باتیں مستنصر حسین تارڑ کی ۔۔۔از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔روزنامہ پشاور

Dilkash

محفلین
باتیں مستنصر حسین تارڑ کی
مستنصر حسین تارڑ میرے پسندیدہ رائٹر ہیں‘ اب مجھے ان کا نام لکھنا آ گیا ہے‘ وہ چند ماہ اپنے بچوں کے ساتھ امریکہ میں رہے‘ اس صفحے پر ان کا کالم روبی ڈرائیورنی پڑھا تو لطف آ گیا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ واپس آ گئے ہیں‘ میں نے لاہور میں ان کے گھر فون کیا کہ وہاں سے نیویارک کا نمبر لے کر ان سے بات کروں‘ دوسری طرف سے تارڑ صاحب کی اپنی آواز آئی‘ دل باغ باغ ہو گیا۔ وہ جتنا عرصہ امریکہ میں رہے وہاں سے بذریعہ ڈاک یا کمپیوٹر اپنے کالم بھیجتے رہے۔ ان کے کالم میری بیوی کو بھی بہت پسند ہیں‘ وہ اکثر مجھے طعنے دیتی ہیں کہ کالم لکھنا اسے کہتے ہیں

یہ کیا تم خبروں و اطلاعات پر شماریات کے طومار باندھ دیتے ہو اور اسے کالم قرار دیتے ہو‘ کالم وہ ہے جو تارڑ صاحب لکھتے ہیں یعنی اپنی ذات کو محور بنا کر واقعات کی کہانی بنتے ہیں‘ جب آدمی اس کہانی میں کھو جاتا ہے اور پڑھنے و لکھنے والے کا ذہنی سمبندھ ہو جاتا ہے تو پھر عام اخباری کالم ایک تخلیقی چیز بنتا جاتا ہے‘ میں بھی زندگی بھر اس میں کوشاں رہا مگر سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ تارڑ صاحب صرف کالم نگار نہیں‘ یہ کالم نویسی تو ان کی تحریری زندگی کا ایک جھونگا ہے‘ دراصل وہ دنیا کے سب سے بڑے اردو سفرنامہ نگار ہیں‘ افسانہ نگار‘ ڈرامہ نگار پتہ نہیں کیا کچھ نگار ہیں۔

میں تو ان کے انگریزی کالم پڑھ کر عش عش کر اٹھتا تھا اب انگریزی خواندگی علالت کی وجہ سے کم ہوئی ہے تو ان کی انگلش نویسی سے قدرے پڑھائی کی حد تک ہٹ و کٹ گیا ہوں۔ تارڑ صاحب بڑے خوش اخلاق‘ ملنسار اور بہت خوبصورت آدمی ہیں اندر باہر سے‘ ہر لباس ان پر سجتا ہے‘ اس نیم بڑھاپے میں بھی ان پر نیم جوانی طاری رہتی ہے‘ پتہ نہیں اب بھی کتنے دلوں کی دھڑکن ہوں۔ تارڑ صاحب ان معدودے چند خوش قسمت رائٹرز میں سے ہیں جنہوں نے آج تک نوکری نہیں کی اور سب کچھ جو ان کے پاس ہے ان کے قلم کی خالص کمائی ہے

یہ شہرت‘ یہ عزت‘ یہ دولت صرف ایک بھرپور قلم کے ذریعے وہ بھی لاہور میں بیٹھ کر حاصل کرنا معمولی بات نہیں‘ وہ صرف نثر نگار ہیں میری طرح شاعری سے کافی دور ہیں اور یہ اچھا ہی ہے ورنہ ایک ایک کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی غزلیں سناتے نظر آتے۔ انہوں نے جس فیلڈ کا انتخاب کیا اس کے نکتۂ عروج کو چھوا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ صاحب اسلوب نثر نگار ہیں‘ ان کی تحریر اپنے منہ اور لفظوں سے نام لئے بغیر یہ کہتی دکھائی دیتی ہے کہ وہ تارڑ کی لکھت ہے تارڑ نے جو لکھا اسے مثال بنا دیا۔ غیر ملکی سفرنامے تو بہت لوگ لکھتے ہیں‘ میں نے بھی دس لکھ چھوڑے ہیں مگر اپنے ملک‘ اپنی دھرتی‘ اپنی زمین کے سفرنامے لکھنا بہت مشکل و کٹھن ہوتے ہیں‘ اس میں نئی دنیاؤں کی سیر نہیں ہوتی بلکہ دیکھی ہوئی دھرتی کی تصویر ہوتی ہے جو ہر وقت ہمارے سامنے ہوتی ہے۔

تارڑ نے یہی کارنامہ کر دکھایا ہے کہ معمولی کو غیر معمولی بنا دیا ہے اور عام باحیا خواتین کے کرداروں کو پہاڑوں‘ صحراؤں اور جنگلوں کی بستیوں میں افسانوی کردار بخش کر زندہ و امر کر دیا ہے۔ تارڑ کی انگلیاں پڑھنے والوں کی نبض پر ہوتی ہیں اس لئے انہیں ناقابل یقین پذیرائی ملی ہے۔ ان کی کتابوں کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں اور نکل رہے ہیں‘ ادبی شان دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ نیویارک وہ صرف اپنے بچوں سے ملنے گئے تھے اور اپنی زندگی کو مدھم Low key میں رکھا تھا مگر پھر بھی یاروں کو خبر ہو گئی اور ان کے لئے ادبی تقاریب کا بندوبست کر ہی دیا۔

تارڑ کی قوت مشاہدہ لاجواب ہے‘ آدمی سامنے سے گزر جائے تو اس کا خوبصورت پروفائل بنا کر پیش کر دیں گے۔ میں کسی زمانے میں ان سے کہا کرتا تھا کہ تارڑ صاحب آپ کمرے سے غسل خانے تک جائیں تو اتنے عرصے کا بھی سفرنامہ لکھ دیں گے۔ یہ ہمارے اخبار کی خوش قسمتی ہے کہ اس اردو دنیا کا اتنا بڑا قلمکار اپنی تحریروں سے اسے سجا رہا ہے اور اس کا یہ کہنا بجا ہے کہ آج جتنے چھوٹے بڑے اردو اخبارات پاکستان میں چھپ رہے ہیں اس میں آج کے ایڈیٹوریل صفحے کا جواب نہیں

یہ بہت بڑا خراج ہے جو بہت بڑے آدمی نے اہل پشاور کو ادا کیا ہے۔ ہمارے اخبار کے ایڈیٹوریل صفحے پر ٹولیڈو امریکہ کے ڈاکٹر امجد حسین‘ نیویارک اب سٹیٹ کے عتیق صدیقی‘ شکاگو کے ڈاکٹر افتخار نسیم‘ کراچی سے سائیں بابا‘ جیسے بڑے بڑے لوگ لکھتے ہیں یہ میرا اعزاز ہے کہ میں ان کا ہم کالم ہوں۔

Dated : 2010-09-02 00:00:00
 

Dilkash

محفلین
شائید وہ اپنی لکھائی کا قیمت جان چکا ہے اور جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ وہ کوئی ملازمت کرتا ہی نہیں۔
شائید یہی انکی زریعہ امدن ہو۔
 

محمد ساجد

محفلین
تارڑ صاحب بہت اچھے لکھاری ہیں، لیکن ان کی کتابیں مہنگی بہت ہوتی ہیں

اگر ایک مشہور فلم سٹار فلم میں کام کرنے کے کروڑوں روپے لے سکتا ہے ایک طب کا پروفیسر صرف پانچ دس منٹ چیک اپ کے ہزاروں لے سکتا ہے تو ایک بڑا ادیب اپنی کتابوں کے اچھے دام کیوں نہیں وصول کر سکتا :) صرف چاچا جی کی ہی نہیں بابا جی، آپا، مفتی صاحب کی کتب بھی اسی دام پہ فروخت ہوتی ہیں
 
Top