برائے اصلاح ( فاعلاتن فعلاتن فعلن)

نوید ناظم

محفلین
ہم نے جس کو بھی جہاں دیکھا ہے
درد سینے میں نہاں دیکھا ہے

جب محبت میں وفا ہوتی تھی
تم نے وہ دور کہاں دیکھا ہے

لوٹ کر اب وہ نہیں آئے گا
دوست ہم نے بھی جہاں دیکھا ہے

حضرتِ شَیخ ہوں گے میخانے
رات ان کو بھی وہاں دیکھا ہے

درد جو لب پہ نہیں تھا وہ بھی
تیری آنکھوں میں عیاں دیکھا ہے

دل سے شعلے بھی اٹھا کرتے تھے
تم نے تو صرف دھواں دیکھا ہے

یہ محبت ہمیں راس آئے گی
ہم نے اس میں بھی زیاں دیکھا ہے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔ اور
حضرتِ شَیخ ہوں گے میخانے
رات ان کو بھی وہاں دیکھا ہے
پہلے مصرع کے الفاظ بدل دیں۔ ہوں گے کا ’ہُ گے‘ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔
شیخ مے خانے میں ہوں گے شاید
 

نوید ناظم

محفلین
مطلع دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔ اور
حضرتِ شَیخ ہوں گے میخانے
رات ان کو بھی وہاں دیکھا ہے
پہلے مصرع کے الفاظ بدل دیں۔ ہوں گے کا ’ہُ گے‘ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔
شیخ مے خانے میں ہوں گے شاید

بہت شکریہ سر۔۔
مطلع لکھتے ہوئے مجھے بھی دو لخت لگا، لیکن کوئی متبادل ذہن میں نہ آیا تو مجبوراً اسی پر اکتفا کر لیا کہ یہی قریب ترین محسوس ہوا۔

شیخ مے خانے میں ہوں گے شاید۔۔۔ سبحان اللہ' اس میں تو روانی اور اسلوب دونوں بہتر ہو گئے۔
 
Top