برائے اصلاح۔۔۔۔۔

شاکرالقادری

لائبریرین
چلو بسمل! یہاں اک قافیہ تجویز کرتے ہیں،
پھر اس کے بعد اک اک شعر عینی کا صلاح و مشورے سے بہتر و خوش تر بناتے ہیں
اگر ہو اتّفاق اس سے تو پھر آغاز کر ڈالو
 
چلو بسمل! یہاں اک قافیہ تجویز کرتے ہیں،
پھر اس کے بعد اک اک شعر عینی کا صلاح و مشورے سے بہتر و خوش تر بناتے ہیں
اگر ہو اتّفاق اس سے تو پھر آغاز کر ڈالو


میرے خیال میں ”ار“ قافیہ بہتر ہے۔ ار سے پہلے ایک متحرک۔ جیسے نظر، مگر، گھر، پر، در وغیرہ۔
دوسری صورت قافیہ الف ہوسکتا ہے۔ جیسے بڑا، ہرا، بھرا، وغیرہ۔ لیکن یہ تو شاعرہ پر منحصر ہے کے وہ کس طور اسے باندھنا چاہینگی۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میرے خیال میں ”ار“ قافیہ بہتر ہے۔ ار سے پہلے ایک متحرک۔ جیسے نظر، مگر، گھر، پر، در وغیرہ۔
دوسری صورت قافیہ الف ہوسکتا ہے۔ جیسے بڑا، ہرا، بھرا، وغیرہ۔ لیکن یہ تو شاعرہ پر منحصر ہے کے وہ کس طور اسے باندھنا چاہینگی۔
اگر تمہاری اول الذکر تجویز کو منظور ی مل جائے تو قافیہ بہرحال تنگ ہو جائے گا اور شاعرہ کے لیے نسبتاً مشکل صورت حال پیدا ہو جائے گی تاہم میرا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے مشق سخن ہوگی اور ہم سب کچھ نہ کچھ سیکھیں گے۔۔۔
تو پھر یہ ہے کہ مطلع کے دوسرے مصرع کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ:
ہرا ضرور ہے ہر پیڑ پر اُداس سا ہے
کی بجائے:
ہر ایک پیڑ ہرا ہے مگر اداس سا ہے

ہو جائے تو کیسا رہے گا؟

ہاں ایک اور بات ۔۔۔ ردیف میں ۔۔۔۔ اداس کے فوراً بعد دوسری سین ۔۔۔ اس سے کچھ بہتر آہنگ نہیں بن رہا
اگر ردیف میں بھی ترمیم کر کے یوں کر لیا جائے ۔۔۔۔ اداس لگا ۔۔
اسی صورت میں یہ مصرعہ یوں ہوگا

ہرایک پیڑ ہرا تھا مگر اداس لگا
 
اگر تمہاری اول الذکر تجویز کو منظور ی مل جائے تو قافیہ بہرحال تنگ ہو جائے گا اور شاعرہ کے لیے نسبتاً مشکل صورت حال پیدا ہو جائے گی تاہم میرا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے مشق سخن ہوگی اور ہم سب کچھ نہ کچھ سیکھیں گے۔۔۔
تو پھر یہ ہے کہ مطلع کے دوسرے مصرع کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ:

کی بجائے:
ہر ایک پیڑ ہرا ہے مگر اداس سا ہے

ہو جائے تو کیسا رہے گا؟

ہاں ایک اور بات ۔۔۔ ردیف میں ۔۔۔ ۔ اداس کے فوراً بعد دوسری سین ۔۔۔ اس سے کچھ بہتر آہنگ نہیں بن رہا
اگر ردیف میں بھی ترمیم کر کے یوں کر لیا جائے ۔۔۔ ۔ اداس لگا ۔۔
اسی صورت میں یہ مصرعہ یوں ہوگا

ہرایک پیڑ ہرا تھا مگر اداس لگا

متفق۔ مگر اگر۔ در بدر والا قافیہ ہی بہتر ہے۔
اور یہ سین ہی اصطلاح میں عیبِ تنافر ہے جس کی آپ نے نشاندہی کی۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
متفق۔ مگر اگر۔ در بدر والا قافیہ ہی بہتر ہے۔
اور یہ سین ہی اصطلاح میں عیبِ تنافر ہے جس کی آپ نے نشاندہی کی۔
تو پھر اسی قافیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مطلع کے مصرعہ اول کی اصلاح کی کو صورت کرو تاکہ مطلع مکمل ہو جائے ۔۔۔
اور سین کا معاملہ ۔۔۔۔۔۔ میں نے تو محض اپنے ذوق کی بنا پر دونوں سینوں (حرفِ سین مراد ہے) کے یکجا ہونے سے پیدا ہونے والی بد آہنگی کا ذکر کیا تھا آپ نے اچھا کیا کہ اصطلاح شعری "عیب تنافر" کا ذکر کر دیا ۔۔۔ اسطرح میں نے بھی کچھ سیکھ لیا ۔۔ شکریہ استاد جی!
:lovestruck:
 
تو پھر اسی قافیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مطلع کے مصرعہ اول کی اصلاح کی کو صورت کرو تاکہ مطلع مکمل ہو جائے ۔۔۔
اور سین کا معاملہ ۔۔۔ ۔۔۔ میں نے تو محض اپنے ذوق کی بنا پر دونوں سینوں (حرفِ سین مراد ہے) کے یکجا ہونے سے پیدا ہونے والی بد آہنگی کا ذکر کیا تھا آپ نے اچھا کیا کہ اصطلاح شعری "عیب تنافر" کا ذکر کر دیا ۔۔۔ اسطرح میں نے بھی کچھ سیکھ لیا ۔۔ شکریہ استاد جی!
:lovestruck:

جی حضرت اسی وجہ سے تو آپ کو اور الف عین صاحب کو استاد مانتے ہیں سب۔ ہم اصطلاحات کو یاد کر کے ہی خوش ہولیتے ہیں اور آپ انکا نام جانے بنا ہی کلام کے معائب اور محاسن کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ یہ مشق اور تجربے سے نیچرلی حاصل کیا ہوا علم ہے جسے ہم سمجھنے کے لئے کتابوں کو استاد بناتے ہیں۔ :) مجھے کم از کم بھاری بھرکم نام یاد کرنے والے کوئی اہمیت کے قابل نہیں لگتے۔ تھیوری رٹ لینے سے کوئی اتنا قابل نہیں ہوتا کے پریکٹیکل کر سکے۔
میں نے ایک بہت لمبے عرصے سونے کے زیورات پر ملمع سازی کی ہے بنا الیکٹرولائسس کے علم کے۔ لیکن جب کیمسٹری کی کتابیں کھولیں تو پتا لگا کے یہ ملمع سازی در اصل الیکٹرونز کی ہیر پھیر ہے جو پوزیٹو سے نیگیٹو پر جاکر کوٹ ہو جاتی ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کے کوئی اس تھیوری کو جاننے والا اپنی تھیوری کے ذریعے مجھ جاہل سے بہتر ملمع نہیں کر سکتا۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
اوہو تو شاکر بھائی بھی میری ہی کشتی میں سوار ہیں!!! ویسے میں نے کم از کم عیب تنافر کا نام سن رکھا تھا، بسمل نے لکھا تو یاد آیا کہ اس طرح حروف کے دہرائے جانے کے سقم کا نام ہے۔ میں نے تو کوئی کتاب ہی نہیں پڑھی عروض کی۔ جو سیکھا ہے وہ اپنے والد مرھوم سے سیکھا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ بات ہو چکی ہے کہ اس میں قافیہ غائب ہے۔مرے خیال میں دوسرے مصرع کا قافیہ مقرر کر لیا جائے۔ گھر اداس سا ہے، مگر اداس سا ہے، شجر اداس۔۔۔۔

تمہارے شہر کا موسم بہت اُداس سا ہے
ہرا ضرور ہے ہر پیڑ پر اُداس سا ہے
// اس کا پہلا مصرع دوسرا بنا دیا جائے، جیسے
ہرا ضرور ہے لیکن شجر اُداس سا ہے
تمہارے شہر کا موسم مگر اُداس سا ہے

الجھ رہی ہیں ہوائیں نجانے کیوں ان سے
ہر ایک پھول کا دل جب بجھا اُداس سا ہے
//یوں کر دو
الجھ رہی ہیں ہوائیں نجانے کیوں اس سے
کھلا ہے پھول ،مگر شاخ پر اُداس سا ہے

گزر رہی ہے کھٹن مرحلوں سے رات میری
ہے چاندنی تو بہت چاند پر اُداس سا ہے
//کٹھن کی جگہ اگر استفہامیہ انداز کر دیا جائے تو اور بہتر ہو۔
گزر رہی ہے یہ کن مرحلوں میں رات میری
ہے چاندنی تو بہت چاند پر اُداس سا ہے

میں چاہتی ہو ں تیرے پیار کی حدت ہر دم
یہ میرا شوق اور تیرا کرم اُداس سا ہے
//پہلا مصرع وزن میں نہیں آتا۔ قافیہ درست کرتے ہوئے یوں کہہ سکتی ہو
میں تیرے پیار کی حدت میں رہنا چاہتی ہوں
کرم ترا، مرا جذبہ مگر اداس سا ہے

سمجھے سکے گا کوئی کیسے دل کا حال خیال
یہ اُس کا شہر ہے اور رابطہ اُداس سا ہے۔۔
//رابطہ اداس سا ہے؟ کیا مطلب ہوا؟
سمجھ سکے گا کوئی کیسے دل کا حال خیال (سمجھے‘ شاید ٹائپو ہے)
ہے راہ اجنبی، تیرا نگر اداس سا ہےمزید یہ کہ یہ تمام مجوزہ ’اصلاحیں‘ نہیں ہیں۔ ان مصرعوں میں میں نے ان ہی خیالوں کو ڈھالنے کی کوشش کر دی ہے۔ ممکن ہے کہ تم ان قوافی کے ساتھ ہی کچھ اور شعر کہتیں تو اصلاح معنی خیز ہوتی۔ یہاں تو میں نے صرف قوافی لانے کی کوشش کی ہے۔ تمہاری طبیعت میں ماشاء اللہ موزونی بھی ہے اور خیالات بھی پختہ کار ہیں۔ واقعی تم اچھی شاعرہ بن سکتی ہو، اگر کچھ معمولی سے اصول جان جاؤ، بنیادی عروض، یعنی قوافی ردیف وغیرہ کے بارے میں۔
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ شاید تمہارا کچھ کلام اور بھی ہے جسے کاپی کرنا بھول گیا، یا اسے پرانا سمجھ کر بظر انداز کر گیا۔ میری درخواست ہے کہ باقی کلام کو ایک ہی جگہ کر کے پوسٹ کر دو مجھے ذاتی پیغام میں بھی اور یہاں بھی۔ میں انشاء اللہ اسی ‘حملے‘ میں اس کو بھی نمٹا دوں گا۔
 
Top