باتوں ہی باتوں میں بقلم یوسف ثانی

شمشاد

لائبریرین
باتوں ہی باتوں میں
دو افراد باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ ایک نے غصہ میں آ کر دوسرے سے کہا کہ تم تو بلکل گدھے ہو۔ دوسرے نے کہا گدھے تو تم ہو۔ بس پھر کیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گدھا ثابت کرنے کے لئے گدھے پن کا ثبوت دینا شروع کر دیا۔ پہلا فرد غصہ کو کم کرتا ہوا بولا چلو ایسا کرتے ہیں کہ ووٹنگ کرا لیتے ہیں۔ جسے زیادہ ووٹ ملے گا اصل میں وہی گدھا ہو گا۔ دوسرا بولا کرا لو ووٹنگ ابھی فیصلہ ہوا جاتا ہے کہ کون گدھا ہے۔ پہلا گویا ہوا تو مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں "گدھے ہونے" کے امیدوار ہیں۔ اور جسے زیادہ ووٹ ملے وہی گدھا ہو گا، تمہیں منظور ہے نا؟ دوسرے فرد کے اقرار پر پہلے شخص نے جلدی سے کہا تو پھر ٹھیک ہے میں اس مقابلے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اب تم بلا مقابلہ گدھے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ رفوچکر ہو گیا۔​
دیکھا آپ نے ووٹنگ کا کمال یعنی اس میں بڑے بڑے گدھے بھی منتخب ہو جاتے ہیں بلکہ بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر دم انتخابات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ وہ بھی منتخب ہو جائیں۔ گدھے کے تذکرے پر یاد آیا گزشتہ دنوں میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ صاحب بہادر نہ جانے کسی بات پر مسلسل انکار کئے جا رہے تھے اور میں انہیں منانے کی کوششیں کر رہا تھا۔ آخرکار میں نے ترپ کا پتہ پھینکتے ہوئے کہا۔ تم میری اتنی سی بات بھی نہیں مانتے حالانکہ میں تو تمہیں اپنے بھائیوں کے برابر عزیز رکھتا ہوں۔ موصوف تقریباً رضامند ہوتے ہوئے بولے : واہ صاحب! یہ اچھی رہی۔ جب تمہیں کوئی بات منوانی ہو تو فوراً بھائی بنا لیتے ہو۔ میں نے کہا میرے بھائی! لوگ تو وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بھی بنا لیتے ہیں۔ میں نے تو صرف بھائی بنایا ہے۔ بس موصوف دوبارہ ناراض ہو گئے اور اب تک ناراض ہیں۔ پتہ نہیں کیوں؟​
 

شمشاد

لائبریرین
ویسے ناراض ہونے میں دیر بھی نہیں لگتی ہے۔ لوگ تو ذرا ذرا سے بات پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ اب پچھلی عید کی بات ہے ہم نے سوچا چلو کچھ نہیں تو جوتے ہی سہی۔ چنانچہ ایک جوتے کی دکان پر پہنچ گئے۔ سیلزمین نے کئی خوبصورت جوتے دکھائے جو قیمت معلوم ہوتے ہی ہمیں ناپسند آنے لگتے۔ جوتوں کا ڈھیر لگ گیا مگر ہمیں کوئی جوتا پسند ہی نہیں آ رہا تھا کہ پسندیدگی کے لئے جیب کی پیشگی اجازت ضروری تھی۔ چنانچہ ہم جب بکھرے ہوئے لاتعداد جوتوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اٹھنے لگے تو سیلزمین گویا جوتے مارتے ہوئے بولا، صاحب! اتنے جوتے پڑے ہیں لیکن آپ اب بھی مطمئن نہیں۔ ہم نے فوراً خود کو سنبھالا اور سیلزمین کی دیکھتے ہوئے خوبصورت سے بارہ سو روپے والے جوتے پہن لئے۔ سیلزمین اپنی اس کامیابی پر مسرور نظر آنے لگا۔ ہم نے جیب سے بٹوا اور بٹوے سے پانچ سو روپے کا اکلوتا نوٹ نکالتے ہوئے کہا۔ یہ پانچ سو روپے لیتے ہو یا اتاروں جوتا؟​
آگے کا احوال کیا بیان کریں۔۔۔ جی ہاں مجبوراً مجھے جوتا۔۔۔ اب دیکھیں نا! جنگ محبت اور مجبوری میں تو سب جائز ہوتا ہے نا؟ آپ محبت سے مجبور ہوں یا مجبوراً محبت کر رہے ہوں ہر دو صورتوں میں نتیجہ عموماً ایک ہی نکلتا ہے۔ مثلاً اس محفل ہی کو لے لیجیے جس میں ایک شمع محفل ہیروں کے زیورات سے سجی دیگر تمام خواتین و حضرات کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ایک خاتون تو اپنے شوہر کے سر ہو گئیں کہ مجھے بھی ایسا ہی سیٹ لا کر دو۔ شوہر نے سمجھایا اری نیک بخت پاگل ہوئی ہے کیا؟ تمہیں کچھ اندازہ ہے یہ کتنا قیتی ہے؟ بیوی بولی مجھے کیا پتہ؟ اچھا چلو اس سے پوچھ لو کہ کتنے میں خریدا ہے؟ شوہر نے لاکھ سمجھایا کہ یہ آداب محفل کے خلاف ہے، لوگ کیا کہیں گے۔ مگر خاتون نہ مانیں۔ مجبوراً صاحب بہادر مذکورہ خاتون کے قریب پہنچے۔ سب کی نظریں ادھر ہی جم گئیں کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ صاحب بہادر نے خاتون کے قریب جا کر کہا ایکسکیوزمی پلیز! کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سیٹ آپ نے کتنے میں خریدا ہے؟ پہلے تو خاتون نے اسے سر تا پا گھور کر دیکھا مگر محفل کا رنگ انہماک دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا "نیویارک سے خریدا ہے ڈھائی ہزار ڈالر میں آیا تھا" قیمت سن کر صاحب بہادر کے ہوش اڑنے ہی والے تھے کہ انہوں نے خود کو سہارا دیا اور یہ کہتے ہوئے پلٹ پڑے کہ مگر اتنے میں تو نیا سیٹ مل جاتا ہے۔​
************************​
 
Top