بدل پائے جسے تدبیر، وہ تقدیر ہی کیا ہے؟ اور تین قطعات برائے تنقید

جناب الف عین کی خواہش کے احترام میں۔

جناب شاہد شاہنواز کی غزل پر میری کچھ گزارشات:۔

بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟​
ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے​
’’مقدر میں جو لکھا ہو‘‘ شاید بہتر تاثر دیتا۔ تاہم یہاں قافیے کی پابندی آن پڑی۔ مصرعِ ثانی کے الفاظ کی در و بست تبدیل کر کے دیکھ لیجئے۔

وہ میدان اپنی مرضی سے مقدر چھوڑ دے جس کو​
اسی میدان میں انسان خود قسمت بناتا ہے​
اگر میں اس کے مفہوم کو پہنچ پایا ہوں تو یہ مطلع کے تسلسل میں ہے۔ تاہم یہاں ایک نوع کا تضاد بھی آ گیا ہے۔ ’’انسان خود قسمت بناتا ہے‘‘ تو پھر مقدر کا میدان کون سا ہے، اور اس کا کوئی میدان چھوڑ دینا کیا ہے؟ اس شعر میں معانی ٹکرا رہے ہیں۔ ’’تقدیر اور تدبیر‘‘ پر پہلے ہی بہت طویل مباحث موجود ہیں، اُن سے قطع نظر یا آپ کا جو بھی نکتہء نظر ہے، اس کا اظہار واضح اور صاف ہونا چاہئے۔


دوا ممکن نہیں اس کی، دعا مانگی نہیں جاتی​
نکلتی ہی نہیں دل سے محبت نام جس کا ہے​
دعا سے شاید آپ ترکِ محبت مراد لے رہے ہیں۔ یہ بات تو بہت پہلے کہیں جا چکی اور مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیجئے کہ بہت بہتر انداز میں کہی جا چکی۔
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
کسی ادا شدہ مضمون کو پھر سے ادا کرنے تو میں عیب نہیں سمجھتا، تاہم شاعر سے یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ وہ یا تو اس مضمون کو کسی نئے زاویے سے پیش کرے یا اسلوبی سطح پر کوئی نیاپن لے کر آئے۔
 
جناب الف عین کی خواہش کے احترام میں۔

جناب شاہد شاہنواز کی غزل پر میری کچھ گزارشات:۔

بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟​
ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے​
’’مقدر میں جو لکھا ہو‘‘ شاید بہتر تاثر دیتا۔ تاہم یہاں قافیے کی پابندی آن پڑی۔ مصرعِ ثانی کے الفاظ کی در و بست تبدیل کر کے دیکھ لیجئے۔

وہ میدان اپنی مرضی سے مقدر چھوڑ دے جس کو​
اسی میدان میں انسان خود قسمت بناتا ہے​
اگر میں اس کے مفہوم کو پہنچ پایا ہوں تو یہ مطلع کے تسلسل میں ہے۔ تاہم یہاں ایک نوع کا تضاد بھی آ گیا ہے۔ ’’انسان خود قسمت بناتا ہے‘‘ تو پھر مقدر کا میدان کون سا ہے، اور اس کا کوئی میدان چھوڑ دینا کیا ہے؟ اس شعر میں معانی ٹکرا رہے ہیں۔ ’’تقدیر اور تدبیر‘‘ پر پہلے ہی بہت طویل مباحث موجود ہیں، اُن سے قطع نظر یا آپ کا جو بھی نکتہء نظر ہے، اس کا اظہار واضح اور صاف ہونا چاہئے۔


دوا ممکن نہیں اس کی، دعا مانگی نہیں جاتی​
نکلتی ہی نہیں دل سے محبت نام جس کا ہے​
دعا سے شاید آپ ترکِ محبت مراد لے رہے ہیں۔ یہ بات تو بہت پہلے کہیں جا چکی اور مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیجئے کہ بہت بہتر انداز میں کہی جا چکی۔
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
کسی ادا شدہ مضمون کو پھر سے ادا کرنے تو میں عیب نہیں سمجھتا، تاہم شاعر سے یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ وہ یا تو اس مضمون کو کسی نئے زاویے سے پیش کرے یا اسلوبی سطح پر کوئی نیاپن لے کر آئے۔
 
لہو​
دے کر کیاجاتا ہے روشن جن چراغوں کو​
مقدر ان چراغوں کا سدا جلتے ہی رہنا ہے​
یہاں معاملہ عجزِ بیان کا آن پڑا ہے، میں اس کو ابہام قرار نہیں دیتا۔ غالباً ایسی ہی کیفیت کو ’’در بطنِ شاعر‘‘ کہا جاتا ہے؟۔ جو چراغ لہو سے روشن کئے جاتے ہیں وہ بجھائے نہیں بجھتے۔ ایک مسئلہ محاورہ کا بھی ہے۔ ’’سدا‘‘ کے ساتھ ’’ہی‘‘ کی کیا ضرورت تھی، شاید پاسنگ کے طور پر؟۔ یہاں وہ بات مقدر والی پھر آن پڑی کہ لہو دے کر چراغوں کی روشنی کو یا ان کے جلتے رہنے کو چراغوں کا مقدر کہا گیا۔ مطلع اور اس کے فوراً بعد والا شعر کچھ اور کہہ رہا ہے۔ دیکھئے، ریزہ خیالی والی بات بالکل درست! تاہم ایک ہی غزل کے مختلف شعروں کے پیغام میں تضاد قاری کو الجھا دیتا ہے۔

وہ اپنی سوچ دیوانوں سے بہتر کیوں سمجھتے ہیں؟​
خردمندوں نے کب سمجھا جو دیوانوں نے سوچا ہے؟​
یہاں خرد اور جنوں، عشق اور عقل، دل اور دماغ کی روایتی چشمک سے استفادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا، کہ شعر میں ایک بیان جو دیا گیا ہے اُس کا جواز بھی فراہم کیا جاتا (قبولیت یا عدم قبولیت سے قطع نظر) ایک ہی بات دو انداز میں کی گئی ہے، شرط اور حاصلِ شرط یا بیان اور جواز کی صورت بن نہیں پائی۔
 
خزاں کے موسموں سے گل محبت کیوں نہیں کرتے؟​
بہار آجائے گلشن میں تو کیونکر پھول کھلتا ہے؟​
خزاں کا موسم تو ایک ہوتا ہے، صاحب! اگر بوجوہ آپ اس کو جمع لاتے ہیں کہ مراد خزاں جیسی کیفیات ہیں تو پھر بہار کو بھی جمع لائیے۔ ایسی ہی صورت وہ ہے: گل محبت کیوں نہیں ’’کرتے‘‘ اور: کیونکر پھول ’’کھلتا ہے‘‘۔ قافیہ اور ردیف کی پابندی تو کرنی ہے، اس میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں ایک اچھا خاصا مضمون وقتی طور پر ہی سہی ترک کرنا پڑتا ہے۔ بقول متشاعر:
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
 
قدم کو چاند پر رکھ کر بھی انساں یہ نہیں سمجھا​
جسے انسان کہتے ہیں، وہ ان چیزوں سے پیارا ہے​
قدم ’’کو‘‘ ؟ ۔۔ دوسرا مصرعہ بہت ڈھیلا ہے۔ صدیق ثانی کا ایک شعر اس سے ملتے جلتے مضمون میں دیکھئے:
دھرتی پہ چاند نوچ کے لانے سے پیش تر
سن لو پکار خون میں ڈوبی زمین کی
ایک اور نوجوان (غیر معروف) دوست سید مرتضیٰ شاہ کا ایک شعر:
آدمی چاند کی سنگین فضا میں اترا
تب یہ احساس ہوا چاند میں کیا رکھا ہے


سبھی کہتے ہیں سب سے محترم جانوں کی حرمت ہے​
لہو پھر بھی نہیں رُکتا، یہ آخر جرم کس کا ہے؟​
یہ مضمون اتنا اہم مضمون ہے اتنا اہم مضمون ہے اس پر جتنا لکھیں کم ہے۔ اس مضمون کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ شاید ایک آدھ شعر میں بیان ہو بھی نہ پائے۔ اس شعر میں جو مسئلہ مجھے نظر آیا وہ یہ ہے کہ موضوع کی وسعت خیال کو کہیں سے کہیں لے جاتی ہے، اور دو مصرعوں میں بات نبھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہو سکے تو اس موضوع پر نظمیں لکھئے۔
 
سڑک دھل ہی گئی لیکن وہ سرخی اب بھی باقی ہے​
مرے چاروں طرف آخر یہ کس کا خون بکھرا ہے؟​
اولین حصہ یوں بھی ہو سکتا تھا: ’’سڑک تو دھل گئی لیکن۔۔۔‘‘۔ سڑک پر لہو کا رنگ ضروری نہیں کہ قتل یا قتلِ عام یا دورِ جدید کی سوغات خود کش حملے کا نتیجہ ہی ہو، وہ ایک حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں یہ سوال اپنا جواز نہیں لاتا کہ ’’کس کا‘‘ خون بکھرا ہے۔ میں اس کو شعر ماقبل کے تسلسل میں دیکھتا ہوں۔

وہی ہے چار دیواری بھی، چھت بھی قید خانے میں​
وہی سب کچھ ہے اس گھر میں جہاں اپنا بسیرا ہے​
مصرعِ اول کی ’’میں‘‘ کو اگر ’’کی‘‘ سے بدل دیں تو کیسا رہے گا؟۔ شعر اچھا ہے، اگرچہ موضوعِ شعر نیا نہیں۔
 
آخری چند گزارشات جناب شاہد شاہنواز کی خصوصی توجہ کے لئے۔
جناب الف عین ۔ اگر میں نے کچھ غلط سلط کہہ دیا ہے تو اس پر بھی مجھے متنبہ فرمائیے گا۔

غزل میں خیال اور مضمون کا تسلسل بھی ملتا ہے۔ وہ جسے ہم ’’غزلِ مسلسل‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ تاہم ریزہ خیالی زیادہ معروف اور مقبول ہے۔ دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، غزل کے ہر شعر کو اپنی جگہ ایک مکمل اکائی ہونا چاہئے۔ ایک مضمون ایک شعر میں پورا ادا نہیں ہو پا رہا، تو دو تین چار قطعہ بند اشعار لائے جا سکتے ہیں، اس میں کوئی ہرج نہیں۔

ایک خاص بات جو غزل کے حسن اور تاثر کو بڑھاتی ہے، وہ ہے غزل کی مجموعی فضا۔ میں اس کو غزل کی ’’زیریں رَو‘‘ کہا کرتا ہوں۔ تمام شعر اپنے اپنے (انفرادی) مضمون اور موضوع اور اندازِ فکر و اظہار کے باوجود ایک فضا بناتے ہیں کہ اس میں کوئی کیفیت مشترک ہوتی ہے، یا ایک خاص اندازِ فکر جو نمایاں ہو یا نہ ہو اپنا احساس دلاتا ہے۔ یا لفظیات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ایک ’’پیچیدہ اکائی‘‘ بن جاتی ہے۔ ردیف اور قافیہ اس کو اکائی بننے میں مدد دیتے ہیں۔ کھلے قافیے میں ظاہر ہے یہ ایک عامل غیر مؤثر ہو جاتا ہے، تاہم باقی عوامل بدستور رہتے ہیں۔
مجھے اس غزل میں اس ’’زیریں رَو‘‘ کی کمی محسوس ہوئی ہے۔ شاعر کا اسلوب اِس کمی کو پُورا کر سکتا ہے۔ اسلوب کو صرف الفاظ اور تراکیب سازی تک محدود نہیں کیا جا سکتا، فکر کا بھی ایک اسلوب ہوتا ہے۔ اور پھر ایک شاعر (خاص طور پر غزل میں) اپنی پوری شخصیت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہوتا ہے۔ یہ چیز اس غزل میں موجود ہے اور شاعر کا ایک واضح فکری خاکہ بھی بن رہا ہے۔ اس کو ترقی دیجئے۔
ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے مباحث اب پرانے ہو چکے۔ فن اور مقصدیت کی موافقت یا مطابقت بھی کوئی ایسا بڑا جھگڑا نہیں کہ ہم ادھر اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہیں۔ ہاں دو تین عناصر ضرور ایسے ہیں جہاں واقع ہونے والی فروگزاشت ادب کے معیار کو متاثر کر سکتی ہے۔ قافیہ کی پابندی بہر حال کرنی پڑے گی، ردیف اگر آپ نے اختیار کر لی ہے تو اس کو نبھانا بھی لازم ہے۔ اوزان پر بھی توجہ دینی ہے۔ یہ بھی ہے کہ زبان و بیان کی کوئی غلطی نہیں ہونی چاہئے، تلمیح اور استعارہ میں جدت کی بہت گنجائش ہے تاہم اتنی دور نہ جائیے کہ آپ کا مفہوم ہی کھو جائے۔

یہ بات طویل بھی ہو سکتی ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس پلیٹ فارم پر موجود غزل گو شعراء غزل کے مختلف پہلوؤں پر اپنی راہنما آراء سے نوازیں۔ ترجیحات، پسندیدہ لفظیات، انشائی عنصر وغیرہ پر بھی بات چیت کریں۔

بہت آداب۔
 

الف عین

لائبریرین
آخری چند گزارشات جناب شاہد شاہنواز کی خصوصی توجہ کے لئے۔
جناب الف عین ۔ اگر میں نے کچھ غلط سلط کہہ دیا ہے تو اس پر بھی مجھے متنبہ فرمائیے گا۔​
بہت آداب۔​
!آسی بھائی بہت شکریہ۔ لیکن یوں تو نہ کہئے کہ میں آپ کو متنبہ کروں!!!۔ آپ سے مکمل اتفاق ہی نہیں، شکر گزار ہوں کہ میں جن باتوں کو الفاظ میں نہیں کہہ پاتا، ان کو بہت آسانی سے آپ کہہ دیتے ہیں۔ آخر تنقید نگار بھی ہیں نا۔ یہ فدوی تو بس یوں ہی خواہ مخواہ اپنی تانگ اڑاتا ہے، استادی تو آپ کو ہی زیب دیتی ہے۔​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جناب الف عین کی خواہش کے احترام میں۔

جناب شاہد شاہنواز کی غزل پر میری کچھ گزارشات:۔

بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟

ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے
’’مقدر میں جو لکھا ہو‘‘ شاید بہتر تاثر دیتا۔ تاہم یہاں قافیے کی پابندی آن پڑی۔ مصرعِ ثانی کے الفاظ کی در و بست تبدیل کر کے دیکھ لیجئے۔
بدل پائے جسے تدبیر وہ تقدیر ہی کیا ہے؟
مقدر میں جو لکھا ہو، ہمیشہ ہوکے رہتا ہے ۔۔۔

وہ میدان اپنی مرضی سے مقدر چھوڑ دے جس کو

اسی میدان میں انسان خود قسمت بناتا ہے
اگر میں اس کے مفہوم کو پہنچ پایا ہوں تو یہ مطلع کے تسلسل میں ہے۔ تاہم یہاں ایک نوع کا تضاد بھی آ گیا ہے۔ ’’انسان خود قسمت بناتا ہے‘‘ تو پھر مقدر کا میدان کون سا ہے، اور اس کا کوئی میدان چھوڑ دینا کیا ہے؟ اس شعر میں معانی ٹکرا رہے ہیں۔ ’’تقدیر اور تدبیر‘‘ پر پہلے ہی بہت طویل مباحث موجود ہیں، اُن سے قطع نظر یا آپ کا جو بھی نکتہء نظر ہے، اس کا اظہار واضح اور صاف ہونا چاہئے۔
÷÷غیر ضروری تھا اور غیر ضروری مجھے بھی لگ رہا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں لکھ دیا۔۔۔


دوا ممکن نہیں اس کی، دعا مانگی نہیں جاتی

نکلتی ہی نہیں دل سے محبت نام جس کا ہے
دعا سے شاید آپ ترکِ محبت مراد لے رہے ہیں۔ یہ بات تو بہت پہلے کہیں جا چکی اور مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیجئے کہ بہت بہتر انداز میں کہی جا چکی۔
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
۔۔ یہ مصرع میں نے اس طرح پڑھا تھا: دل چاہتا نہ ہو تو زباںمیں اثر کہاں ۔۔۔ از مولانا الطاف حسین حالی ۔۔
کسی ادا شدہ مضمون کو پھر سے ادا کرنے تو میں عیب نہیں سمجھتا، تاہم شاعر سے یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ وہ یا تو اس مضمون کو کسی نئے زاویے سے پیش کرے یا اسلوبی سطح پر کوئی نیاپن لے کر آئے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غزل میں ایک ہی شعر سمجھ میں آرہا ہے اب تک:
وہی ہے چار دیواری بھی، چھت بھی قید خانے کی
وہی سب کچھ ہے اس گھر میں جہاں اپنا بسیرا ہے
آخری چند گزارشات جناب شاہد شاہنواز کی خصوصی توجہ کے لئے۔
جناب الف عین ۔ اگر میں نے کچھ غلط سلط کہہ دیا ہے تو اس پر بھی مجھے متنبہ فرمائیے گا۔

غزل میں خیال اور مضمون کا تسلسل بھی ملتا ہے۔ وہ جسے ہم ’’غزلِ مسلسل‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ تاہم ریزہ خیالی زیادہ معروف اور مقبول ہے۔ دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، غزل کے ہر شعر کو اپنی جگہ ایک مکمل اکائی ہونا چاہئے۔ ایک مضمون ایک شعر میں پورا ادا نہیں ہو پا رہا، تو دو تین چار قطعہ بند اشعار لائے جا سکتے ہیں، اس میں کوئی ہرج نہیں۔

ایک خاص بات جو غزل کے حسن اور تاثر کو بڑھاتی ہے، وہ ہے غزل کی مجموعی فضا۔ میں اس کو غزل کی ’’زیریں رَو‘‘ کہا کرتا ہوں۔ تمام شعر اپنے اپنے (انفرادی) مضمون اور موضوع اور اندازِ فکر و اظہار کے باوجود ایک فضا بناتے ہیں کہ اس میں کوئی کیفیت مشترک ہوتی ہے، یا ایک خاص اندازِ فکر جو نمایاں ہو یا نہ ہو اپنا احساس دلاتا ہے۔ یا لفظیات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ایک ’’پیچیدہ اکائی‘‘ بن جاتی ہے۔ ردیف اور قافیہ اس کو اکائی بننے میں مدد دیتے ہیں۔ کھلے قافیے میں ظاہر ہے یہ ایک عامل غیر مؤثر ہو جاتا ہے، تاہم باقی عوامل بدستور رہتے ہیں۔
مجھے اس غزل میں اس ’’زیریں رَو‘‘ کی کمی محسوس ہوئی ہے۔ شاعر کا اسلوب اِس کمی کو پُورا کر سکتا ہے۔ اسلوب کو صرف الفاظ اور تراکیب سازی تک محدود نہیں کیا جا سکتا، فکر کا بھی ایک اسلوب ہوتا ہے۔ اور پھر ایک شاعر (خاص طور پر غزل میں) اپنی پوری شخصیت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہوتا ہے۔ یہ چیز اس غزل میں موجود ہے اور شاعر کا ایک واضح فکری خاکہ بھی بن رہا ہے۔ اس کو ترقی دیجئے۔
ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے مباحث اب پرانے ہو چکے۔ فن اور مقصدیت کی موافقت یا مطابقت بھی کوئی ایسا بڑا جھگڑا نہیں کہ ہم ادھر اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہیں۔ ہاں دو تین عناصر ضرور ایسے ہیں جہاں واقع ہونے والی فروگزاشت ادب کے معیار کو متاثر کر سکتی ہے۔ قافیہ کی پابندی بہر حال کرنی پڑے گی، ردیف اگر آپ نے اختیار کر لی ہے تو اس کو نبھانا بھی لازم ہے۔ اوزان پر بھی توجہ دینی ہے۔ یہ بھی ہے کہ زبان و بیان کی کوئی غلطی نہیں ہونی چاہئے، تلمیح اور استعارہ میں جدت کی بہت گنجائش ہے تاہم اتنی دور نہ جائیے کہ آپ کا مفہوم ہی کھو جائے۔

یہ بات طویل بھی ہو سکتی ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس پلیٹ فارم پر موجود غزل گو شعراء غزل کے مختلف پہلوؤں پر اپنی راہنما آراء سے نوازیں۔ ترجیحات، پسندیدہ لفظیات، انشائی عنصر وغیرہ پر بھی بات چیت کریں۔

بہت آداب۔

ابھی تک میرے ساتھ جو مسائل پیش آئے ،وہ ہیں تلفظ ، بے وزن اشعار، معنوی بے ربطگی اور آج کل یہ عجز بیان۔۔ مجھے عیوب شعر کو سمجھنا اور ان سے نجات کی تدبیر کرنا ہے۔۔ ابھی تک کوئی آن لائن کتاب اس پر نظر سے نہیں گزری۔۔۔ میرے پاس مولانا انجم فوقی کی کتاب ’’فکر و فن‘‘ موجود ہے جو علم عروض پر ایک معرکۃ الآرا تصنیف ہے۔۔ لیکن اس سے مدد نہیں ملی۔۔
 
زیادہ تر باتیں تنقیدی نشستوں میں سیکھی ہیں، کتابوں کا مطالعہ بس یوں ہی سا ہے، سو کیا عرض کریں۔

بقول پروفیسر انور مسعود: ’’یہ آپ ہی کی باتیں ہیں، آپ کے منہ سے سُن کر آپ کے کانوں کو لَوٹا دیتا ہوں‘‘۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس پوری غزل اور اس پر آنے والے آپ اساتذہ کے تاثرات سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ غزل میں اصل چیز تاثر ہے۔۔۔ اگر صوتی قافیہ باندھا گیا تھا (میں اسے صوتی ہی کہوں گا)، تو اس کے ہر شعر کا تاثر ہی ایسا ہونا چاہئے تھا کہ اس مسئلے کی طرف دھیان ہی نہ جاتا۔۔۔ یہاں ہر شعر قدم قدم پر اپنی کمزوری بتا رہا ہے کہ مجھ میں یہ خامی ہے اور میں فلاں فلاں جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوں۔۔ لکھنے والے کے چونکہ یہ خیالات ذاتی ہیں، سو اس کا اس طرف دھیان جانا ازحد مشکل ہے، الا یہ کہ وہ ناقد ہو۔۔۔ بہرحال۔۔ اس ایک شعر سے بھی بہتر اشعار موجود ہیں جو کام کا لگ رہا تھا، تو وہ بھی کیوں لیاجائے؟ آگے کیوں نہ بڑھا جائے؟ آخر میں آپ کے قیمتی خیالات کے اظہار کے لیے بے حد ممنون ہوں۔۔ بہت بہت شکریہ۔۔
 

آوازِ دوست

محفلین
غزل میں خیال اور مضمون کا تسلسل بھی ملتا ہے۔ وہ جسے ہم ’’غزلِ مسلسل‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ تاہم ریزہ خیالی زیادہ معروف اور مقبول ہے۔ دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، غزل کے ہر شعر کو اپنی جگہ ایک مکمل اکائی ہونا چاہئے۔
بھلا ہو اِس یادداشت کا کہ جِس نے پہلی بات سنبھال لی اور دوسری بھُلا دی تھی :)
 
Top