برائے اصلاح (مفعول مفاعلن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
اس دل میں مکیں کوئی نہیں ہے
سچ کہہ دوں' نہیں کوئی نہیں ہے

تُو بھی تو ہے باسی اِس جہاں کا
تجھ پر بھی یقیں کوئی نہیں ہے

دیکھے ہے کیا کہ دور تک بھی
اے جانِ حزیں کوئی نہیں ہے

وہ چھوڑ گیا محل یہ دل کا
اب تخت نشیں کوئی نہیں ہے

یہ ٹھیک ہے' ہوں گے حُسن والے
تجھ سا تو حسیں کوئی نہیں ہے

کرتا ہے تُو بات آسماں کی
اپنی تو زمیں کوئی نہیں ہے

سجدے ہیں نوید نام کے اب
بے تاب جبیں کوئی نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل۔
اس شعر میں
تُو بھی تو ہے باسی اِس جہاں کا
باسی کا ’ی‘ کا اسقاط خوشگوار تاثتر نہیں دے رہا۔ الفاظ کی نشست بدل دو۔ مثلاً
تو بھی ہے اسی جہاں کا باسی
 
Top