برائے اصلاح۔ اک ہجومِ رہبراں ہے اور میں ہوں

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ

اک ہجومِ رہبراں ہے اور میں ہوں
کیا قیامت کا سماں ہے اور میں ہوں

کیا کہوں ہے کب تلک دستار سر پر
ایک شہرِ بے اماں ہے اور میں ہوں

پھر تری راہوں پہ آ نکلا تو ہوں میں
لیکن اب شورِ سگاں ہے اور میں ہوں

تیری محفل میں یہ میرا حال ہے اب
بس رقیبوں کی زباں ہے اور میں ہوں

بلبلوں کے تھے ترانے جس جگہ پر
اب وہاں پر بس دھواں ہے اور میں

سنتِ کنعان ہو گی کیا ادا پھر
یا
سنتِ کنعاں کے پورے ہیں لوازم
خواب ہے، اندھا کنواں ہے، اور میں ہوں

قافلہِ دوستاں تو جا چکا ہے
نقشِ پائے دوستاں ہے اور میں ہوں

دشتِ الفت کی سلگتی ریت ہے اور
اک تلاشِ گمرہاں ہے اور میں ہوں​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ

اک ہجومِ رہبراں ہے اور میں ہوں
کیا قیامت کا سماں ہے اور میں ہوں​
کیا سبھی رہبر ہیں؟ یہ سوال اٹھ سکتا ہے

کیا کہوں ہے کب تلک دستار سر پر
ایک شہرِ بے اماں ہے اور میں ہوں​
کب تک رہے دستار... بہتر بیانیہ ہو گا، "تلک" سے بھی بچا جا سکتا ہے
کیا کہوں/خبر/پتہ کب تک رہے دستار....
پھر تری راہوں پہ آ نکلا تو ہوں میں
لیکن اب شورِ سگاں ہے اور میں ہوں

تیری محفل میں یہ میرا حال ہے اب
بس رقیبوں کی زباں ہے اور میں ہوں

بلبلوں کے تھے ترانے جس جگہ پر
اب وہاں پر بس دھواں ہے اور میں​
تینوں درست ہیں

سنتِ کنعان ہو گی کیا ادا پھر
یا
سنتِ کنعاں کے پورے ہیں لوازم
خواب ہے، اندھا کنواں ہے، اور میں ہوں​
دونوں متبادلات میں روانی کم ہے

قافلہِ دوستاں تو جا چکا ہے
نقشِ پائے دوستاں ہے اور میں ہوں​
قافلۂ کا درست وزن فاعلتن ہے، یہاں فاعلاتن بنا دیا گیا ہے، اس کی بجائے کاروان استعمال کرو،
دوستاں کا نقش پا کس طرح ممکن ہے، نقوش کہنا ضروری ہے

دشتِ الفت کی سلگتی ریت ہے اور
اک تلاشِ گمرہاں ہے اور میں ہوں​
ٹھیک ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم -روفی بھائی !

یہ بحر اردو میں بہت کم مستعمل ہے -ایسی کم یاب بحر میں طبع آزمائی سے روانی میں فرق آتا ہے -لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آپ کی کاوش سے محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ایک غیر مستعمل بحر ہے -

اک ہجومِ رہبراں ہے اور میں ہوں
کیا قیامت کا سماں ہے اور میں ہوں

ہجوم رہبراں اور قیامت کا سماں میں کوئی ربط نظر نہیں آتا -

کیا کہوں ہے کب تلک دستار سر پر
ایک شہرِ بے اماں ہے اور میں ہوں

واہ -خوب

پھر تری راہوں پہ آ نکلا تو ہوں میں
لیکن اب شورِ سگاں ہے اور میں ہوں

راہوں کے بجائے راہ لے آئیں اور بھرتی کے لفظ ختم کر دیں -

راہ میں تیری پھر آ نکلا تو ہوں میں
ایک غوغا ئے سگاں ہے اور میں ہوں


تیری محفل میں یہ میرا حال ہے اب
بس رقیبوں کی زباں ہے اور میں ہوں

اس میں بھی کچھ بہتری کی کوشش کیجیے


بلبلوں کے تھے ترانے جس جگہ پر
اب وہاں پر بس دھواں ہے اور میں

مزہ نہیں آیا -"پر " دو بار جچتا نہیں - ایک تو بھرتی اوپر سے تکرار -

سنتِ کنعان ہو گی کیا ادا پھر
یا
سنتِ کنعاں کے پورے ہیں لوازم
خواب ہے، اندھا کنواں ہے، اور میں ہوں

اسے تو یوں کر دیں :

سنتِ یوسف(ع ) ادا ہونے کو ہے کیا
بھائی ہیں، اندھا کنواں ہے اور میں ہوں

قافلہِ دوستاں تو جا چکا ہے
نقشِ پائے دوستاں ہے اور میں ہوں

قافلہ کی جگہ کارواں کر دیں -
دشتِ الفت کی سلگتی ریت ہے اور
اک تلاشِ گمرہاں ہے اور میں ہوں

تلاش گمرہاں کا کیا مطلب ؟ کیا آپ گمراہوں کو تلاش کر رہے ہیں سلگتی ریت پر کہ کب آئیں اور ہم کبڈی کھیلیں ؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترمی الف عین ، یاسر شاہ صاحب

اک ہجومِ رہبراں ہے اور میں ہوں
بھولا بھٹکا کارواں ہے اور میں ہوں

کیا خبر کب تک رہے دستار سر پر
ایک شہرِ بے اماں ہے اور میں ہوں

راہ پر تیری پھر آ نکلا تو ہوں میں
ایک غوغائے سگاں ہے اور میں ہوں

رنگِ بزمِ دوستاں ہے جب سے بدلا
اب رقیبوں کی زباں ہے اور میں ہوں

کل یہیں پر بلبلیں نغمہ سرا تھیں
اب جہاں ہر سو دھواں ہے اور میں ہوں

سنتِ یوسف (ع) ادا ہونے کو ہے کیا
بھائی ہیں، اندھا کنواں ہے، اور میں ہوں

کاروانِ دوستاں تو جا چکا ہے
نقشِ پائے کارواں ہے اور میں ہوں

چھا گیا ہے ضعف اگرچہ تن بدن پر
پھر بھی اک حسرت جواں ہے اور میں ہوں
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
محترمی الف عین ، یاسر شاہ صاحب

اک ہجومِ رہبراں ہے اور میں ہوں
بھولا بھٹکا کارواں ہے اور میں ہوں

کیا خبر کب تک رہے دستار سر پر
ایک شہرِ بے اماں ہے اور میں ہوں

راہ پر تیری پھر آ نکلا تو ہوں میں
ایک غوغائے سگاں ہے اور میں ہوں

رنگِ بزمِ دوستاں ہے جب سے بدلا
اب رقیبوں کی زباں ہے اور میں ہوں

کل یہیں پر بلبلیں نغمہ سرا تھیں
اب جہاں ہر سو دھواں ہے اور میں ہوں

سنتِ یوسف (ع) ادا ہونے کو ہے کیا
بھائی ہیں، اندھا کنواں ہے، اور میں ہوں

کاروانِ دوستاں تو جا چکا ہے
نقشِ پائے کارواں ہے اور میں ہوں

چھا گیا ہے ضعف اگرچہ تن بدن پر
پھر بھی اک حسرت جواں ہے اور میں ہوں
ماشاء اللہ۔اچھی لگ رہی ہے غزل ۔
کل مطلع کچھ سست سست سا لگ رہا تھا مگر آپ نے بروقت تدوین کر دی۔

یہ مصرع بھی خوب تھا :
اک قیامت کا سماں ہے اور میں ہوں

اس پہ بھی گرہ لگائیں ،آپ چونکہ پردیسی ہیں تو یہ گرہ کیسی رہے گی :

پاس جورو ہے نہ ماں ہے اور میں ہوں
اک قیامت کا سماں ہے اور میں ہوں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ماشاء اللہ۔اچھی لگ رہی ہے غزل ۔
کل مطلع کچھ سست سست سا لگ رہا تھا مگر آپ نے بروقت تدوین کر دی۔
بہت شکریہ یاسر بھائی۔ آپ کی اور استاد صاحب کی کمال مہربانی ہے جو ہمارے ٹوٹی پھوٹی کاوش پر اپنا قیمتی وقت صرف فرما کر رہنمائی فرماتے ہیں۔
یہ مصرع بھی خوب تھا :
اک قیامت کا سماں ہے اور میں ہوں
درست۔ پھر اس پر کچھ "فکر فرماتا ہوں میں"
اس پہ بھی گرہ لگائیں ،آپ چونکہ پردیسی ہیں تو یہ گرہ کیسی رہے گی :

پاس جورو ہے نہ ماں ہے اور میں ہوں
اک قیامت کا سماں ہے اور میں ہوں
😄😄
 
Top