سید شہزاد ناصر
محفلین
کوئی تُک بھی ہے جناب والا، مجھ رندِ خراباتی اور حضرت ذہین شاہ تاجی کے مابین ارتباط و اختلاط۔۔۔۔ وہ غیب ہیں، میں شہود، وہ ذِکر ہیں، میں فکر، وہ معتقد ’’الہام‘‘ ہیں میں منکر پیغام، وہ درود، میں عود، وہ حرم، میں بیت الصنم، وہ محونالۂ صباحی، میں غرقِ دجلۂ صراحی، وہ گریۂ شبانہ، میں خندہ ٔ سحر گاہانہ، وہ نقیب لالہ، میں خطیبِ منبر گناہ۔۔۔ وہ یقین کی گلی میں بڑے اطمینان کے ساتھ دھونی رمائے بیٹھے ہیں، میں تشکُّک کی وادیوں میں یہ کہتا ہوا، خاک چھان رہا ہوں کہ:
صبا، بلطف بگو آں غزالِ رعنا را
کہ سر بکوہ و بیابان تو دادۂ مارا
“اے صبا اس نازنین ہرن سے نرمی سے کہہ دے
کہ ہمارا سر کوہ و بیاباں کے حوالے تو نے ہی تو کیا ہے”
اُن کی آنکھوں میں رازیابی کا سرور ہے، میرے دل میں تجسُّس کا ناسور ہے، ان کو اپنے علم کا احساس ہے، میں اپنے جہل کا معترف اور رو رہا ہوں کہ : ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم ِ عوام ست۔ وہ گردن جھکاتے ہیں اور ’’جلوۂ یار‘‘ کو سامنے پاتے ہیں، میں ہر طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہوں کہ:
ساقیٔ مطرب و مے، جملہ مہیاست ولے
کیف بے یار میسّر نہ شود، یار کُجاست؟
(شراب، گوّیا،پھول سب مہیا ہیں
یار کے بغیر لطف نہیں، کہاں ہے یار)
وہ جب صبح کے گلابی نور میں آنکھیں اُٹھاتے ہیں، تو ’’شاہد غیب‘‘ کے جلوؤں کے پھولوں سے ان کی نظر کا دامن بھر جاتا ہے اور : ’’گُل چینِ بہارِ تو، زدامان گلہ دارد‘‘ کے ترانے چھڑ جاتے ہیں، اور میں نامُراد جب منھ اندھیرے جاگتا ہوں تو یہ شعر بے ساختہ زبان پر جاری ہوجاتا ہے:
شبِ تار است و رہِ وادیٔ ایمن درپیش
آتشِ طور کجا، وعدہ دیدار کجاست؟
(رات اندھیری ہے اور راہِ وادئ ایمن درپیش ہے
کہاں ہے آتشِ طور، ہے کہاں وعدہء دیدار)
اور جب، گُریز پا ستاروں پر نظر جماتا ہوں تو گریبان پھاڑ کر چلّاتا ہوں:
اے رات گئے کے غم گسارو، بولو
اے عالمِ بالا کے اشارو، بولو
اِس پردۂ رنگ و بو میں پوشیدہ ہے کون؟
بولو، اے ڈوبتے ستارو، بولو
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ میں اور ذہین شاہ میں کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے؟ اسی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ شاہ صاحب کا یہ ارشاد ہے کہ ’’نَفَسِ کُلّی‘‘ اور حقائقِ کائنات کا ادراک، وجدان، اور فقط وجدان سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وجدان ایک ایسی طاقت ہے، جو فقط فنونِ لطیفہ کی تخلیق و تزئین کے کام آتی ہے، تفتیش و تحقیق اس کا وظیفہ ہی نہیں۔ وہ ایک مقیّش کا پھندنا ہے۔ جس سے میدانِ جستجو میں پھاوڑے کا کام لیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس بنا پر میرا ایمان ہے کہ صرف تفکُّر و تدبّر ہے، جس کی چٹکی، لیلائے کائنات کے مکھڑے سے نقاب اٹھاتی ہے۔
شاہ صاحب کا تصوّف، ذرّوں میں بھی موتی دیکھ لیتا ہے اور میری فکر سچّے موتیوں پر بھی نگاہ جماتی ہے تو آنسوؤں میں تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہم نے پھولوں کو چھوا، پل بھر میں، کانٹے بن گئے
اُس نے، کانٹوں پر قدم رکّھا، گلستاں کردیا
وہ ’’آہ‘‘ کے شیدائی ہیں، میں ’’نگاہ‘‘ کا۔۔۔۔اُن کا نعرہ ہے:
دُعائے صبح و آہِ شب، کلیدِ گَنجِ مقصود ست
بایں راہ و رَوش می رَو کہ بادل دار پیوندی
(گوہرِ مقصود کی کنجی دعائے صبح و آہِ شب میں ہے
انہی راہوں، روشو ں پر چلو کہ دلدار کا وصال نصیب ہو)
اور میں پُکار پُکار کر کہتا ہوں:
حاصل کار گہِ کون و مکاں، ایں ہمہ نیست
بادَہ پیش آر کہ اسبابِ جہاں ایں ہمہ نیست
(کون و مکاں کی اس کارگاہ کا حاصل یہی سب نہیں
شراب لا کہ اسبابِ جہاں یہی سب نہیں)
اُن کے اشراقی گنبد میں :’’السلام، اے عشق خوش سودائے ما‘‘(السلام اے عشق، ہمارے جنونِ خوش ”[1])، کے ترانے چھڑے ہوئے ہیں۔ اور میری کار گاہِ تامُّل سے،’’السّلام، اے عقل خوش ملجائے ما‘‘ (السلام اے عقل ہماری بہترین پناہ گاہ!) کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ، دل میں تجلّیات کا مشاہدہ کرکے فرماتے ہیں ’’ستارہ بدرخشید و ماہِ مجلس شد (ایک ستارہ چمکا اور ماہِ مجلس ہوگیا‘‘ اور میں خم خانہ ادراک میں گنگنا رہا ہوں کہ :
’’ما، در پیالہ، عکسِ رُخِ یار دیدہ ایم ‘‘ (ساغر میں ہم عکسِ رخِ یار کا دیدار کرتے ہیں)
وہ تصوف کی سہانی چاندنی میں مقاماتِ معنوی کا درس دے رہے ہیں، اور میں تجسس کی کڑی دھوپ میں کھڑا آواز دے رہا ہوں:
مصلحت نیست کہ از پردہ بُرون افتد راز
ورنہ در مجلس رندان، خبرے نیست کہ نیست
(راز کی پردہ کشائی خلافِ مصلحت ہے
ورنہ مجلسِ رنداں کسی خبر سے بے خبر نہیں)
ان دست و گریبان و متضاد حالات میں، ہمارے درمیان، آویزش کے بجائے ارتباط و اختلاط کا پیدا ہونا، اور اس کا، تھوڑے ہی دن کے بعد شدید محبت میں تبدیل ہوجانا ایک عجب معجزہ معلوم ہوتا ہے۔
جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم
میں، معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
ارباب نظر ہماری محبت کو دیکھتے ہیں تو بھَوچکّا سے ہو کر رہ جاتے ہیں، اور، گھبرا گھبرا کر، ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، صاحبو، خدارا بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے، کوئی اﷲ کا بندہ کچھ روشنی ڈالے اس خَرَقِ عادت پر کہ خانقاہ و خرابات کے ڈانڈے کیسے مل گئے۔ قُلقُلِ مینا اور نعرۂ ’’یاہو‘‘ میں کن بنیادوں پر سمجھوتا ہوگیا، اور کاشیٔ بادہ و کعبۂ سجّادہ نے، ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں کیوں کر ڈال دیں۔
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست ! (عقل حیرت سے جل گئی کہ یہ کیا بوالعجبی ہے!)
اب تو عالم یہ ہے کہ ہم دونوں، یعنی شاہ صاحب اور شاعر صاحب ایک دوسرے کی محبت میں بھی پڑ گئے ہیں، ایک طرف تو میرے برادران فکر، تیوری چڑھا چڑھا کر، مجھ کو طعن و تشنیع کا ہدف بنائے ہوئے ہیں، اور ان کی ناکیں لانبی ہو ہو کر مجھ سے، کہہ رہی ہیں کہ کدھر چلے پیرومرشد، کیا اپنی عقل کے ساتھ ساتھ، ہم سب کا بیڑا بھی غرق کردینے پر کمر باندھ لی ہے، اور سب کی آنکھیں، ایک دوسرے کی طرف اُٹھ اُٹھ کر، یوں پوچھ رہی ہیں۔
؎ چیست، یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیر ما؟
(اب کے اے یاران ِ طریقت،ہم کیا تدبیر کریں؟)
اور دوسری طرف، حضرت کے صاحب ذکر معتقتدین میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے، وہ مٹّھیوں میں اپنی اپنی داڑھیاں پکڑ پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے آقا و مولیٰ کو آخر ہوکیا گیا ہے کہ وہ جوشؔ کے سے بد عقیدہ و بے یقین ملحد کو اپنی مسند پر بٹھاتے ہیں اور کلیجے سے لگاتے ہیں۔
جس کا نتیجہ ہے کہ اب ہم دونوں، ایک دوسرے سے گا گا کر یہ کہہ رہے ہیں:
’’میں تو ہوگئی بدنام، سنوریا تورے لیے!‘‘
بات یہ ہے کہ میرے احباب اور حضرت کے معتقدین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو چاہتے کیوں ہیں۔ ہم پر تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ :
؎ ہرکسے، از ظنّ خود، شُد یارِ من
وزدرونم، کس نجُست اَسرارِ من
(ہر کوئی میرا عاشق ہونے کا دعویدا ر تو ہے مگر
میرا رازِ دروں میرے اسرار کا متلاشی کوئی نہیں)
اُن بے چاروں کا یہ خیال ہے کہ حضرت شاہ صاحب اور میرے مابین جو محبت پائی جاتی ہے وہ اس امر پر مبنی ہے کہ شاہ صاحب کے عشق نے، میری عقل کے سامنے، یا، میری عقل نے اُن کے عشق کے آگے سِپر ڈال دی ہے۔ اور اُس کے ساتھ ساتھ:
تم ظلم چھوڑ دیتے، ہم ترک آہ کرتے
کچھ تم، نباہ کرتے، کچھ ہم نباہ کرتے
پر کاربند ہوکر حضرت کے تیّقن اور اس خاک سار کے تَفَحُص کے درمیان، چپکے سے مصالحت کی کوئی، مروت آمیز، صورت نکل آئی ہے۔
اُن لوگوں سے کوئی، ببانگ دُھل یہ بات کہہ دے کہ نابابا اس نوع کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے آپس میں ذرّہ برابر بھی لین دین نہیں کیا ہے۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے اصول و عقائد پر پہاڑوں کی طرح، ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس تاریخ تک کوئی ایسا قرینہ، دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہا ہے کہ میں، خدا نخواستہ، ایقان کی طرف مُڑ جاؤں گا، اور حضرت جادۂ تشکک پر گام زَن ہوجائیں گے (اﷲ کرے گام زَن ہوجائیں) حضرت کا عشق مجھے پھسلا رہا ہے:
’’موری گلی آجا، ہو بالما‘‘
اور میری عقل، ٹھُنَک ٹھُنَک کر کہہ رہی ہے :
’’نجریوں سے بھردوں گی جی، چھونے نہ دوں گی شریر‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر شدید تخالُف، تباین اور تضاد کے باجود وہ کون سی طاقتور قدرِ مشترک ہے، جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کی محبت پر مجبور و مامور کردیا ہے۔ مجھ کو بابا ذہین شاہ کے دل کا حال معلوم نہیں، اس لیے قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ کو اس قدر کیوں چاہتے ہیں۔ اور وہ میری کون سی ادائے کفر ہے جو انھیں بھا گئی ہے۔ اس موقع پر ایک پرانی بات یاد آگئی، وہ سُن لیجیے، شاید اُس سے اس صورت حال پر کچھ روشنی پڑ سکے۔ ایک تھیں، خیرآباد کی، فیروزی بَجیا، اُن میں کسی قدر، سَنَک تھی، ایک دن وہ ملیح آباد آئیں اور اُمُ الشعرأ یعنی میری رفیقۂ حیات سے، بڑے استعجاب کے ساتھ کہنے لگیں بیٹا یہ بھَونرا خان اَذان کے بیچ میں میرا نام کیوں لیا کرتے ہیں۔ میری بیوی نے، مسکرا کر، ان سے کہا فیروزی بجیا کیسی باتیں کررہی ہو، اﷲ اﷲ کرو، ہم نے بھونرا خان کی اذان میں تمہارا نام کبھی سنا ہی نہیں، بولیں، ارے تم لڑکیوں کے تو کان ٹھپ ہوچکے ہیں۔ ابھی ابھی تو انھوں نے اذان دی تھی، اﷲُ اکبر اﷲُ اکبر، حَیّ علی الفلاح، فیروزی بَجیا تُوبہ، (بِضمّ ’’تا‘‘) میری بیوی نے کہا یہ بھونرا خان کو کیا لت لگ گئی ہے کہ عین اَذان کے بیچوں بیچ ’’فیروزی بجیا توبَہ‘‘ کہتے ہیں، یہ سُن کر انھوں نے کہا کہ وہ میرانام اذان کے بیچ میں اس لیے لیتے ہیں کہ میری کوئی ’’خوبو‘‘ (واو مجہول کے ساتھ) ان کو پسند آگئی ہے۔ سو اگر اس خاک سار سے کوئی دریافت کرے کہ شاہ صاحب تجھ کو چاہتے کیوں ہیں تو میں فیروزی بجیا کی طرح جواب دوں گا کہ حضرت کو میری کوئی ’’خوبو‘‘ پسند آگئی ہے۔
اس ’’خوبو‘‘ کی بات کو چھوڑ کر، میں اپنی ذات میں کوئی ایسا وصف نہیں پاتا کہ کوئی پیرِ خانقاہ، مجھ رندِ نامہ سیاہ سے محبت کرسکے۔
سوداؔ نے شاید اسی منزل میں یہ شعر کہا تھا:۔
سودا، جو ترا حال ہے، اُتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے، تُو نے اسے کس آن میں دیکھا
اب رہا یہ امر کہ پرستارِ عقل و بندۂ فکر ہونے کے باوجود، میں بابا ذہین شاہ سے کیوں محبت کرتا ہوں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے جس چیز نے، میرے دل کو ان کی طرف کھیچنا شروع کیا وہ ان کا چہرہ ہے۔ چہرہ، انسان کی کتابِ سیرت کی فہرستِ ابواب ومضامین اور اس کی تمام شخصیت کا ترجمان و مفسر ہوتا ہے۔
میں ان اندھوں کی بات نہیں کررہا ہوں، جن کو، ’’آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک تو چہرہ اور تلوار، دونوں یکساں ہوتے ہیں، لیکن ’’بصیرۃ المومنین‘‘ رکھنے والے ارباب نظر، جب کسی کے چہرے کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ان کے لمسِ نگاہ کی چبھن سے منظور کا چہرہ بولنے لگتا ہے۔
چہرے جھوٹ نہیں بولا کرتے، چند انے گنے جرائم پیشہ افراد کے، سدھے ہوئے دروغ گو چہروں کے علاوہ، تمام انسانوں کے چہرے، پچانویں فی صد، سچ اور سچ بولتے ہیں۔ اور، ایک آن میں، انسان کے تمام رذائل و فضائل کے دفتر کھول کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ تو بندہ پرور، جب پہلی بار میں ذہین شاہ کا چہرہ دیکھا تو اس نے میرا دل موہ لیا، ان کے چہرے نے مجھ سے کہا کہ میری یہ نورانیت، میری جوانی کا وہ جمال ہے، جو، ماہ و سال کی چھلنیوں سے گزر کے مجھ پر دمک رہا ہے۔ اور یہ صرف جوانی کے جمال ہی کی سہانی دمک نہیں، اس میں اس کے حسن کی معنوی جگمگاہٹ کا عنصر بھی شامل ہے، جس کا میں چہرہ ہوں۔ چہرے کے بعد زبان کی باری آتی ہے، زبان سے پتا چل جاتا ہے کہ متکلم کس خاندان اور کس طبقے کا فرد ہے، اور علم و فضل کے اعتبار سے کتنے پانی میں ہے۔ بعض اوقات چہرہ وزبان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کسی کا چہرہ شریف ہوتا ہے، زبان رذیل ہوتی ہے، اور کسی کی زبان شریف ہوتی ہے اور چہرہ رذیل ہوتا ہے۔ ہاں تو میں کہہ چکا ہوں کہ سب سے پہلے شاہ صاحب کے چہرے نے میرے دل پر اثر کیا، ایسے معنوی و صوری اعتبار سے، منّور و مرتب چہرے کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور اس کے بعد جب ان سے حرف و حکایت کی نوبت آئی، تو الفاظ کے رچاؤ، فقروں کے بہاؤ اور لہجے کے سبھاؤ نے یہ بات میرے دل پر نقش کردی کہ میں ایک ایسے غیر معمولی مقناطیسی انسان کے روبرو بیٹھا ہوا ہوں، جس کا چہرہ بھی عالی خاندان ہے اور زبان بھی نجیب الطرفین۔ حافظ شیرازی کا محبوب بظاہر نرم اور بباطن سخت تھا، اور اسی لیے اس نے منھ پیٹ کر کہا تھا:۔
چہ قیامت است جاناں کہ بعاشقان نمودی
رُخِ ہمچو ماہِ تاباں، دلے، ہمچو سنگِ خارا
(کون سی قیامت ہے جوتو نے اپنے چاہنے والوں پر نہ توڑی ہو
رُخ ماہِ تاباں جیسا اور دل سنگِ خارا سے سخت تر!)
لیکن میرے محبت کے رُخ اور دل میں بڑی ہم آہنگی ہے اور اسی لیے میں یہ کہہ رہا ہوں:۔
رُخے ہمچو ماہِ تاباں، دلے ہمچو موجِ کوثر
(رُخ جیسے ماہِ تاباں،دل مانندِ موجِ کوثر)
اور اب، جب کہ ہماری ملاقات پُرانی ہوکر، بے تکلّفی کے حدود میں داخل ہوچکی ہے، یہ سوچ کر میں بہت ہی خوش اور مطمئن ہوں کہ میرے اوّلین تاثرات قطعی درست نکلے، اورمیں نے اپنی محبت کے واسطے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا ہے جو صوریٔ و معنوی، دونوں جہات سے چاہے اور سراہے جانے کے قابل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ شاہ صاحب کا ایک ایسا غیر معمولی وصف بھی بیان کرنا چاہتا ہوں جو فقط پیمبروں، فلسفیوں اور حقیقی شعراء میں پایا جاتا ہے۔ (شعرا کے ساتھ ’’حقیقی‘‘ کی شرط میں نے اس غرض سے لگائی ہے کہ ہندوستان آکر، یہ عظیم لفظ اس قدر اوچھا ہوچکا ہے کہ یہاں ہر صاحبِ تخلص موزوں طبع تُک بند کو شاعر کا خطاب دے دیا جاتا ہے)
لیکن شاہ صاحب کے اس غیر معمولی وصف بیان کرنے سے پیش تر آپ کو کسی انگریزی فلسفی کا یہ قول سُنا دینا چاہتا ہوں کہ صدیوں کی فکری تربیت اور ذہنی تطہیر کے بعد، ہماری قوم کو شرافتِ نفس و نجابتِ برداشت کی یہ دولت حاصل ہوئی ہے کہ ہمارے مخالفین، ہمارے منھ پر، ہمارے مسلّمات کا مذاق اُڑاتے، اور ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ہم کو صلواتیں سُناتتے ہیں، تو ہم کو غصہ نہیں آتا، غصّہ کیسا، اُن کے طعن و تشنیع اور حرفِ دشنام کو سُن کر ہم مسکراتے ہیں۔ پیشانیوں پر بل نہیں پڑنے دیتے، اور معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ اُس وقت ہم اس بات پر غور کرنے لگتے ہیں کہ شاتم نے جن عیوب کو ہم سے وابستہ کیا ہے، آیا ہم میں وہ عیوب ہیں کہ نہیں اور جب ان عائد کردہ عُیوب میں سے کوئی عیب ہم اپنے میں موجود پاتے ہیں تو اس سے دست بردار ہونے کی دُھن میں لگ جاتے ہیں۔ بالکل یہی حال ہے شاہ صاحب کا۔ میں، ان کے منھ پر اُن کے مسلمات و عقائد پر چوٹیں کرتا اور ایسی نظمیں سُناتا ہوں جن کو عرفِ عام میں کافرانہ کہا جاتا ہے، لیکن ان کے ماتھے پر بَل نہیں پڑتے، بل پڑنا تو درکنار، وہ بڑی مٹھاس کے ساتھ مسکرانے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب مجھے اُن پر بڑا پیار آنے لگتا ہے۔ شاہ صاحب سے میری محبت کی ایک نفسیاتی وجہ اور بھی ہے۔ جانتا ہوں کہ اس وجہ کے بیان کرنے سے میرا ایک پول کھل جائے گا، مگر سچ بولنے میں، ایک نہیں، ہزار پول بھی کُھل جائیں تو مردانِ خدا کو پروا نہیں ہوتی۔ جناب والا، یوں تو مجھ کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ میں تفکر کا دیرینہ پرستار، اور توہم کا کھلا ہوا دشمن ہوں۔ لیکن میرے سینے میں شاعر کا کم بخت دل ہے جو زور زور سے دھڑکتا رہتا ہے۔
میری شخصیت شبیّر حسن خان اور جوشؔ ملیح آبادی کے درمیان بٹی ہوئی ہے، شبیر حسن خان حکمت کے پجاری ہیں، لیکن جوش ملیح آبادی افسانہ و افسوں کے دلدادہ ہیں۔ شبیر حسن خاں بوڑھے ہیں، جوش ملیح آبادی ابھی تک لونڈا ہے۔ شبیر حسن خان جب تک جاگتے رہتے ہیں، جوش ملیح آبادی، ڈر کے مارے ان کے سامنے نہیں آتا۔ لیکن بشری کمزوریوں کے باعث جب شبّیر حسن خان پر، اونگھ طاری ہوجاتی ہے تو جوش ملیح آبادی، دبے پاؤں آتا، اور میرے دامن کو ’’شاہدِ غیب‘‘ کے ’’جمال‘‘ کی طرف کھینچنے لگتا ہے۔ اُس لونڈے کے ساتھ، بڑی بڑی نورانی داڑھیوںن کے، فرشتے بھی آتے ہیں اور جادو کے جزیرے دکھانے لگتے ہیں، اور اس وقت خدا جانے وہ کون ہے جو بڑی سریلی آواز میں یہ گیت گانے لگتا ہے:
’’گوری انکَس چلو،مورے سنگ‘‘
اور شاید یہ میرا جوشؔ ملیح آبادی ہے، جس نے مجھ کو شاہ صاحب پر فریفتہ کررکھا ہے، اور یہاں تک کہ جب دس بارہ دن شاہ صاحب کی مفارقت پر گزر جاتے ہیں تو میرے دل میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اﷲ خیر کرے۔ دُھائی شبیر حسن خان کی!
ایک اور بات جو شاہ صاحب کی جانب میرے دل کو پکارتی ہے، وہ ان کی عالمانہ و شاعرانہ شخصیت ہے۔ شاہ صاحب کو مشرقی علوم پر بہت بڑی قدرت حاصل ہے اور ان کی شاعری میں گاہ گاہ ایسے مقامات آجاتے ہیں کہ دل پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
شاہ صاحب تصوف کے شاعر ہیں، میں تصوف سے کوسوں دور ہوں، لیکن ان کے بعض اشعار میں اس بلا کی جاذبیت پاتا ہوں کہ بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں جادو جو سر چڑھ کر بولے۔
تصوف کے دوش بدوش حضرت کے ہاں حُسنِ مجازی کی جھلکیاں بھی پائی جاتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ اُن کے سینے میں ایک چوٹ کھایا ہوا دل ہے جس کو انسانی جمال کی صیقل نے بنادیا ہے اور دراصل یہ حسنِ مجازی ہی ہے جو سیرت کو جمال، شاعری کو خدوخال اور نفس کو کمال عطا کرتا ہے۔
ان شوخ حَسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
کچھ اور بلا ہوتی ہے، وہ دل نہیں ہوتا
حضرت کا کلام شایع ہورہا ہے، اس موقع پر بے ساختہ یہ بات دل میں آئی، میرے نہیں، میرے کھلنڈرے جوش ملیح آبادی کے دل میں آئی کہ میں اس کلام کے حُسن قبول کے واسطے اُس بارگاہِ احدیت میں دعا کروں، جس نے شعرا کو ’’تلامیذ الرحمن‘‘ کا خطاب دیا ہے، لیکن اس بات کے دل میں آتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ حکمت کے پجاری اور تحقیق کے دلدادہ شبیر حسن کا چہرہ سُرخ ہوگیا، ماتھے پر، سیکڑوں شکنیں پڑگئیں کہا خبردار دعا نہ مانگنا، یاد ہے تجھ کو اپنے معنوی برادر بزرگ اسد اللہ خاں کا یہ شعر :
دعا قبول ہو یارب کہ عمر خضر دراز
یہ سنتے ہی میں ہوش میں آگیا۔۔۔ اس لیے دعا سے توبہ کرکے، اب میں یہ کہوں گا کہ میری دلی تمنا ہے کہ حضرت کا دیوان قبول خاطر کا تاج پہنے، اور لوگ اس کو سرآنکھوں پر جگہ دیں، اور اسی کے ساتھ ساتھ میری یہ آرزو بھی ہے کہ شاعر صاحب اور شاہ صاحب کی محبت نے یہ درویشی و رندی کا جو سنگم بنایاہے، اس کا پاٹ روز بروز بڑھے، اور بڑھتے بڑھتے بے کراں ہوجائے۔
مَرا، از تُست، ہر دم تازہ عشقے
تُرا، ہر ساعتے حُسنِ دگر باد
(مجھے ہر لمحے تجھ سے نیا عشق ہے
تجھے ہر گھڑی نیا حسن ملے)
جوش
[1] یہ شعر مثنوی مولوی میں ہے اور یوں ہے” شادباش اے عشق خوش سودائے ما۔۔۔۔۔ اے طبیب جملہ علت ہائے ما۔ یعنی خوش رہ اے عشق، ہمارے اچھے جنون۔ اے ہمارے سب بیماریوں کے طبیب
فارسی اشعار کا ترجمہ قارئین کی سہولت کے لئے اضافہ کیا گیا ہے۔
صبا، بلطف بگو آں غزالِ رعنا را
کہ سر بکوہ و بیابان تو دادۂ مارا
“اے صبا اس نازنین ہرن سے نرمی سے کہہ دے
کہ ہمارا سر کوہ و بیاباں کے حوالے تو نے ہی تو کیا ہے”
اُن کی آنکھوں میں رازیابی کا سرور ہے، میرے دل میں تجسُّس کا ناسور ہے، ان کو اپنے علم کا احساس ہے، میں اپنے جہل کا معترف اور رو رہا ہوں کہ : ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم ِ عوام ست۔ وہ گردن جھکاتے ہیں اور ’’جلوۂ یار‘‘ کو سامنے پاتے ہیں، میں ہر طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہوں کہ:
ساقیٔ مطرب و مے، جملہ مہیاست ولے
کیف بے یار میسّر نہ شود، یار کُجاست؟
(شراب، گوّیا،پھول سب مہیا ہیں
یار کے بغیر لطف نہیں، کہاں ہے یار)

وہ جب صبح کے گلابی نور میں آنکھیں اُٹھاتے ہیں، تو ’’شاہد غیب‘‘ کے جلوؤں کے پھولوں سے ان کی نظر کا دامن بھر جاتا ہے اور : ’’گُل چینِ بہارِ تو، زدامان گلہ دارد‘‘ کے ترانے چھڑ جاتے ہیں، اور میں نامُراد جب منھ اندھیرے جاگتا ہوں تو یہ شعر بے ساختہ زبان پر جاری ہوجاتا ہے:
شبِ تار است و رہِ وادیٔ ایمن درپیش
آتشِ طور کجا، وعدہ دیدار کجاست؟
(رات اندھیری ہے اور راہِ وادئ ایمن درپیش ہے
کہاں ہے آتشِ طور، ہے کہاں وعدہء دیدار)
اور جب، گُریز پا ستاروں پر نظر جماتا ہوں تو گریبان پھاڑ کر چلّاتا ہوں:
اے رات گئے کے غم گسارو، بولو
اے عالمِ بالا کے اشارو، بولو
اِس پردۂ رنگ و بو میں پوشیدہ ہے کون؟
بولو، اے ڈوبتے ستارو، بولو
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ میں اور ذہین شاہ میں کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے؟ اسی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ شاہ صاحب کا یہ ارشاد ہے کہ ’’نَفَسِ کُلّی‘‘ اور حقائقِ کائنات کا ادراک، وجدان، اور فقط وجدان سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وجدان ایک ایسی طاقت ہے، جو فقط فنونِ لطیفہ کی تخلیق و تزئین کے کام آتی ہے، تفتیش و تحقیق اس کا وظیفہ ہی نہیں۔ وہ ایک مقیّش کا پھندنا ہے۔ جس سے میدانِ جستجو میں پھاوڑے کا کام لیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس بنا پر میرا ایمان ہے کہ صرف تفکُّر و تدبّر ہے، جس کی چٹکی، لیلائے کائنات کے مکھڑے سے نقاب اٹھاتی ہے۔
شاہ صاحب کا تصوّف، ذرّوں میں بھی موتی دیکھ لیتا ہے اور میری فکر سچّے موتیوں پر بھی نگاہ جماتی ہے تو آنسوؤں میں تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ہم نے پھولوں کو چھوا، پل بھر میں، کانٹے بن گئے
اُس نے، کانٹوں پر قدم رکّھا، گلستاں کردیا
وہ ’’آہ‘‘ کے شیدائی ہیں، میں ’’نگاہ‘‘ کا۔۔۔۔اُن کا نعرہ ہے:
دُعائے صبح و آہِ شب، کلیدِ گَنجِ مقصود ست
بایں راہ و رَوش می رَو کہ بادل دار پیوندی
(گوہرِ مقصود کی کنجی دعائے صبح و آہِ شب میں ہے
انہی راہوں، روشو ں پر چلو کہ دلدار کا وصال نصیب ہو)
اور میں پُکار پُکار کر کہتا ہوں:
حاصل کار گہِ کون و مکاں، ایں ہمہ نیست
بادَہ پیش آر کہ اسبابِ جہاں ایں ہمہ نیست
(کون و مکاں کی اس کارگاہ کا حاصل یہی سب نہیں
شراب لا کہ اسبابِ جہاں یہی سب نہیں)
اُن کے اشراقی گنبد میں :’’السلام، اے عشق خوش سودائے ما‘‘(السلام اے عشق، ہمارے جنونِ خوش ”[1])، کے ترانے چھڑے ہوئے ہیں۔ اور میری کار گاہِ تامُّل سے،’’السّلام، اے عقل خوش ملجائے ما‘‘ (السلام اے عقل ہماری بہترین پناہ گاہ!) کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ، دل میں تجلّیات کا مشاہدہ کرکے فرماتے ہیں ’’ستارہ بدرخشید و ماہِ مجلس شد (ایک ستارہ چمکا اور ماہِ مجلس ہوگیا‘‘ اور میں خم خانہ ادراک میں گنگنا رہا ہوں کہ :
’’ما، در پیالہ، عکسِ رُخِ یار دیدہ ایم ‘‘ (ساغر میں ہم عکسِ رخِ یار کا دیدار کرتے ہیں)
وہ تصوف کی سہانی چاندنی میں مقاماتِ معنوی کا درس دے رہے ہیں، اور میں تجسس کی کڑی دھوپ میں کھڑا آواز دے رہا ہوں:
مصلحت نیست کہ از پردہ بُرون افتد راز
ورنہ در مجلس رندان، خبرے نیست کہ نیست
(راز کی پردہ کشائی خلافِ مصلحت ہے
ورنہ مجلسِ رنداں کسی خبر سے بے خبر نہیں)
ان دست و گریبان و متضاد حالات میں، ہمارے درمیان، آویزش کے بجائے ارتباط و اختلاط کا پیدا ہونا، اور اس کا، تھوڑے ہی دن کے بعد شدید محبت میں تبدیل ہوجانا ایک عجب معجزہ معلوم ہوتا ہے۔
جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم
میں، معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
ارباب نظر ہماری محبت کو دیکھتے ہیں تو بھَوچکّا سے ہو کر رہ جاتے ہیں، اور، گھبرا گھبرا کر، ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، صاحبو، خدارا بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے، کوئی اﷲ کا بندہ کچھ روشنی ڈالے اس خَرَقِ عادت پر کہ خانقاہ و خرابات کے ڈانڈے کیسے مل گئے۔ قُلقُلِ مینا اور نعرۂ ’’یاہو‘‘ میں کن بنیادوں پر سمجھوتا ہوگیا، اور کاشیٔ بادہ و کعبۂ سجّادہ نے، ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں کیوں کر ڈال دیں۔
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست ! (عقل حیرت سے جل گئی کہ یہ کیا بوالعجبی ہے!)
اب تو عالم یہ ہے کہ ہم دونوں، یعنی شاہ صاحب اور شاعر صاحب ایک دوسرے کی محبت میں بھی پڑ گئے ہیں، ایک طرف تو میرے برادران فکر، تیوری چڑھا چڑھا کر، مجھ کو طعن و تشنیع کا ہدف بنائے ہوئے ہیں، اور ان کی ناکیں لانبی ہو ہو کر مجھ سے، کہہ رہی ہیں کہ کدھر چلے پیرومرشد، کیا اپنی عقل کے ساتھ ساتھ، ہم سب کا بیڑا بھی غرق کردینے پر کمر باندھ لی ہے، اور سب کی آنکھیں، ایک دوسرے کی طرف اُٹھ اُٹھ کر، یوں پوچھ رہی ہیں۔
؎ چیست، یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیر ما؟
(اب کے اے یاران ِ طریقت،ہم کیا تدبیر کریں؟)
اور دوسری طرف، حضرت کے صاحب ذکر معتقتدین میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے، وہ مٹّھیوں میں اپنی اپنی داڑھیاں پکڑ پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے آقا و مولیٰ کو آخر ہوکیا گیا ہے کہ وہ جوشؔ کے سے بد عقیدہ و بے یقین ملحد کو اپنی مسند پر بٹھاتے ہیں اور کلیجے سے لگاتے ہیں۔
جس کا نتیجہ ہے کہ اب ہم دونوں، ایک دوسرے سے گا گا کر یہ کہہ رہے ہیں:
’’میں تو ہوگئی بدنام، سنوریا تورے لیے!‘‘
بات یہ ہے کہ میرے احباب اور حضرت کے معتقدین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو چاہتے کیوں ہیں۔ ہم پر تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ :
؎ ہرکسے، از ظنّ خود، شُد یارِ من
وزدرونم، کس نجُست اَسرارِ من
(ہر کوئی میرا عاشق ہونے کا دعویدا ر تو ہے مگر
میرا رازِ دروں میرے اسرار کا متلاشی کوئی نہیں)
اُن بے چاروں کا یہ خیال ہے کہ حضرت شاہ صاحب اور میرے مابین جو محبت پائی جاتی ہے وہ اس امر پر مبنی ہے کہ شاہ صاحب کے عشق نے، میری عقل کے سامنے، یا، میری عقل نے اُن کے عشق کے آگے سِپر ڈال دی ہے۔ اور اُس کے ساتھ ساتھ:
تم ظلم چھوڑ دیتے، ہم ترک آہ کرتے
کچھ تم، نباہ کرتے، کچھ ہم نباہ کرتے
پر کاربند ہوکر حضرت کے تیّقن اور اس خاک سار کے تَفَحُص کے درمیان، چپکے سے مصالحت کی کوئی، مروت آمیز، صورت نکل آئی ہے۔
اُن لوگوں سے کوئی، ببانگ دُھل یہ بات کہہ دے کہ نابابا اس نوع کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے آپس میں ذرّہ برابر بھی لین دین نہیں کیا ہے۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے اصول و عقائد پر پہاڑوں کی طرح، ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس تاریخ تک کوئی ایسا قرینہ، دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہا ہے کہ میں، خدا نخواستہ، ایقان کی طرف مُڑ جاؤں گا، اور حضرت جادۂ تشکک پر گام زَن ہوجائیں گے (اﷲ کرے گام زَن ہوجائیں) حضرت کا عشق مجھے پھسلا رہا ہے:
’’موری گلی آجا، ہو بالما‘‘
اور میری عقل، ٹھُنَک ٹھُنَک کر کہہ رہی ہے :
’’نجریوں سے بھردوں گی جی، چھونے نہ دوں گی شریر‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر شدید تخالُف، تباین اور تضاد کے باجود وہ کون سی طاقتور قدرِ مشترک ہے، جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کی محبت پر مجبور و مامور کردیا ہے۔ مجھ کو بابا ذہین شاہ کے دل کا حال معلوم نہیں، اس لیے قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ کو اس قدر کیوں چاہتے ہیں۔ اور وہ میری کون سی ادائے کفر ہے جو انھیں بھا گئی ہے۔ اس موقع پر ایک پرانی بات یاد آگئی، وہ سُن لیجیے، شاید اُس سے اس صورت حال پر کچھ روشنی پڑ سکے۔ ایک تھیں، خیرآباد کی، فیروزی بَجیا، اُن میں کسی قدر، سَنَک تھی، ایک دن وہ ملیح آباد آئیں اور اُمُ الشعرأ یعنی میری رفیقۂ حیات سے، بڑے استعجاب کے ساتھ کہنے لگیں بیٹا یہ بھَونرا خان اَذان کے بیچ میں میرا نام کیوں لیا کرتے ہیں۔ میری بیوی نے، مسکرا کر، ان سے کہا فیروزی بجیا کیسی باتیں کررہی ہو، اﷲ اﷲ کرو، ہم نے بھونرا خان کی اذان میں تمہارا نام کبھی سنا ہی نہیں، بولیں، ارے تم لڑکیوں کے تو کان ٹھپ ہوچکے ہیں۔ ابھی ابھی تو انھوں نے اذان دی تھی، اﷲُ اکبر اﷲُ اکبر، حَیّ علی الفلاح، فیروزی بَجیا تُوبہ، (بِضمّ ’’تا‘‘) میری بیوی نے کہا یہ بھونرا خان کو کیا لت لگ گئی ہے کہ عین اَذان کے بیچوں بیچ ’’فیروزی بجیا توبَہ‘‘ کہتے ہیں، یہ سُن کر انھوں نے کہا کہ وہ میرانام اذان کے بیچ میں اس لیے لیتے ہیں کہ میری کوئی ’’خوبو‘‘ (واو مجہول کے ساتھ) ان کو پسند آگئی ہے۔ سو اگر اس خاک سار سے کوئی دریافت کرے کہ شاہ صاحب تجھ کو چاہتے کیوں ہیں تو میں فیروزی بجیا کی طرح جواب دوں گا کہ حضرت کو میری کوئی ’’خوبو‘‘ پسند آگئی ہے۔
اس ’’خوبو‘‘ کی بات کو چھوڑ کر، میں اپنی ذات میں کوئی ایسا وصف نہیں پاتا کہ کوئی پیرِ خانقاہ، مجھ رندِ نامہ سیاہ سے محبت کرسکے۔
سوداؔ نے شاید اسی منزل میں یہ شعر کہا تھا:۔
سودا، جو ترا حال ہے، اُتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے، تُو نے اسے کس آن میں دیکھا
اب رہا یہ امر کہ پرستارِ عقل و بندۂ فکر ہونے کے باوجود، میں بابا ذہین شاہ سے کیوں محبت کرتا ہوں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے جس چیز نے، میرے دل کو ان کی طرف کھیچنا شروع کیا وہ ان کا چہرہ ہے۔ چہرہ، انسان کی کتابِ سیرت کی فہرستِ ابواب ومضامین اور اس کی تمام شخصیت کا ترجمان و مفسر ہوتا ہے۔
میں ان اندھوں کی بات نہیں کررہا ہوں، جن کو، ’’آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک تو چہرہ اور تلوار، دونوں یکساں ہوتے ہیں، لیکن ’’بصیرۃ المومنین‘‘ رکھنے والے ارباب نظر، جب کسی کے چہرے کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ان کے لمسِ نگاہ کی چبھن سے منظور کا چہرہ بولنے لگتا ہے۔
چہرے جھوٹ نہیں بولا کرتے، چند انے گنے جرائم پیشہ افراد کے، سدھے ہوئے دروغ گو چہروں کے علاوہ، تمام انسانوں کے چہرے، پچانویں فی صد، سچ اور سچ بولتے ہیں۔ اور، ایک آن میں، انسان کے تمام رذائل و فضائل کے دفتر کھول کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ تو بندہ پرور، جب پہلی بار میں ذہین شاہ کا چہرہ دیکھا تو اس نے میرا دل موہ لیا، ان کے چہرے نے مجھ سے کہا کہ میری یہ نورانیت، میری جوانی کا وہ جمال ہے، جو، ماہ و سال کی چھلنیوں سے گزر کے مجھ پر دمک رہا ہے۔ اور یہ صرف جوانی کے جمال ہی کی سہانی دمک نہیں، اس میں اس کے حسن کی معنوی جگمگاہٹ کا عنصر بھی شامل ہے، جس کا میں چہرہ ہوں۔ چہرے کے بعد زبان کی باری آتی ہے، زبان سے پتا چل جاتا ہے کہ متکلم کس خاندان اور کس طبقے کا فرد ہے، اور علم و فضل کے اعتبار سے کتنے پانی میں ہے۔ بعض اوقات چہرہ وزبان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کسی کا چہرہ شریف ہوتا ہے، زبان رذیل ہوتی ہے، اور کسی کی زبان شریف ہوتی ہے اور چہرہ رذیل ہوتا ہے۔ ہاں تو میں کہہ چکا ہوں کہ سب سے پہلے شاہ صاحب کے چہرے نے میرے دل پر اثر کیا، ایسے معنوی و صوری اعتبار سے، منّور و مرتب چہرے کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور اس کے بعد جب ان سے حرف و حکایت کی نوبت آئی، تو الفاظ کے رچاؤ، فقروں کے بہاؤ اور لہجے کے سبھاؤ نے یہ بات میرے دل پر نقش کردی کہ میں ایک ایسے غیر معمولی مقناطیسی انسان کے روبرو بیٹھا ہوا ہوں، جس کا چہرہ بھی عالی خاندان ہے اور زبان بھی نجیب الطرفین۔ حافظ شیرازی کا محبوب بظاہر نرم اور بباطن سخت تھا، اور اسی لیے اس نے منھ پیٹ کر کہا تھا:۔

چہ قیامت است جاناں کہ بعاشقان نمودی
رُخِ ہمچو ماہِ تاباں، دلے، ہمچو سنگِ خارا
(کون سی قیامت ہے جوتو نے اپنے چاہنے والوں پر نہ توڑی ہو
رُخ ماہِ تاباں جیسا اور دل سنگِ خارا سے سخت تر!)
لیکن میرے محبت کے رُخ اور دل میں بڑی ہم آہنگی ہے اور اسی لیے میں یہ کہہ رہا ہوں:۔
رُخے ہمچو ماہِ تاباں، دلے ہمچو موجِ کوثر
(رُخ جیسے ماہِ تاباں،دل مانندِ موجِ کوثر)
اور اب، جب کہ ہماری ملاقات پُرانی ہوکر، بے تکلّفی کے حدود میں داخل ہوچکی ہے، یہ سوچ کر میں بہت ہی خوش اور مطمئن ہوں کہ میرے اوّلین تاثرات قطعی درست نکلے، اورمیں نے اپنی محبت کے واسطے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا ہے جو صوریٔ و معنوی، دونوں جہات سے چاہے اور سراہے جانے کے قابل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ شاہ صاحب کا ایک ایسا غیر معمولی وصف بھی بیان کرنا چاہتا ہوں جو فقط پیمبروں، فلسفیوں اور حقیقی شعراء میں پایا جاتا ہے۔ (شعرا کے ساتھ ’’حقیقی‘‘ کی شرط میں نے اس غرض سے لگائی ہے کہ ہندوستان آکر، یہ عظیم لفظ اس قدر اوچھا ہوچکا ہے کہ یہاں ہر صاحبِ تخلص موزوں طبع تُک بند کو شاعر کا خطاب دے دیا جاتا ہے)
لیکن شاہ صاحب کے اس غیر معمولی وصف بیان کرنے سے پیش تر آپ کو کسی انگریزی فلسفی کا یہ قول سُنا دینا چاہتا ہوں کہ صدیوں کی فکری تربیت اور ذہنی تطہیر کے بعد، ہماری قوم کو شرافتِ نفس و نجابتِ برداشت کی یہ دولت حاصل ہوئی ہے کہ ہمارے مخالفین، ہمارے منھ پر، ہمارے مسلّمات کا مذاق اُڑاتے، اور ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ہم کو صلواتیں سُناتتے ہیں، تو ہم کو غصہ نہیں آتا، غصّہ کیسا، اُن کے طعن و تشنیع اور حرفِ دشنام کو سُن کر ہم مسکراتے ہیں۔ پیشانیوں پر بل نہیں پڑنے دیتے، اور معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ اُس وقت ہم اس بات پر غور کرنے لگتے ہیں کہ شاتم نے جن عیوب کو ہم سے وابستہ کیا ہے، آیا ہم میں وہ عیوب ہیں کہ نہیں اور جب ان عائد کردہ عُیوب میں سے کوئی عیب ہم اپنے میں موجود پاتے ہیں تو اس سے دست بردار ہونے کی دُھن میں لگ جاتے ہیں۔ بالکل یہی حال ہے شاہ صاحب کا۔ میں، ان کے منھ پر اُن کے مسلمات و عقائد پر چوٹیں کرتا اور ایسی نظمیں سُناتا ہوں جن کو عرفِ عام میں کافرانہ کہا جاتا ہے، لیکن ان کے ماتھے پر بَل نہیں پڑتے، بل پڑنا تو درکنار، وہ بڑی مٹھاس کے ساتھ مسکرانے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب مجھے اُن پر بڑا پیار آنے لگتا ہے۔ شاہ صاحب سے میری محبت کی ایک نفسیاتی وجہ اور بھی ہے۔ جانتا ہوں کہ اس وجہ کے بیان کرنے سے میرا ایک پول کھل جائے گا، مگر سچ بولنے میں، ایک نہیں، ہزار پول بھی کُھل جائیں تو مردانِ خدا کو پروا نہیں ہوتی۔ جناب والا، یوں تو مجھ کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ میں تفکر کا دیرینہ پرستار، اور توہم کا کھلا ہوا دشمن ہوں۔ لیکن میرے سینے میں شاعر کا کم بخت دل ہے جو زور زور سے دھڑکتا رہتا ہے۔
میری شخصیت شبیّر حسن خان اور جوشؔ ملیح آبادی کے درمیان بٹی ہوئی ہے، شبیر حسن خان حکمت کے پجاری ہیں، لیکن جوش ملیح آبادی افسانہ و افسوں کے دلدادہ ہیں۔ شبیر حسن خاں بوڑھے ہیں، جوش ملیح آبادی ابھی تک لونڈا ہے۔ شبیر حسن خان جب تک جاگتے رہتے ہیں، جوش ملیح آبادی، ڈر کے مارے ان کے سامنے نہیں آتا۔ لیکن بشری کمزوریوں کے باعث جب شبّیر حسن خان پر، اونگھ طاری ہوجاتی ہے تو جوش ملیح آبادی، دبے پاؤں آتا، اور میرے دامن کو ’’شاہدِ غیب‘‘ کے ’’جمال‘‘ کی طرف کھینچنے لگتا ہے۔ اُس لونڈے کے ساتھ، بڑی بڑی نورانی داڑھیوںن کے، فرشتے بھی آتے ہیں اور جادو کے جزیرے دکھانے لگتے ہیں، اور اس وقت خدا جانے وہ کون ہے جو بڑی سریلی آواز میں یہ گیت گانے لگتا ہے:
’’گوری انکَس چلو،مورے سنگ‘‘
اور شاید یہ میرا جوشؔ ملیح آبادی ہے، جس نے مجھ کو شاہ صاحب پر فریفتہ کررکھا ہے، اور یہاں تک کہ جب دس بارہ دن شاہ صاحب کی مفارقت پر گزر جاتے ہیں تو میرے دل میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اﷲ خیر کرے۔ دُھائی شبیر حسن خان کی!
ایک اور بات جو شاہ صاحب کی جانب میرے دل کو پکارتی ہے، وہ ان کی عالمانہ و شاعرانہ شخصیت ہے۔ شاہ صاحب کو مشرقی علوم پر بہت بڑی قدرت حاصل ہے اور ان کی شاعری میں گاہ گاہ ایسے مقامات آجاتے ہیں کہ دل پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
شاہ صاحب تصوف کے شاعر ہیں، میں تصوف سے کوسوں دور ہوں، لیکن ان کے بعض اشعار میں اس بلا کی جاذبیت پاتا ہوں کہ بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں جادو جو سر چڑھ کر بولے۔
تصوف کے دوش بدوش حضرت کے ہاں حُسنِ مجازی کی جھلکیاں بھی پائی جاتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ اُن کے سینے میں ایک چوٹ کھایا ہوا دل ہے جس کو انسانی جمال کی صیقل نے بنادیا ہے اور دراصل یہ حسنِ مجازی ہی ہے جو سیرت کو جمال، شاعری کو خدوخال اور نفس کو کمال عطا کرتا ہے۔
ان شوخ حَسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
کچھ اور بلا ہوتی ہے، وہ دل نہیں ہوتا
حضرت کا کلام شایع ہورہا ہے، اس موقع پر بے ساختہ یہ بات دل میں آئی، میرے نہیں، میرے کھلنڈرے جوش ملیح آبادی کے دل میں آئی کہ میں اس کلام کے حُسن قبول کے واسطے اُس بارگاہِ احدیت میں دعا کروں، جس نے شعرا کو ’’تلامیذ الرحمن‘‘ کا خطاب دیا ہے، لیکن اس بات کے دل میں آتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ حکمت کے پجاری اور تحقیق کے دلدادہ شبیر حسن کا چہرہ سُرخ ہوگیا، ماتھے پر، سیکڑوں شکنیں پڑگئیں کہا خبردار دعا نہ مانگنا، یاد ہے تجھ کو اپنے معنوی برادر بزرگ اسد اللہ خاں کا یہ شعر :
دعا قبول ہو یارب کہ عمر خضر دراز
یہ سنتے ہی میں ہوش میں آگیا۔۔۔ اس لیے دعا سے توبہ کرکے، اب میں یہ کہوں گا کہ میری دلی تمنا ہے کہ حضرت کا دیوان قبول خاطر کا تاج پہنے، اور لوگ اس کو سرآنکھوں پر جگہ دیں، اور اسی کے ساتھ ساتھ میری یہ آرزو بھی ہے کہ شاعر صاحب اور شاہ صاحب کی محبت نے یہ درویشی و رندی کا جو سنگم بنایاہے، اس کا پاٹ روز بروز بڑھے، اور بڑھتے بڑھتے بے کراں ہوجائے۔
مَرا، از تُست، ہر دم تازہ عشقے
تُرا، ہر ساعتے حُسنِ دگر باد
(مجھے ہر لمحے تجھ سے نیا عشق ہے
تجھے ہر گھڑی نیا حسن ملے)
جوش
[1] یہ شعر مثنوی مولوی میں ہے اور یوں ہے” شادباش اے عشق خوش سودائے ما۔۔۔۔۔ اے طبیب جملہ علت ہائے ما۔ یعنی خوش رہ اے عشق، ہمارے اچھے جنون۔ اے ہمارے سب بیماریوں کے طبیب
فارسی اشعار کا ترجمہ قارئین کی سہولت کے لئے اضافہ کیا گیا ہے۔