یہاں تو کسی میں وفا ہی نہیں ہے
جفا کی یہاں تو سزا ہی نہیں ہے
وفادار جو ہیں دکھی ہیں وہی تو
وفا کرکےملتی وفا ہی نہیں ہے
وفا ی تو ساری سزا یہ ملی ہے
وفا کا کسی کو پتا ہی نہیں ہے
میں کِس کو سُناؤں دُکھ اپنا یہ جا کر
دلوں میں اُترتی سدا ہی نہیں ہے
بُرا ہے جُدا ہو کسی کی لُگائی
کرے گا جسے کچھ حیا ہی نہیں ہے
بنانا کسی کو بھی جانے نہ ارشد
بُرائی اُسے تو روا ہی نہیں ہے
 

راشد ماہیؔ

محفلین
اچھی کاوش ہے مگر
بہت جگہ ایک سے الفاظ ایک سے خیال بار بار استعمال کیے
جس سے غزل کا مزہ نہیں رہا
کئی قافیے ایک ہی معنی میں بار بار استعمال ہوئے
متبادل جیسے نبھا، صلہ، گلہ بھی لائے جاسکتے ہیں
آپ تو یوں اظہارِ جذبات کر کررہے ہیں جیسے
آپ کے پاس الفاظ بہت کم ہیں
حالانکہ اردو ہرگز بھی اتنی تنگ زبان نہیں ہے۔۔۔!
(کچھ اشعار کی مناسب سمجھ بھی نہیں آتی)
باقی اساتذہ کرام بہتر رہنمائی فرما سکتے ہیں
 
کوشش کریں کہ
لکھنے سے زیادہ ابھی پڑھنے پہ توجہ دیں جی!
پھر لکھے کا اصل مزہ آئے گا.
میرے خیال میں ایک شاعر کو ایک عام صاحبِ ذوق شخص کی نسبت دوسرے شعرا کے مطالعے سے جہاں تک ہو سکے گریز کرنا چاہیے، خصوصی طور پر جب وہ اسی زبان میں لکھتے ہوں۔ میرا جتنا تھوڑا بہت تجربہ ہے، چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ہم جس کا مطالعہ کر رہے ہوں ان کا اثر غالب (پن مقصود نہیں تھا، جیسے انگریزی میں کہتے ہیں)آ جاتا ہے، حتی کہ ہم ایک طرح سے "کاپی پیسٹ" کرنے لگ جاتے ہیں، جس سے بچنا چاہیے۔سب سے بڑا نقصان مجھے لگتا ہے یہ ہوتا ہے کہ اس سے سوچ کی حدود مختصر تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔

جہاں تک مجھے معلوم ہے علامہ اقبال (میں ویسے ان کا بڑا مداح نہیں ہوں لیکن یہ الگ بات ہے) بھی فارسی شعرا کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ پڑھتے تھے۔ یقینا ان کی فارسی بھی اتنی اچھی ہو گی جتنی ان کی انگریزی تھی مگر میرے خیال میں وہ چاہتے ہوں گے کہ وہ پرانے شعرا کے خیالات سے ہم خیال بھی ہوں اور ان کی انفرادیت بھی برقرار رہے۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تین اشعار تقریبا ایک جیسے ہیں۔
یہ باقی تین ۔۔۔۔
دلوں میں اُترتی سدا ہی نہیں ہے
؟سدا یا صدا؟

بُرا ہے جُدا ہو کسی کی لُگائی
کرے گا جسے کچھ حیا ہی نہیں ہے
۔۔۔لگائی بمعنی بیوی؟ مگر یہ فصیح لفظ نہیں

بنانا کسی کو بھی جانے نہ ارشد
بُرائی اُسے تو روا ہی نہیں ہے
۔۔۔سمجھ نہیں سکا
 

راشد ماہیؔ

محفلین
میرے خیال میں ایک شاعر کو ایک عام صاحبِ ذوق شخص کی نسبت دوسرے شعرا کے مطالعے سے جہاں تک ہو سکے گریز کرنا چاہیے، خصوصی طور پر جب وہ اسی زبان میں لکھتے ہوں۔ میرا جتنا تھوڑا بہت تجربہ ہے، چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ہم جس کا مطالعہ کر رہے ہوں ان کا اثر غالب (پن مقصود نہیں تھا، جیسے انگریزی میں کہتے ہیں)آ جاتا ہے، حتی کہ ہم ایک طرح سے "کاپی پیسٹ" کرنے لگ جاتے ہیں، جس سے بچنا چاہیے۔سب سے بڑا نقصان مجھے لگتا ہے یہ ہوتا ہے کہ اس سے سوچ کی حدود مختصر تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔

جہاں تک مجھے معلوم ہے علامہ اقبال (میں ویسے ان کا بڑا مداح نہیں ہوں لیکن یہ الگ بات ہے) بھی فارسی شعرا کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ پڑھتے تھے۔ یقینا ان کی فارسی بھی اتنی اچھی ہو گی جتنی ان کی انگریزی تھی مگر میرے خیال میں وہ چاہتے ہوں گے کہ وہ پرانے شعرا کے خیالات سے ہم خیال بھی ہوں اور ان کی انفرادیت بھی برقرار رہے۔


حضور استاد شعرا کو پڑھنا کسی حد تک لازم ہے
کاپی کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ سیکھنے کی نیت سے
 
Top