بازگشت

ذوالقرنین

لائبریرین
ٹوٹا ہوا تارا
مصنف: ناصر شاہ میر

تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان اپنی اصل تعلیمات پر عمل کرتے رہے اور انہوں نے بدلتے ہوئے رجحانات کے مطابق اپنے تحفظ کے لیے جنگی ساز و سامان بھی تیار رکھا، تو کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ اور جب مسلمانوں نے قرآن کی تعلیمات اور بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ناکامیوں نے ان کے ہاں ڈیرے ڈال لئے اور دوسری قومیں غالب آ گئیں۔
بدقسمتی سے آج کا مسلمان جدید علوم اور خاص طور پر سائنسی علوم سے کوسوں دور، مغربی نظام کی اندھا دھند تقلید میں، احساس مروت سے خالی، پیسہ کمانے کی دھن میں لگا ہوا ہے۔ آج کے اس مشینی دور میں کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کی سائنسی ایجادات بن چکا ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ہمارے ملک پاکستان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بے تحاشا ہیں لیکن ہماری نوجوان نسل میں سائنسی علوم کا شوق ابھارنے والے بہت کم ہیں۔ جس ملک کے لوگوں کا سائنسی علوم میں دلچسپی کا یہ حال ہو، وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ اسلام سائنس اور کیمیا، جغرافیہ اور فلکیات، نباتات اور جمادات کے بارے میں تحقیق کا مخالف ہے۔ اسلام کیسے مخالفت کر سکتا ہے جبکہ اسلام نے ہی دنیا کو باور کرایا کہ مظاہر فطرت کو انسان کی پرستش کے لیے نہیں بلکہ خدمت و راحت اور آسانی کے لیے پیدا کیا گیا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے مظاہر فطرت کے سامنے جھکے ہوئے انسان کو اٹھا کر تسخیر کا راستہ دکھایا۔
آج علمائے دین کو دہشت گر اور مدارس کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر روشن خیالی کے راگ الاپنے والے حضرات ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ انہوں نے خود اس ملک کے لیے کیا کیا؟ درحقیقت آج کے اس جدید دور میں تمام کے تمام شعبہ جات میں جتنی بھی ترقی ہوتی نظر آ رہی ہے، دین اسلام کی تعلیمات، مسلمانوں کی علم نوازی اور علماء کی قدردانی کی مرہون منت ہے کہ جن کی تعلیمات سے ہر شعبے میں ایسی قد آور شخصیات پیدا ہوئیں جن کی تحقیقات اور تالیفات سے آج تک یورپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں استفادہ کیا جا رہا ہے۔
جابر بن حیان کو آج کی سائنس بابائے کیمیا کا درجہ دیتی ہے۔ وہ نہ صرف سائنسدان تھے بلکہ عالم دین بھی تھے اور امام جعفر صادق کے شاگرد بھی تھے۔ طب میں لازوال شہرت کا مالک اور دو سو کتابوں کا مصنف محمد بن زکریا۔ نجوم، جغرافیہ اور ہیئت میں ناموری کے جھنڈے گاڑنے والا ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی۔ تاریخ کے ساتھ ساتھ سمندری لہروں، موتیوں، زلزلوں اور نظریہ ارتقاء پر بحث کرنے والا علی بن حسین مسعودی۔ ریاضی، انجینئرنگ، موسمیات، نجوم اور کائنات کے اسرار بیان کرنے والا ابن الہیثم۔ اور چینی ترکستان سے ہجرت کرکے بغداد میں اپنی علمی قابلیت کا لوہا منوانے والا ابو نصر محمد بن محمد فارابی۔ کس کس کا نام لیا جائے؟
طب ہو یا جغرافیہ، نباتات ہوں یا حیوانات، جواہرات ہوں یا فلکیات، نفسیات ہو یا معدنیات، تاریخ ہو یا ادب، منطق ہو یا فلسفہ، سیاست ہو یا طبیعیات، ہر فن میں اور ہر موضوع پر مسلمان اکابرین کی تصنیفات چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔
آج مسلمانوں کی پسپائی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اسلاف اور دین اسلام کی تعلیمات کو بھلا دیا اور غیروں کے طریقوں پر چلنے لگے۔ شاعر مشرق نے جب یورپ کے کتب خانوں میں اپنے آبا و اجداد کی کتابیں دیکھیں تو پکار اٹھے:
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی​
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا​
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی​
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا​
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی​
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا​
حضرت اقبال کا دل تو محض یورپ کی لائبریریوں میں اپنے آباء کی کتابیں دیکھ کر سی پارا ہو گیا تھا۔ اگر درج ذیل خبر ان کی نظر سے گزر جاتی تو نجانے ان کے دل کی کیا کیفیت ہوتی اور وہ کس انداز میں اپنے قلبی جذبات کا اظہار کرتے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے:
"امریکہ میں تحقیق و دانش کے عالمی مرکز 'ہارورڈ' کے مقابل اعشاریہ کے خفیف فرق کے ساتھ 2011ء کی درجہ بندی میں کیمبرج یونیورسٹی، دنیا کی پہلی معیاری ترین یونیورسٹی قرار پائی ہے۔ ہارورڈ کے بعد امریکہ ہی کی ییل یونیورسٹی تیسرے، برطانوی یونیورسٹی کالج آف لندن چوتھے اور میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) بہترین عالمی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ آکسفورڈ چھٹے، امپیریل کالج آف لندن ساتویں، یونیورسٹی آف شکاگو آٹھویں، کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نویں اور امریکہ ہی کی پرنسٹن یونیورسٹی دنیا کی دسویں بہترین یونیورسٹی ہے۔ ان میں کسی بھی مسلم ملک کی کوئی یونیورسٹی نہیں۔ ستاون اسلامی ملکوں میں 580 یونیورسٹیاں جبکہ صرف بھارت میں 583 یونیورسٹیاں ہیں۔ 400 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کا کوئی ادارہ شامل نہیں۔ ایشیا میں چین، کوریا اور بھارت، یونیورسٹیوں پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
مگر آج ہم دور جدید کے تقاضوں سے بے بہرہ، عیاشیوں میں مگن، مسلسل تباہی کے دہانے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم لوگ تو اسی ملک کو لوٹنے کھسوٹنے میں لگے ہوئے ہیں جو ہمیں پناہ دیے ہوئے ہیں۔ قرآن و سنت کو چھوڑ دیا۔ اپنی خود داری کو الوداع کہہ دیا اور 65 سال گزر جانے کے باوجود بھی اپنی حالت کو بدل نہ سکے۔
اگر آج بھی ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق خود کو نہ بدلا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب امریکہ کا ڈنڈا ہمارے سروں پر برسنے لگے گا؛ اور ہمارا حال بھی برما اور فلسطین کے مسلمانوں جیسا ہو جائے گا۔ لگتا تو نہیں کہ جنت کی طلب میں قریہ قریہ پھرنے والے حضرات ان باتوں کو کوئی اہمیت دیں گے۔ لیکن ہماری ذمہ داری ابلاغ ہے، دل و دماغ کی تبدیلی نہیں۔

(بشکریہ: گلوبل سائنس شمارہ اکتوبر 2012)​
 
Top