برائے اصلاح: مجھ کو اپنا غلام رہنے دو

مقبول

محفلین
سر الف عین
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے

اتنا تو شاد کام رہنے دو
مجھ کو اپنا غلام رہنے دو

خوش تو ہوں گا کہ میرے شہر آؤ
درد کر دو گے عام، رہنے دو

سارے رشتے نہ توڑ کر جاؤ
کچھ دُعا و سلام رہنے دو

باندھنا ہے تو باندھو نفرت کو
پیار کو بے لگام رہنے دو

ٹھیک ہے میری ہے زباں بندی
خود سے تو ہم کلام رہنے دو

یاد باقی ہے جب تلک اس کی
میرے ہاتھوں میں جام رہنے دو

ہم تو بے مول ہی تمہارے ہیں
کیا لگاؤ گے دام ، رہنے دو

کیا کیا زندگی نے، مت پوچھو
دُکھ بھرے ہیں تمام، رہنے دو

صبح کی روشنی لے جاؤ تم
میرے حصے میں شام رہنے دو

اتنے بدنام بھی نہ ہو مقبول
کچھ تو اپنا مقام رہنے دو
 

الف عین

لائبریرین
کیا کیا زندگی نے، مت پوچھو
دُکھ بھرے ہیں تمام، رہنے دو

صبح کی روشنی لے جاؤ تم
میرے حصے میں شام رہنے دو
باقی تو سارے درست لگ رہے ہیں، بس یہ دو اشعار دیکھو
پہلا ایک تو واضح نہیں ہے، دکھ کہاں بھرے ہیں؟ یہ تو بتایا ہی نہیں گیا! "کیا کیا" کا پہلا کیا استفہام ہے لیکن دوسرا فعل ماضی، لیکن کوئی کنفیوز ہو سکتا ہے
دوسرے شعر میں ے کا اسقاط اچھا نہیں لگتا
صبح کا نور سارا لے جاؤ
کیسا رہے گا؟
 

مقبول

محفلین
سر الف عین ، بہت شکریہ
ہلا ایک تو واضح نہیں ہے، دکھ کہاں بھرے ہیں؟ یہ تو بتایا ہی نہیں گیا! "کیا کیا" کا پہلا کیا استفہام ہے لیکن دوسرا فعل ماضی، لیکن کوئی کنفیوز ہو سکتا ہے
کیا دیا زندگی نے ، مت دیکھو
دُکھ ملے ہیں تمام ، رہنے دو
یا
دُکھ ہی دُکھ میں تمام ، رہنے دو
دوسرے شعر میں ے کا اسقاط اچھا نہیں لگتا
صبح کا نور سارا لے جاؤ
کیسا رہے گا؟
سر، عمدہ ہے۔ کچھ اور ذہن میں آ رہا تھا یہ بھی دیکھ لیجیے
صبح کی روشنی تمہاری سہی
 

الف عین

لائبریرین
سر الف عین ، بہت شکریہ

کیا دیا زندگی نے ، مت دیکھو
دُکھ ملے ہیں تمام ، رہنے دو
یا
دُکھ ہی دُکھ میں تمام ، رہنے دو
ہاں یہ واضح ہے، ثانی مصرع پہلا متبادل ہی بہتر ہے
سر، عمدہ ہے۔ کچھ اور ذہن میں آ رہا تھا یہ بھی دیکھ لیجیے
صبح کی روشنی تمہاری سہی
یہ بھی خوب ہے، جو چاہو، رکھو
 
Top