بانٹ لیتے ہیں۔

رشید حسرت

محفلین
حیا محفوظ کرتے ہیں، رِدائیں بانٹ لیتے ہیں
چلو ھمدم مِرے ھم فاختائیں بانٹ لیتے ہیں

اب اِس آلودہ بستی میں گُھٹن محسوس ھوتی ھے
نیا ماحول رکھتے ہیں، ھوائیں بانٹ لیتے ہیں

جو دل آزار ھوتے تھے کبھی مسند نشینی میں
بڑی بے چارگی میں اب دُعائیں بانٹ لیتے ہیں

بہت دن سے ھمارے گرد رقصاں موت کے سائے
چلو اب مل کے جینے کی ادائیں بانٹ لیتے ہیں

وفا پیکر ہیں، عجز و عاجزی اِن کی سرِشتوں میں
یہی وہ لوگ ہیں جو کہکشائیں بانٹ لیتے ہیں

دھنک، خُوشبو، سُریلی بانسری اور تتلیوں کے پر
مِرے محبوب یہ میراث آئیں بانٹ لیتے ہیں

فقط حصّے میں برفیلی ھوائیں، زرد موسم ہیں
کسی دن پیار کی حسرتؔ بلائیں بانٹ لیتے ہیں۔

رشید حسرتؔ۔
 
Top