برائے اصلاح و تنقید (غزل 47)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
الجھا ہے تارِ ہستی پر پیچ الجھنوں میں
پر درد ساعتوں میں خاموش رتجگوں میں

جب سیندھ لگ رہی ہو ایمان پر ہمارے
محفوظ کس طرح ہو میراث آنگنوں میں

شکوہ کروں تو کس سے، لٹ جائے قافلہ گر
یاران و ہم نفس ہیں صف بستہ رہزنوں میں

حاصل ہو کیا اے واعظ تلقینِ لا الٰہ سے
خود تیرا نقشِ پا ہی لے جائے گر بتوں میں

اترائے نامۂِ دل، درِ خانۂِ صنم پر
اس کا شمار ہو گا ردی کے کاغذوں میں
 
قوافی محلِ نظر ہیں۔ اپنی مفرد حالت میں الجھن، رت جگا، کاغذ، بت کسی طور بھی ہم قافیہ نہیں ہو سکتے یہی اصول ان کی جمع حالتوں پر بھی لاگو ہوگا۔
حاصل ہو کیا اے واعظ تلقینِ لا الٰہ سے
اے کو یک حرفی باندھا درست نہیں۔
بحر تبدیل ہو گئی یہاں، فعِلات فاعلاتن اور مفعول فاعلاتن کا خلط جائز نہیں۔

سیندھ لگنا میرے لیے نیا ہے۔ معانی عطا کر دیں تو شکرگزار ہوں گا۔
 

امان زرگر

محفلین
قوافی محلِ نظر ہیں۔ اپنی مفرد حالت میں الجھن، رت جگا، کاغذ، بت کسی طور بھی ہم قافیہ نہیں ہو سکتے یہی اصول ان کی جمع حالتوں پر بھی لاگو ہوگا۔

۔

فلک پہ چھائے ہوئے بکھرے بادلوں جیسا
برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا
نہ ہوں گے محو کبھی ذہن سے مرے اجداد
گئے ہیں چھوڑ یہ ورثہ جو رتجگوں جیسا
اُسی کلامِ منّور کی جستجُو ہے ہمیں
ضیا میں جس کی تحرّک ہو جگنوؤں جیسا
یہ تم ہنسے ہو کہ گردش میں ہے لہو اپنا
اٹھا کہاں سے چھناکا یہ پائلوں جیسا
یہ کیوں تمہارا تعاقب ہی ہر نگاہ کو ہے
برس لگا ہے یہ کیا تازہ موسموں جیسا
جگا رہاہے نگاہوں میں ذائقے کیا کیا
بدن تمہارا کہ ہے رس بھرے پھلوں جیسا
بجاکہ ایک تُنک خو ہو تُم ہزاروں میں
ملا ہے ظرف ہمیں بھی سمندروں جیسا
کچھ ایسی چاہ ہمیں ہی نہیں ہے بھنوروں سی
بدن ملا ہے تمہیں بھی تو گلشنوں جیسا
نہ سست رو کبھی دیکھا ترا قلم ماجدؔ
اِسے دیا ہے یہ رَم کس نے آہوؤں جیسا
ماجد صدیقی​
 

امان زرگر

محفلین
آخری تدوین:
مثال کے طور پر پچھلے دنوں ایک صاحب کے ایک مصرع کے وزن پر اعتراض کیا تو انہوں نے عروض پر تقطیع کر کے سکرین شاٹ دکھا دی۔
دراصل انہوں نے عِلم استعمال کیا تھا، جبکہ عروض نے اسے عَلَم کے وزن پر دیکھ کر درست قرار دے دیا۔
 
فلک پہ چھائے ہوئے بکھرے بادلوں جیسا
برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا
نہ ہوں گے محو کبھی ذہن سے مرے اجداد
گئے ہیں چھوڑ یہ ورثہ جو رتجگوں جیسا
اُسی کلامِ منّور کی جستجُو ہے ہمیں
ضیا میں جس کی تحرّک ہو جگنوؤں جیسا
یہ تم ہنسے ہو کہ گردش میں ہے لہو اپنا
اٹھا کہاں سے چھناکا یہ پائلوں جیسا
یہ کیوں تمہارا تعاقب ہی ہر نگاہ کو ہے
برس لگا ہے یہ کیا تازہ موسموں جیسا
جگا رہاہے نگاہوں میں ذائقے کیا کیا
بدن تمہارا کہ ہے رس بھرے پھلوں جیسا
بجاکہ ایک تُنک خو ہو تُم ہزاروں میں
ملا ہے ظرف ہمیں بھی سمندروں جیسا
کچھ ایسی چاہ ہمیں ہی نہیں ہے بھنوروں سی
بدن ملا ہے تمہیں بھی تو گلشنوں جیسا
نہ سست رو کبھی دیکھا ترا قلم ماجدؔ
اِسے دیا ہے یہ رَم کس نے آہوؤں جیسا
ماجد صدیقی​
معذرت کہ سند میں تو صرف کلاسیکی شعرا کی قبول کروں گا. میری مبتدیانہ رائے کے رد و قبول کا اختیار مگر آپ کے پاس موجود ہے. :)
 

امان زرگر

محفلین
معذرت کہ سند میں تو صرف کلاسیکی شعرا کی قبول کروں گا. میری مبتدیانہ رائے کے رد و قبول کا اختیار مگر آپ کے پاس موجود ہے. :)
اصل میں میں نے ماجد صدیقی کی اسی غزل کے قوافی سے انسپائریشن لے کر اپنی غزل کہی انہیں قوافی کے ساتھ۔ واحد جمع کا ذہن میں ہی نہیں آیا۔۔۔۔ خیر دیکھیں سر الف عین کیا حکم صادر فرماتے ہیں۔ اب قوافی کی تبدیلی تو مشکل امر ہے۔۔۔ غزل ہی قبول یا در ہو گی۔۔۔۔۔
 

امان زرگر

محفلین
معذرت کہ سند میں تو صرف کلاسیکی شعرا کی قبول کروں گا. میری مبتدیانہ رائے کے رد و قبول کا اختیار مگر آپ کے پاس موجود ہے. :)
ماجد صدیقی اور ذیل میں بھی منصور آفاق کی غزل سے یہ تو عیاں ہے کہ شعراء میں ان قافیوں کا رواج موجود ہے۔۔۔

صبح مانگی تو ملا تاریکیوں کا اجتماع
اور ان میں بھی کڑکتی بجلیوں کا اجتماع
میں ، میانوالی، نظر کی جھیل، جاں کا ریگزار
یار کی تصویر میں تھا منظروں کا اجتماع
گفتگو میں گمشدہ اقدار کا دن بھر ملال
ذہن میں شب بھر برہنہ لڑکیوں کا اجتماع
جمع ہیں حکمت بھری دنیا کے سارے پیشہ ور
کابل و قندھار میں ہے قاتلوں کا اجتماع
یاد کی مرغابیاں ، بگلے خیال و خواب کے
پانیوں پر دور تک اڑتے پروں کا اجتماع
ایک کافر کی زباں بہکی ہے میرے شہر میں
ہر گلی ہر موڑ پر ہے پاگلوں کا اجتماع
بس تمہی سے تھاپ پر بجتے دھڑکتے ہال میں
روشنی کے رقص کرتے دائروں کا اجتماع
جانتا ہوں دھوپ سے میرے تعلق کے سبب
آسماں پر ہے ابھی تک بادلوں کا اجتماع
بارشیں برساتِ غم کی، میری آنکھیں اور میں
کوچہء جاں میں عجب ہے رحمتوں کا اجتماع
مجلسِ کرب و بلا کے آج زیر اہتمام
ہو رہا ہے شہر دل میں آنسوئوں کا اجتماع
شہر میں بیساکھیوں کے کارخانے کے لیے
رات بھر ہوتا رہا بالشتیوں کا اجتماع
ہاتھ کی الجھی لکیریں کس گلی تک آ گئیں
ذہن کے دیوار پر ہے زاویوں کا اجتماع
چل پہن مایا لگا جوڑا، چمکتی کھیڑیاں
دشمنوں کے شہر میں ہے دوستوں کا اجتماع
ایک پاگل ایک جاہل اک سخن نا آشنا
مانگتا ہے حرف میں خوش بختیوں کا اجتماع
ہیں کسی کے پاس گروی اپنی آنکھیں اپنے خواب
کیا کروں جو شہر میں ہے سورجوں کا اجتماع
رات کا رستہ ہے شاید پاؤں میں منصور کے
کر رہا ہے پھر تعاقب جگنوئوں کا اجتماع
منصور آفاق​
 
ماجد صدیقی اور ذیل میں بھی منصور آفاق کی غزل سے یہ تو عیاں ہے کہ شعراء میں ان قافیوں کا رواج موجود ہے۔۔۔

صبح مانگی تو ملا تاریکیوں کا اجتماع
اور ان میں بھی کڑکتی بجلیوں کا اجتماع
میں ، میانوالی، نظر کی جھیل، جاں کا ریگزار
یار کی تصویر میں تھا منظروں کا اجتماع
گفتگو میں گمشدہ اقدار کا دن بھر ملال
ذہن میں شب بھر برہنہ لڑکیوں کا اجتماع
جمع ہیں حکمت بھری دنیا کے سارے پیشہ ور
کابل و قندھار میں ہے قاتلوں کا اجتماع
یاد کی مرغابیاں ، بگلے خیال و خواب کے
پانیوں پر دور تک اڑتے پروں کا اجتماع
ایک کافر کی زباں بہکی ہے میرے شہر میں
ہر گلی ہر موڑ پر ہے پاگلوں کا اجتماع
بس تمہی سے تھاپ پر بجتے دھڑکتے ہال میں
روشنی کے رقص کرتے دائروں کا اجتماع
جانتا ہوں دھوپ سے میرے تعلق کے سبب
آسماں پر ہے ابھی تک بادلوں کا اجتماع
بارشیں برساتِ غم کی، میری آنکھیں اور میں
کوچہء جاں میں عجب ہے رحمتوں کا اجتماع
مجلسِ کرب و بلا کے آج زیر اہتمام
ہو رہا ہے شہر دل میں آنسوئوں کا اجتماع
شہر میں بیساکھیوں کے کارخانے کے لیے
رات بھر ہوتا رہا بالشتیوں کا اجتماع
ہاتھ کی الجھی لکیریں کس گلی تک آ گئیں
ذہن کے دیوار پر ہے زاویوں کا اجتماع
چل پہن مایا لگا جوڑا، چمکتی کھیڑیاں
دشمنوں کے شہر میں ہے دوستوں کا اجتماع
ایک پاگل ایک جاہل اک سخن نا آشنا
مانگتا ہے حرف میں خوش بختیوں کا اجتماع
ہیں کسی کے پاس گروی اپنی آنکھیں اپنے خواب
کیا کروں جو شہر میں ہے سورجوں کا اجتماع
رات کا رستہ ہے شاید پاؤں میں منصور کے
کر رہا ہے پھر تعاقب جگنوئوں کا اجتماع
منصور آفاق​
کلاسیکی تو منصور آفاق بھی نہیں۔ :p
اور بہرحال سند بھی نہیں ہیں۔ :)
ہم جیسے مبتدیوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
 
ماجد صدیقی اور ذیل میں بھی منصور آفاق کی غزل سے یہ تو عیاں ہے کہ شعراء میں ان قافیوں کا رواج موجود ہے
ممکن ہے کہ مجھے ہی مغالطہ ہوا ہو۔ لیکن پھر بھی میں کچھ حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کلاسیکی علمِ قافیہ کے مطابق یہ قوافی درست نہیں کیونکہ ان میں حرفِ روی کا اختلاف ہے۔ لیکن اگر ان قوافی کی مدد سے ایسے اشعار تخلیق کر لیے جائیں جو عیب کو چھپا دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ منصور آفاق صاحب کی غزل کافی اچھی ہے۔
میں ، میانوالی، نظر کی جھیل، جاں کا ریگزار
یار کی تصویر میں تھا منظروں کا اجتماع
واہ!
 

امان زرگر

محفلین
ممکن ہے کہ مجھے ہی مغالطہ ہوا ہو۔ لیکن پھر بھی میں کچھ حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کلاسیکی علمِ قافیہ کے مطابق یہ قوافی درست نہیں کیونکہ ان میں حرفِ روی کا اختلاف ہے۔ لیکن اگر ان قوافی کی مدد سے ایسے اشعار تخلیق کر لیے جائیں جو عیب کو چھپا دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ منصور آفاق صاحب کی غزل کافی اچھی ہے۔

واہ!
تو مطلب اچھے اشعار کی صورت میں قوانین میں رعایت موجود ہے۔۔۔۔ مگر اب یہ اچھے اشعار کی سند کدھر سے ملے!!!!
 
Top