھ جاتا کیونکہ دو حرفی لمبی آواز کھینچتا ہےآپ اس کو ایسے کر سکتے ہیں
دھر اس کا مل گیا ہے مگر سر نہیں ملا
 

الف عین

لائبریرین
سب محفلین کو السلام علیکم بالخصوص استادِ محترم الف عین صاحب کو
, کافی عرصہ دل و دماغ کو قبض رہا کوئی شعر نہ کہہ سکا, آج کافی عرصہ بعد غزل لکھی ہے, سو اصلاح کیلیے پیش ہے

جب بھی مجھے ملا ہے تو ہنس کر نہیں ملا
مل کر بھی تجھ سے دوست!میں اکثر نہیں ملا
پہلے مصرع میں تو بمعنی پھر ہے یا بمعنی واحد حاضر؟
اگر واحد حاضر ہے تو یوں بہتر ہے
جب بھی ملا ہے تو مجھے، ہنس کر..
جب تو مجھے ملا ہے تو ہنس...
مسجد میں مدرسہ میں کلیسا و دیر میں
جاؤں کہاں ترا رخِ انور نہیں ملا
.. کلیسا میں، دیر میں
بہتر ہو گا
حاکم کو ظلم کرنے پہ ٹوکا تھا جس نے کل
دھڑ تو ملا ہے اس کا مگر سر نہیں ملا
ارشد چوہدری کی تجویز اچھی ہے
وہ حبس وہ گھٹن ہے, کہ مت پوچھ شہر میں
باہر جو دِکھ رہا ہے, وہ اندر نہیں ملا
مت پوچھ. بھرتی کا لگ رہا ہے
دکھ رہا ہے... بھی فصیح نہیں
انجام جانتا ہوں سکندر کا, اس لیے
میں خوش پوں مجھ کو بختِ سکندر نہیں ملا
سکندر دونوں مصرعوں میں دہرایا نہ جائے
میں کیوں ڈروں انیس, بلا سے ڈریں وہ لوگ
جن کو کہ ظلِّ دامنِ حیدر نہیں ملا
درست
 
Top