بدیع الزماں سعید نورسی کی کتاب رسالہ ِنور (اقوال)سے انتخاب -- مقالہ نمبر 1 : بسم اللہ

دیوان

محفلین
بدیع الزماں سعید نورسی، ایک مختصر تعارف
آپ کا پورا نام سعید نورسی تھا۔ بدیع الزماں آپ کا لقب تھا جو آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر آپ کے استادوں نے دیا تھا۔ ترکی کے صوبے تبلیس کے ضلع ہیزان کے گاؤں نورس میں 1873ء/1290ھ میں پیدا ہوئے۔ اسی نسبت سے انھیں نورسی کہا جاتا ہے۔ آپ نسلاً کرد تھے۔ آپ نو برس کی عمر میں دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں آپ کا شمار مشہور علما میں ہونے لگا۔ آپ نے قرآن کریم، حدیث، فقہ، تاریخ، فلسفہ، جغرافیہ اور دیگر علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ آپ کی قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ قرآن مجید کی لغت اور بہت سی اسلامی کتابیں زبانی یاد تھیں۔ آپ ہی کی کاوشیں تھیں جنہوں نے ترکی میں اسلام پسندی کی لہر چلا دی، ان کے بوئے ہوئے بیج اب تناور درخت بن چکے ہیں۔ جس کے پھلوں سے نا صرف ترکی بلکہ ساری امت مسلمہ فیض یاب ہو رہی ہے۔ آپ کی مشہور تصانیف میں اقوال، مکتوبات، لمعات، شعاعیں شامل ہیں۔یہ اور دیگر تصانیف رسالہ نور کے نام سے شائع ہوتی ہیں جو آپ کی کتابوں کا مجموعہ ہے۔
==============================================================================
بسم الله (یعنی اللہ کے نام سے) ہر اچھائی اور بھلائی کی بنیاد اور ہر اہم کام کا سَر آغاز ہے، اس لیے ہم بھی اسی سے آغاز کرتے ہیں۔ اے میرے نفس، تمہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ یہ پاکیزہ اور مبارک لفظ جس طرح اسلام کا ایک شعار ہے، اسی طرح یہ وہ برگزیدہ کلمہ ہے جس کا ورد تمام موجودات زبان حال سے کر رہی ہیں۔ پس اے عزیز من، اگر تیری یہ خواہش ہے کہ تجھے بسم اللہ میں پائی جانے والی اس دائمی اور عظیم الشان قوت اور نہ ختم ہونے والی وسیع و عریض برکات کا ادراک ہو جائے تو اس چھوٹی سی کہانی کو غور سے سن۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو آدمی ایک ایسے علاقے میں چلے گئے جہاں لاقانونیت اور بد امنی کا راج تھا۔ ایسی جگہوں میں سفر کرنے والے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی طاقتور کی حمایت اور حفاظت میں رہے، تا کہ غنڈوں، بدمعاشوں اور لٹیروں کی دستبرد سے محفوظ رہ کر اپنا کام سر انجام دے سکے۔ ایسا نہ کرنے والا بہت سی پریشانیوں میں گھر جائے گا اور کسی حادثے کا شکار ہو جانے کا اندیشہ بھی ہے۔ اب سن، ان آدمیوں میں سے ایک آدمی متواضع اور دوسرا خود سر اور مغرور تھا۔ عاجز اور متواضع آدمی اس علاقے کے ایک بہت طاقتور آدمی کی حفاظت میں آگیا۔ جب کہ مغرور آدمی نے کسی کے ساتھ اس قسم کا تعلق جوڑنے سے انکار کر دیا۔ طاقتور کے ساتھ تعلق رکھنے والے آدمی سے ہر کوئی عزت و احترام سے پیش آتا، اور اس تعلق کے باعث لٹیروں سے بھی اس کو حفاظت حاصل ہو گئی۔ جب کہ خود سر اور مغرور آدمی کو اس قدر مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا کہ جو بیان سے باہر ہے۔ وہ اپنے تمام سفر میں مستقل خوف و ہراس اور خطرات سے دو چار رہا، اور یوں اس نے اپنے آپ کو خود ہی ذلیل و رسوا کر لیا۔
پس اے میرے مغرور نفس، یاد رکھ کہ اس وسیع و عریض دنیا میں تو بھی مسافر کی طرح ہے۔ اور یہ دنیا جس میں تو گھوم پھر رہا ہے لاقانونیت کی جگہ ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھ کہ تیرے ساتھ ہر طرح کی ضرورتیں لگی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تیری کمزوری اور عاجزی کی بھی کوئی حد نہیں ہے (اپنی ضرورتوں اور بیماریوں کے معاملے میں وسائل کے باوجود اپنی بے بسی پر غور کر!)۔ اسی طرح تیرے دشمنوں کی حاجات و ضروریات کی بھی کوئی حد نہیں ہے (اور عین ممکن ہے کہ ان کی حاجت تجھ سے پوری ہوتی ہو جس کے نتیجے میں تو ان کے ظلم و زیادتی کا شکار ہو سکتا ہے)۔ تو حالت جب یہ ہے، تو پھر (بسم اللہ کے اقرار کے ذریعے جو تیرے عجز کا اظہار ہے) اس دنیا کے ابدی مالک اور ازلی حاکم کی پناہ میں آ جا، اس طرح تو دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور مصائب و حادثات کے سامنے خوف و خطر کی ذلت سے بچا رہے گا۔ یقینًا بسم اللہ ایسا بابرکت خزانہ ہے جو تیرے لامتناہی عجز و فقر کو (اللہ کی) وسیع اور بے پایاں رحمت و قدرت کے ساتھ منسلک کر دیتا ہے اور تیرے عجز و فقر کو اللہ قدیر رحیم کے حضور مقبول ترین سفارشی بنا دیتا ہے۔ یقینًا جو شخص بسم اللہ کے ساتھ حرکت کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی ہے جو فوج میں بھرتی ہو جائے، اب وہ کسی سے خوف نہیں کھاتا ہے، بلکہ قانون اور حکومت کا ترجمان بن جاتا ہے۔
ہم نے ابتدا میں ذکر کیا ہے کہ تمام موجودات اپنی زبان حال سے اللہ کے نام کا ورد کر رہی ہیں، یعنی وہ بسم اللہ کہہ رہی ہیں۔ کیا واقعتا ایسے ہی ہے؟ جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ اس بات پر غور کرو کہ اگر تم دیکھو کہ ایک آدمی جو حکومت کا نمائندہ ہے تمام لوگوں کو ہانکتا ہوا ایک جگہ اکٹھا کر رہا ہے اور انہیں مختلف کام کرنے پر مجبور کر رہا ہے، تو تم کہو گے کہ یہ شخص اپنی ذات کی ترجمانی نہیں کر رہا ہے اور لوگوں کو اپنے نام، طاقت اور قوت کے بل بوتے پر نہیں ہانک رہا ہے بلکہ وہ یہ سب کچھ حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے کر رہا ہے اور اس کی پشت پر حکمران کا ہاتھ ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود چیزوں کا بھی یہی حال ہے کہ ہر چیز اپنی ڈیوٹی بسم اللہ یعنی اللہ (حاکم اعلی) کے نام کے ساتھ سر انجام دے رہی ہے۔ انتہائی چھوٹے چھوٹے بیج (کسی ظاہری مدد کے بغیر) اپنے سروں پر قدآور درخت اور پہاڑوں کی طرح بھاری بھر کم بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں، یعنی ہر درخت کہہ رہا ہے؛ بسم اللہ اور رحمت الہی کے خزانے سے اپنے ہاتھ پھلوں سے بھر بھر کر ہمیں دے رہا ہے۔ اور ہر باغ کہتا ہے بسم اللہ اور قدرت الہیہ کا ایک ایسا باورچی خانہ بن جاتا ہے جس میں انواع و اقسام کے کھانے پکتے ہیں۔ ہر بابرکت اور نفع بخش جانور؛ جیسے اونٹنی، بکری، بھیڑ اور گائے وغیرہ کہتا ہے بسم اللہ تو وہ ہمیں اس رزق دینے والے خدا (الرزاق) کے نام کی برکت سے خوشگوار اور غذائیت سے بھرپور دودھ مہیا کرتا ہے (جب کہ اس کے جسم میں خون اور گوبر بھی ہے جس کا کوئی اثر دودھ میں نہیں آتا)۔ ہر پودے کی جڑیں کہتی ہیں بسم الله تو اس نام کی برکت سے اپنی ریشم کی طرح نرم و نازک جڑوں سے (جن کو ایک بچہ بھی اکھاڑ سکتا ہے) بڑی بڑی مضبوط چٹانیں چیر کر اور ان میں سوراخ ڈال کر زمین میں گہری اتر جاتی ہیں (اور وقت آنے پر وہ پودا زمین کو پھاڑ کر اپنے وجود کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ طاقت کہاں سے آئی؟)، اور (بات یہ ہے کہ) اللہ اور الرحمٰن کے نام سے ان نرم نرم جڑوں کے سامنے ہر سخت چیز نرم اور ہر مشکل مرحلہ آسان ہو جاتا ہے۔ پھر اور غور کر، (نرم و نازک) جڑوں کا سخت چٹانوں کے اندر پھیل جانا اسی طرح آسان ہے جیسے کہ شاخیں اور ٹہنیاں ہوا میں پھیل جاتی ہیں اور پھل پھول سے لد جاتی ہیں (جب کہ زمین سخت اور ہوا نرم ہوتی ہے!)۔ اسی طرح سبز پتوں کا گرمی کی شدت اور اس کی لو کو برداشت کرتے ہوئے تر و تازہ رہنا ہے (کھجور کے درخت پر غور کرو جو صحرا کی سخت گرمی اور پانی کی کمیابی کے باوجود سر سبز رہتے ہے اور اس سے میٹھی کھجور پیدا ہوتی ہے)۔ یہ سب کچھ اور اس طرح کے دوسرے بے شمار حقائق مادہ پرست اور اسباب کے غلاموں کے منہ پر زور دار طمانچہ مارتے ہیں اور تم اندھے ہو جاؤ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں انگلیاں ٹھونستے ہیں اور ان سے کہتے ہیں: جس سختی اور حرارت پر تم نازاں ہو وہ از خود عمل نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنی ڈیوٹی ایک حکم دینے والی ذات کے حکم سے ادا کرتی ہے۔ وہ ذات باریک ،لطیف اور نرم و نازک ریشے کو اس طرح بنا دیتی ہے کہ گویا کہ وہ موسی d کی لاٹھی ہے (جس کی ایک ضرب نے بارہ چشمے جاری کر دیے تھے) جو اپنے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتی ہوئی چٹانوں کو شق کرتی چلی جاتی ہے اور فقلنا اضرب بعصاك الحجر (ترجمہ: تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو) (البقرۃ: 60) والے امر الہی کو عملی جامہ پہناتی چلی جاتی ہے۔ اور ان باریک ،لطیف اور نرم و نازک پتوں کو (تپتی دھوپ میں) اس طرح بنا دیتی ہے کہ گویا کہ وہ ابراہیمؑ کے جسم کے اعضاء ہیں جو آگ کے شعلوں کے سامنے یانار کونی بردا وسلاما (ترجمہ: اے آگ سرد ہوجا) (الانبیاء:69) پڑھ رہے ہیں (اور موسم کی سختی ان پر کوئی اثر نہیں کر سکتی)۔ تو جب کائنات کی ہر چیز روحانی طور پر بسم اللہ پڑھتی ہے اور اللہ تعالی کی نعمتیں اللہ کے نام سے حاصل کر کے ہمیں پیش کرتی رہتی ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اسی طرح بسم اللہ یعنی اللہ کے نام کے ساتھ پڑھیں، اللہ کے نام کے ساتھ دیں اور اللہ کے نام کے ساتھ لیں۔ اور پھر ہمیں یہ بھی چاہیے کہ ہم ان غافلوں کے ہاتھوں کو پیچھے دھکیل دیں جو اللہ کے نام پر نہیں دیتے ہیں۔
سوال: جس طرح ہم پھل فروش کو (پھل کی) قیمت ادا کرتے ہیں، تو آپ کیا کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار جو یہ سب نعمتیں ہمیں عطا کر رہا ہے اور ان کا حقیقی مالک ہے، وہ ہم سے کون سی قیمت کا مطالبہ کرتا ہے؟​
جواب: وہ منعم حقیقی (نعمتیں دینے والا یعنی اللہ تعالی) ہم سے ان بیش بہا نعمتوں کی قیمت کے طور پر تین چیزیں طلب کرتا ہے:
(1) ذکر(2) شکر(3)فکر
پس جان لے، بسم اللہ ابتدا کے لحاظ سے ذکر ہے اور الحمد للہ انتہا کے لحاظ سے شکر ہے اور جو چیز ان دونوں کے درمیان میں ہے وہ فکر ہے، یعنی ان انوکھی نعمتوں کے بارے میں غور و فکر کرنا اور اس بات کا سمجھنا کہ یہ نعمتیں اس ذات کا معجزہ اور اس کی بے پایاں رحمت کے تحفے ہیں جو احد اور صمد یعنی یگانہ، یکتا اور بے نیاز ہے۔ بس اس سوچ کا نام ہی فکر ہے۔ پس جس طرح کسی بادشاہ کی طرف سے ایک قیمتی تحفہ لانے والے معمولی آدمی کی قدم بوسی کرنا بہت بڑی حماقت اور بیوقوفی ہے اسی طرح نعمتوں کے ظاہری اسباب و ذرائع کی تعریف کرنا اور ان سے پیار محبت کرنا اور منعم حقیقی کو بھول جانا اس سے ہزار گنا بڑی حماقت و بےوقوفی ہے۔ پس اے میرے نفس، اگر تم اس احمق اور بیوقوف کی طرح نہیں ہونا چاہتے ہو تو پھر دو اللہ کے نام سے، لو اللہ کے نام سے، شروع کرو اللہ کے نام سے، کام سر انجام دو اللہ کے نام سے!
 
Top