برائے اصلاح: محبت میں کبھی بھی ہم کوئی سودا نہیں کرتے

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

محبت میں کبھی بھی ہم کوئی سودا نہیں کرتے
ہماری جیت ہو گی، ہار! یہ سوچا نہیں کرتے

یہ لازم ہے کہ رکھتا ہو وُہ صفتیں بھی خداؤں سی
کسی ہم ایسے ویسے شخص کی پوجا نہیں کرتے

جو ہیں اک ہاتھ سے دیتے چھُپا کر دوسرے سے ، وُہ
ضرورت جان لیتے ہیں کبھی پوچھا نہیں کرتے

یقیں رکھتے ہوں مولا پر اور اپنے آپ پر بھی جو
وُہ بازی کوئی بھی میدان میں ہارا نہیں کرتے

ہمارا حق جو بنتا ہے اسے ہم چھین لیتے ہیں
ہم اپنے ٹیک کر گھٹنے کبھی مانگا نہیں کرتے

سیاستدان طبقے سے کوئی امید مت رکھیے
گرجنے والے یہ بادل کبھی برسا نہیں کرتے

وُہ کاروبار کرتے ہیں چمن کا غیر ملکوں میں
جو مالی خون سے باغات کو سینچا نہیں کرتے

نہ سیدھی کُتے کی دم ہو کبھی پائپ میں رکھنے سے
جو عادی لات کے ہوں بات سے مانا نہیں کرتے

دلاتے یاد ہو اس کو کبھی وعدے کبھی قسمیں
نمک زخموں پہ بھی مقبول یوں چھڑکا نہیں کرتے
 

الف عین

لائبریرین
محبت میں کبھی بھی ہم کوئی سودا نہیں کرتے
ہماری جیت ہو گی، ہار! یہ سوچا نہیں کرتے
... وہ مشق نہیں کی گئی جس کا میں کہتا ہوں کہ ہر ممکن ترکیب/ترتیب استعمال کر کے دیکھی جائے
پہلے مصرع میں 'کبھی بھی' اور دوسرے میں جیت ہو گی یا ہار' کی کمی سے روانی اچھی نہیں لگتی

یہ لازم ہے کہ رکھتا ہو وُہ صفتیں بھی خداؤں سی
کسی ہم ایسے ویسے شخص کی پوجا نہیں کرتے
.. صفَت ہندی جمع، یعنی "یں" لگانے سے بنائی جائے تب بھی ف ساکن نہیں ہو سکتی

جو ہیں اک ہاتھ سے دیتے چھُپا کر دوسرے سے ، وُہ
ضرورت جان لیتے ہیں کبھی پوچھا نہیں کرتے
... پہلے مصرع کا بیانیہ مجہول ہے

یقیں رکھتے ہوں مولا پر اور اپنے آپ پر بھی جو
وُہ بازی کوئی بھی میدان میں ہارا نہیں کرتے
.. درست

ہمارا حق جو بنتا ہے اسے ہم چھین لیتے ہیں
ہم اپنے ٹیک کر گھٹنے کبھی مانگا نہیں کرتے
.. ٹھیک، ویسے دوسرے مصرعے کا بیانیہ بہتر کیا جا سکے تو بہتر ہے کہ 'گھٹنے ٹیک کر' ایک ساتھ آ سکے

سیاستدان طبقے سے کوئی امید مت رکھیے
گرجنے والے یہ بادل کبھی برسا نہیں کرتے
.. درست، دوسرا مصرع
گرجنے والے بادل ہیں، کبھی برسا.....
بہتر ہے؟

وُہ کاروبار کرتے ہیں چمن کا غیر ملکوں میں
جو مالی خون سے باغات کو سینچا نہیں کرتے
.. جو مالی خوں سے اپنے باغ... بہتر ہو گا

نہ سیدھی کُتے کی دم ہو کبھی پائپ میں رکھنے سے
جو عادی لات کے ہوں بات سے مانا نہیں کرتے
.. یہ مزاحیہ شعر نکال دو

دلاتے یاد ہو اس کو کبھی وعدے کبھی قسمیں
نمک زخموں پہ بھی مقبول یوں چھڑکا نہیں کرتے
.. دلاتے یاد ہو.. بھی مجہول بیانیہ ہے
دلادیتے ہو یاد اس کو....بہتر نہیں!
دوسرا مصرع بھی بہتر ہوسکتا ہے
نمک، مقبول، زخموں پر بھی یوں...
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
سر، بہت مہربانی
اب دیکھیے
محبت میں کبھی بھی ہم کوئی سودا نہیں کرتے
ہماری جیت ہو گی، ہار! یہ سوچا نہیں کرتے
... وہ مشق نہیں کی گئی جس کا میں کہتا ہوں کہ ہر ممکن ترکیب/ترتیب استعمال کر کے دیکھی جائے
پہلے مصرع میں 'کبھی بھی' اور دوسرے میں جیت ہو گی یا ہار' کی کمی سے روانی اچھی نہیں لگتی
محبت میں کسی صورت بھی ہم سودا نہیں کرتے
کہ ہو گی جیت یا پھر ہار یہ سوچا نہیں کرتے
یہ لازم ہے کہ رکھتا ہو وُہ صفتیں بھی خداؤں سی
کسی ہم ایسے ویسے شخص کی پوجا نہیں کرتے
.. صفَت ہندی جمع، یعنی "یں" لگانے سے بنائی جائے تب بھی ف ساکن نہیں ہو سکتی
یہ لازم ہے کہ وُہ اوصاف رکھتا ہو خداؤں سے
کسی ہم ایسے ویسے شخص کی پوجا نہیں کرتے
جو ہیں اک ہاتھ سے دیتے چھُپا کر دوسرے سے ، وُہ
ضرورت جان لیتے ہیں کبھی پوچھا نہیں کرتے
... پہلے مصرع کا بیانیہ مجہول ہے
فقط دیدار ہو گا یا کہ ہو گی ہم نشینی بھی
نظر سے جان لیتے ہیں، ہم اب پوچھا نہیں کرتے
ہمارا حق جو بنتا ہے اسے ہم چھین لیتے ہیں
ہم اپنے ٹیک کر گھٹنے کبھی مانگا نہیں کرتے
.. ٹھیک، ویسے دوسرے مصرعے کا بیانیہ بہتر کیا جا سکے تو بہتر ہے کہ 'گھٹنے ٹیک کر' ایک ساتھ آ سکے
ہمارا حق جو بنتا ہے اسے ہم چھین لیتے ہیں
ہم اپنا حصہ گھٹنے ٹیک کر مانگا نہیں کرتے
سیاستدان طبقے سے کوئی امید مت رکھیے
گرجنے والے یہ بادل کبھی برسا نہیں کرتے
.. درست، دوسرا مصرع
گرجنے والے بادل ہیں، کبھی برسا.....
بہتر ہے؟
ہمارے حکمراں کرتے ہیں سارے کھوکھلے دعوے
گرجنے والے بادل ہیں یہ ، جو برسا نہیں کرتے
وُہ کاروبار کرتے ہیں چمن کا غیر ملکوں میں
جو مالی خون سے باغات کو سینچا نہیں کرتے
.. جو مالی خوں سے اپنے باغ... بہتر ہو گا
وُہ نا قدروں کے آگے پھول تک بھی بیچ دیتے ہیں
جو مالی خوں سے اپنے باغ کو سینچا نہیں کرتے
نہ سیدھی کُتے کی دم ہو کبھی پائپ میں رکھنے سے
جو عادی لات کے ہوں بات سے مانا نہیں کرتے
.. یہ مزاحیہ شعر نکال دو
سر، اسے سنجیدہ کرنے کی کوشش کی ۔ اگر قبول ہو تو ٹھیک ورنہ ردی کی ٹوکری میں جائے گا
نہ سیدھے ہوں گے یہ ٹیڑھے ,کرو تم لاکھ بھی کوشش
جو عادی لات کے ہوں بات سے مانا نہیں کرتے
دلاتے یاد ہو اس کو کبھی وعدے کبھی قسمیں
نمک زخموں پہ بھی مقبول یوں چھڑکا نہیں کرتے
.. دلاتے یاد ہو.. بھی مجہول بیانیہ ہے
دلادیتے ہو یاد اس کو....بہتر نہیں!
دوسرا مصرع بھی بہتر ہوسکتا ہے
نمک، مقبول، زخموں پر بھی یوں...
دلا دیتے ہو یاد اس کو کبھی وعدے کبھی قسمیں
نمک، مقبول، زخموں پر بھی یوں چھڑکا نہیں کرتے
 

الف عین

لائبریرین
یہ لازم ہے کہ وُہ اوصاف رکھتا ہو خداؤں سے
..." خداؤں کے" ہونا چاہیے نا!

فقط دیدار ہو گا یا کہ ہو گی ہم نشینی بھی
نظر سے جان لیتے ہیں، ہم اب پوچھا نہیں کرتے
.. اس کا مضمون پسند نہیں آیا، شعر ویسے درست ہے تکنیکی طور پر
لات والےشعرکو لات مار ہی دو اب!
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں
 
Top