بحران در بحران موجودہ حکومت کا کارنامہ

ابھی پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر صف ماتم بچھی ہوئی تھی‘ پٹرول کی قیمتوں کے بعد ٹرانسپورٹ‘ ریل کے کرایوں میں نہ صرف حد درجہ اضافہ ہو گیا بلکہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں یکدم آسمانوں پر پہنچا دی گئیں۔ اب انسانی استعمال کی وہ کونسی چیز سستی رہ گئی ہے جسے غریب کھا سکیں۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہونیوالی مہنگائی نے گھی 160 روپے‘ آٹا 32 روپے‘ (چھوٹا گوشت تو شاید قسمت والا ہی کھائے گا) بڑا گوشت بھی 300 روپے فی کلو ہو چکا ہے جبکہ دودھ پچاس روپے‘ دہی ساٹھ روپے فی کلو تک بھی جا پہنچی ہے۔ پہلے غریب لوگ دالیں اور سبزیاں کھا کر گزارا کر لیتے تھے‘ اب سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچ چکی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں‘ پے در پے ٹیکسوں‘ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پہلے ہی لاکھوں بے روزگار ہو چکے ہیں‘ جو پہلے ہی روزگار کی تلاش میں تھے وہ ہاتھوں میں ڈگریاں پکڑے دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کوئی انہیں پانچ ہزار ماہانہ کی بھی نوکری دینے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب کی آفت کے بعد گاﺅں میں بھوک سے مرنے والے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جبکہ شہروں کے لوگ پہلے ہی ہر روز چوراہے پر اس امید سے بیٹھتے ہیں کہ انہیں کوئی مزدوری کیلئے لے جائیگا لیکن جب شام تک کوئی گاہک نہیں آتا تو ان کیلئے دو ہی راستے بچتے ہیں‘ ایک خودکشی اور دوسرا راستہ بھیک مانگنے کا۔ خودکشیوں کے گراف میں بطور خاص پیپلز پارٹی کے دور میں جس قدر اضافہ ہوا ہے‘ اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کرنے کیلئے کافی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ابھی پہلا زخم نہیں بھرتا کہ ایک اور زخم لگا دیا جاتا ہے جو پہلے سے زیادہ اذیت ناک اور گہرا ہوتا ہے۔ عوام کو پریشان کرنے کا سلسلہ موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ اڑھائی سال سے شروع کر رکھا ہے‘ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکمران عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئے ہیں‘ لیکن ان کا کوئی ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے بہتری کا تاثر ابھرتا ہو۔ کرپٹ لوگوں سے تو مفاہت کی جارہی ہے‘ لیکن عوام جو ووٹ دے کر انہیں اقتدار میں لائے ہیں‘ انہیں ذبح کیا جا رہا ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا عذاب اور بخار ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ گیس کی قیمتوں میں دس سے پندرہ فیصد اضافے کی منحوس خبر سنا دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ چینی کا بحران دانستہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ اب ایک بار پھر صوبائی‘ وفاقی حکومتوں اور مل مالکان کی ملی بھگت سے چینی کی دانستہ قلت پیدا کرکے قیمت کو 150 روپے تک لے جایا جا کا ہے۔ اصلاح احوال تو دور کی بات ہے‘ اس پر ظلم یہ کہ موجودہ حکمرانوں نے مزید جنرل سیلز ٹیکس پندرہ فیصد اور سیلاب ٹیکس دس فیصد لگانے کا فیصلہ کرکے خود کو عوام دشمن ثابت کر دیا ہے۔ دشمن بھی اس قدر بے رحم نہیں ہوتا‘ جس قدر ہمارے حکمران ہو چکے ہیں۔ بحرانوں پر بحران چلے آرہے ہیں‘ ہر شعبے اور محکمے میں کرپشن عروج پر پہنچ چکی ہے‘ نہ صرف اندرون ملک بلکہ باہر کی دنیا کے لوگ بھی حکمرانوں سمیت تمام پاکستانیوں کو کرپٹ‘ بددیانت تصور کرنے لگے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پوری دنیا میں پاکستانی بدنام ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ عظیم کارنامہ موجودہ حکمرانوں نے انجام دیا ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...du-online/Opinions/Mazamine/14-Nov-2010/16214
 
Top