دستی، اسپیکر اور ’’گلاس فیلوز‘‘...کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔۔۔ انصار عباسی
جمشید دستی نے سچ کہا یا جھوٹ یہ تو صرف اللہ کی ذات جانتی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ مظفرگڑھ سے قومی اسمبلی کے اس ممبر نے شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اُسے شاید ’’گلاس فیلوز‘‘ کے ایکے اور اُن کی طاقت کا اندازہ نہ تھا ورنہ وہ یہ ’’گناہ‘‘ نہ کرتے۔ ہو سکتا ہے دستی کے اس ’’جرم‘‘ پر اُسے پارلیمنٹ معاف کر دے مگر گلاس فیلوز گروپ اب دستی کے خلاف گھیرا تنگ کر دے گا۔ اسپیکر ایاز صادق نے دستی سے فوری جواب مانگ لیا مگر کیا وہ کچھ نہیں جانتے یا واقعی اتنے بھولے ہیں۔اگر سچ جاننا ہی مقصود ہے تو پھر نبیل گبول کو کیوں نہیں بلایا انہوں نے بھی تو بہت کچھ اور بہت سنگین کہا۔اسرار اللہ زہری نے بھی کہا کہ جو دستی نے کہا وہ سچ ہے۔ اُن کو بھی اسپیکر صاحب بلا لیں اگر وہ واقعی پالیمنٹیرینز کے درمیان موجود گند پھیلانے والوں کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہمت کریں تو اُس خاتون سینیٹر اور اُن کے ڈرائیور کو بھی بلا بھیجیں جن کی گاڑی سے جب شراب پکڑی گئی اور معاملہ پولیس تک پہنچا تو بتایا گیا کہ یہ شراب دو سینیٹر صاحبان کے لیے لی جا رہی تھی۔ اگر اسپیکر صاحب اور ہمت کریں تو دونوں سینیٹر حضرات کو بھی سمن جاری کردیں۔ ہو سکے تو یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ پولیس نے مقدمہ صرف بے چارے ملازم پر ہی کیوں بنایا تھا۔ اگر انکوائری کرنا ہی مقصود ہے اور سچ تک پہنچنے کی خواہش ہے تو سیکورٹی اسٹاف اور پولیس کے عہدیداران سے بھی حلفیہ بیان لیں کہ وہ کیا کچھ دیکھتے رہے، اُن پر کیسا کیسا دبائو ڈالا جاتا رہا، کون کون کس کس سے ملنے آتا رہا اور کیا واقعی پارلیمنٹ لاجز میں شراب کبھی داخل نہیں ہوئی۔ ذرا یہ تفصیل بھی مانگ لیں کہ لاجز کس کس کو الاٹ ہیں اور ان میں کون کون رہتا ہے۔ ہو سکے تو سی ڈی اے سے بھی پوچھ لیں کہ صفائی کے دوران کیا شراب کی خالی بوتلیں لاجز میں کبھی پائی گئیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان جو ’’خواص‘‘ کی خصوصی انداز میں مہمانداری کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں اُن سے بھی اسپیکر صاحب گواہی طلب کر لیں بڑے بڑے ’’معتبروں‘‘ کے نام بھی سامنے آ جائیں گے۔ اگر اسپیکر صاحب نے یہ سب کچھ کرنے کی ہمت کی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسپیکر کو گلاس فیلوز سے کون بچائے گا؟؟ اس لیے ایاز صادق صاحب کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ چوہدری شجاعت کے ’’سنہری اصول‘‘ مٹی پائو پر عمل کریں۔ ویسے وہ سمجھدار آدمی نظر آتے ہیں اورجو اُن کی طرف سے اشارے مل رہے ہیں وہ بھی یہی ثابت کر رہے ہیں کہ مٹی پائو پالیسی پر ہی کام ہو رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ دستی کو دھمکانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔ میری جب دستی سے بات ہوئی تو انہوں نے جو مجھے بتایا وہ اگر سچ ہے تو غیر معمولی ہے۔ میں نے دستی سے درخواست کی کہ اچھے اور بروں میں تمیز ضرور کی جانی چاہیے اور یہ بھی کہ مقصد کچھ افراد کو رسوا کرنا نہیں بلکہ برائی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اسلام ہمیں دوسروں کے گناہوں پر پردہ پوشی کی تعلیم دیتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبران میں اچھے اور صاف ستھرے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ بات بھی طے ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں رہنے والوں کی بڑی تعداد شراب اور بدکاری جیسے معاملات سے پاک ہے مگر یہ کہنا کہ جو دستی نے کہا وہ سراسر جھوٹ ہے درست نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اکثریت خود تو ان اخلاقی بدفعلیوں سے دور ہے مگر عام معاشرے کی طرح وہ اُس اقلیت کے خلاف بولنے اور برائی کو روکنے کے لیے کچھ کرنے سے گریزاں ہے جو سب کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ بہت سے پارلیمنٹ ممبران کا کہنا ہے کہ اگر معاشرہ کے دوسرے طبقات اس قسم کی اخلاقی برائیوں میں شامل ہیں تو پھر صرف پارلیمنٹیرینز کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ کہنے کو تو اس بات میں وزن ہے مگر چاہے اسلامی اصول ہوں یا ہمارے آئین کی منشا اور مغرب کا رواج، عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کے لیے اعلیٰ ترین اخلاقی معیار کو مقرر کیا جاتا ہے۔ جو عوام میں بہترین ہیں ان کو ہی حق نمائندگی اور حق حکمرانی ملنا چاہیے تاکہ معاشرہ بھی بہتری کے سفر پر گامزن ہو۔ یہ تو پاکستان کا عجب رواج ہے کہ ٹیکس چور، کرپٹ، جعلی ڈگری والے تک اسمبلیوں میں آ گھستے ہیں اور وزیر و مشیر اور دوسرے اعلیٰ ترین عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ شراب استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ یہ خبر میرے لیے حیران کن تھی اور باعث شرمندگی بھی۔ یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کہ یہاں اس قدر شراب پی جاتی ہے۔ اگر ہمارے قانون دان، پارلیمنٹ اراکین اورحکمران اس گندگی کو پھیلانے والوں اور اس کا دفاع کرنے والی اقلیت سے خوفزدہ ہو کر اُن کو اپنے درمیان سے نکال باہر نہیں کریں گے اور شراب پر قانونی پابندی کا ایماندارانہ نفاذ نہیں کریں گے تو اس گندگی کو معاشرے میں پھیلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔جہاں شراب ہو گی وہاں بدکاری اور دوسری غلاظتیں اور جرائم بھی ہوں گے۔ کیا ہماری پارلیمنٹ، اسپیکر اور حکمرانوں کو نہیں معلوم کہ پاکستان کے چپے چپے میں شراب سر عام فروخت کی جاتی ہے؟ اسپیکر اور اراکین اسمبلی اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے برائی کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اگر اسپیکر صاحب یا دوسروں کو جمشید دستی کے اس مسئلے کو اٹھانے کے طریقہ کار پر اختلاف ہے تو اس بنیاد پر اصل مسئلے ہی کو گول کرنا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں۔ جہاں تک اس مسئلے کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دینے والوں کا تعلق ہے تو یہ کون نہیں جانتا کہ جب حکمرانوں اور پارلیمنٹ اراکین پر کرپشن کے الزامات لگے تو یہی کہا گیا کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو گئی۔ جب جعلی ڈگری والے اسمبلیوں کے اندر سے پکڑے جانے لگے تو بھی یہی کہا گیا کہ یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ جب دہری شہریت رکھنے والوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو بھی یہی کہا گیا اور جب جب آئین کے آرٹیکل 62-63 کے اطلاق کی بات کی گئی تو بھی یہی کچھ کہا جاتا رہا۔
جمشید دستی نے سچ کہا یا جھوٹ یہ تو صرف اللہ کی ذات جانتی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ مظفرگڑھ سے قومی اسمبلی کے اس ممبر نے شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اُسے شاید ’’گلاس فیلوز‘‘ کے ایکے اور اُن کی طاقت کا اندازہ نہ تھا ورنہ وہ یہ ’’گناہ‘‘ نہ کرتے۔ ہو سکتا ہے دستی کے اس ’’جرم‘‘ پر اُسے پارلیمنٹ معاف کر دے مگر گلاس فیلوز گروپ اب دستی کے خلاف گھیرا تنگ کر دے گا۔ اسپیکر ایاز صادق نے دستی سے فوری جواب مانگ لیا مگر کیا وہ کچھ نہیں جانتے یا واقعی اتنے بھولے ہیں۔اگر سچ جاننا ہی مقصود ہے تو پھر نبیل گبول کو کیوں نہیں بلایا انہوں نے بھی تو بہت کچھ اور بہت سنگین کہا۔اسرار اللہ زہری نے بھی کہا کہ جو دستی نے کہا وہ سچ ہے۔ اُن کو بھی اسپیکر صاحب بلا لیں اگر وہ واقعی پالیمنٹیرینز کے درمیان موجود گند پھیلانے والوں کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہمت کریں تو اُس خاتون سینیٹر اور اُن کے ڈرائیور کو بھی بلا بھیجیں جن کی گاڑی سے جب شراب پکڑی گئی اور معاملہ پولیس تک پہنچا تو بتایا گیا کہ یہ شراب دو سینیٹر صاحبان کے لیے لی جا رہی تھی۔ اگر اسپیکر صاحب اور ہمت کریں تو دونوں سینیٹر حضرات کو بھی سمن جاری کردیں۔ ہو سکے تو یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ پولیس نے مقدمہ صرف بے چارے ملازم پر ہی کیوں بنایا تھا۔ اگر انکوائری کرنا ہی مقصود ہے اور سچ تک پہنچنے کی خواہش ہے تو سیکورٹی اسٹاف اور پولیس کے عہدیداران سے بھی حلفیہ بیان لیں کہ وہ کیا کچھ دیکھتے رہے، اُن پر کیسا کیسا دبائو ڈالا جاتا رہا، کون کون کس کس سے ملنے آتا رہا اور کیا واقعی پارلیمنٹ لاجز میں شراب کبھی داخل نہیں ہوئی۔ ذرا یہ تفصیل بھی مانگ لیں کہ لاجز کس کس کو الاٹ ہیں اور ان میں کون کون رہتا ہے۔ ہو سکے تو سی ڈی اے سے بھی پوچھ لیں کہ صفائی کے دوران کیا شراب کی خالی بوتلیں لاجز میں کبھی پائی گئیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان جو ’’خواص‘‘ کی خصوصی انداز میں مہمانداری کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں اُن سے بھی اسپیکر صاحب گواہی طلب کر لیں بڑے بڑے ’’معتبروں‘‘ کے نام بھی سامنے آ جائیں گے۔ اگر اسپیکر صاحب نے یہ سب کچھ کرنے کی ہمت کی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسپیکر کو گلاس فیلوز سے کون بچائے گا؟؟ اس لیے ایاز صادق صاحب کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ چوہدری شجاعت کے ’’سنہری اصول‘‘ مٹی پائو پر عمل کریں۔ ویسے وہ سمجھدار آدمی نظر آتے ہیں اورجو اُن کی طرف سے اشارے مل رہے ہیں وہ بھی یہی ثابت کر رہے ہیں کہ مٹی پائو پالیسی پر ہی کام ہو رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ دستی کو دھمکانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔ میری جب دستی سے بات ہوئی تو انہوں نے جو مجھے بتایا وہ اگر سچ ہے تو غیر معمولی ہے۔ میں نے دستی سے درخواست کی کہ اچھے اور بروں میں تمیز ضرور کی جانی چاہیے اور یہ بھی کہ مقصد کچھ افراد کو رسوا کرنا نہیں بلکہ برائی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اسلام ہمیں دوسروں کے گناہوں پر پردہ پوشی کی تعلیم دیتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبران میں اچھے اور صاف ستھرے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ بات بھی طے ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں رہنے والوں کی بڑی تعداد شراب اور بدکاری جیسے معاملات سے پاک ہے مگر یہ کہنا کہ جو دستی نے کہا وہ سراسر جھوٹ ہے درست نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اکثریت خود تو ان اخلاقی بدفعلیوں سے دور ہے مگر عام معاشرے کی طرح وہ اُس اقلیت کے خلاف بولنے اور برائی کو روکنے کے لیے کچھ کرنے سے گریزاں ہے جو سب کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ بہت سے پارلیمنٹ ممبران کا کہنا ہے کہ اگر معاشرہ کے دوسرے طبقات اس قسم کی اخلاقی برائیوں میں شامل ہیں تو پھر صرف پارلیمنٹیرینز کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ کہنے کو تو اس بات میں وزن ہے مگر چاہے اسلامی اصول ہوں یا ہمارے آئین کی منشا اور مغرب کا رواج، عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کے لیے اعلیٰ ترین اخلاقی معیار کو مقرر کیا جاتا ہے۔ جو عوام میں بہترین ہیں ان کو ہی حق نمائندگی اور حق حکمرانی ملنا چاہیے تاکہ معاشرہ بھی بہتری کے سفر پر گامزن ہو۔ یہ تو پاکستان کا عجب رواج ہے کہ ٹیکس چور، کرپٹ، جعلی ڈگری والے تک اسمبلیوں میں آ گھستے ہیں اور وزیر و مشیر اور دوسرے اعلیٰ ترین عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ شراب استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ یہ خبر میرے لیے حیران کن تھی اور باعث شرمندگی بھی۔ یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کہ یہاں اس قدر شراب پی جاتی ہے۔ اگر ہمارے قانون دان، پارلیمنٹ اراکین اورحکمران اس گندگی کو پھیلانے والوں اور اس کا دفاع کرنے والی اقلیت سے خوفزدہ ہو کر اُن کو اپنے درمیان سے نکال باہر نہیں کریں گے اور شراب پر قانونی پابندی کا ایماندارانہ نفاذ نہیں کریں گے تو اس گندگی کو معاشرے میں پھیلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔جہاں شراب ہو گی وہاں بدکاری اور دوسری غلاظتیں اور جرائم بھی ہوں گے۔ کیا ہماری پارلیمنٹ، اسپیکر اور حکمرانوں کو نہیں معلوم کہ پاکستان کے چپے چپے میں شراب سر عام فروخت کی جاتی ہے؟ اسپیکر اور اراکین اسمبلی اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے برائی کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اگر اسپیکر صاحب یا دوسروں کو جمشید دستی کے اس مسئلے کو اٹھانے کے طریقہ کار پر اختلاف ہے تو اس بنیاد پر اصل مسئلے ہی کو گول کرنا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں۔ جہاں تک اس مسئلے کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دینے والوں کا تعلق ہے تو یہ کون نہیں جانتا کہ جب حکمرانوں اور پارلیمنٹ اراکین پر کرپشن کے الزامات لگے تو یہی کہا گیا کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو گئی۔ جب جعلی ڈگری والے اسمبلیوں کے اندر سے پکڑے جانے لگے تو بھی یہی کہا گیا کہ یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ جب دہری شہریت رکھنے والوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو بھی یہی کہا گیا اور جب جب آئین کے آرٹیکل 62-63 کے اطلاق کی بات کی گئی تو بھی یہی کچھ کہا جاتا رہا۔