بابا اشفاق احمد

نیلم

محفلین
ہماری زندگی میں اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ معاشرتی زندگی میں آپ کی کسی ایسے مقام پر بے عزتی ہو جاتی ہے کہ آپ کھڑے کھڑے موم بتی کی طرح پگھل کر خود اپنے قدموں میں گر جاتے ہیں ۔
انسان اکثر دوسروں کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے ایسے فقرے مجتمع کر کے رکھتا ہے کہ وہ اس فقرے کے ذریعے وار کرے اور دوسرے پر حملہ آور ہو اور پھر اُن کی زندگی اور اُن کا جینا محال کر دے ۔
یہ بھی تکبر کی ایک قسم ہوتی ہے ۔ ہمارے مذہب میں یہ روایت بہت کم تھی ۔ اگر تھی تو ہمارے پیغمبر محمد ﷺ اپنی تعلیمات کے ذریعے لوگوں کو اس فرعونیت سے نکالتے رہتے تھے ، جس کا گناہ شداد ، فرعون ، نمرود اور ہامان نے کیا تھا ۔
از بابا اشفاق احمد مرحوم
زاویہ
 

زبیر مرزا

محفلین
گورنمنٹ کالج کی طرف مراجعت کے کئی راستے ہیں اور سارے راستے اپنے اپنے رخ پر چل کر اس منزل تک پہنچتے ہیں جو ہر ” راوین ” کے من کا مندر ہے ۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے سب سے مشہور، شیر شاہی اور جرنیلی سڑک تو برتری، تحفظ، منفعت اور پاور کی سڑک ہے جس پر جم غفیر رواں ہے ۔ لیکن کچھ راستے جذباتی وادیوں سے ہو کر بھی اس منزل طرف جاتے ہیں۔
ہم دونوں کا گورنمنٹ کالج سے بندھن ایک بہت کمزور اور کچے سے دھا گے سے بندھا ہے ۔ ایک گم نام اور بے نام پگڈنڈی ہے جو خود رو جھاڑیوں اور گھنگیرلے رستوں سے الجھ الجھ کر بڑی مشکل سے من مندر تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے تب تک اٹھنے کو جی نہیں چاہتا جب تک کہ کوئی وہاں سے اٹھا نہ دے ! نکال نہ دے !!
بانو قدسیہ نے اور میں نے گورنمنٹ کالج کو کبھی بھی ایک درس گاہ نہیں سمجھا ۔ نہ کبھی ہم اس کی علمی روایت سے متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے استادوں کے تجربئہ علمی سے مرعوب ہوئے ۔ اس کی قدامت، اس کی عمارت اور اس کی شخصی وجاہت بھی ہمیں مسحور نہیں کر سکی ____ اس سے کبھی کچھ لیا نہیں ، مانگا نہیں ، دیا نہیں ، دلوایا نہیں ۔ پھر بھی اس کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق قائم ہے جسے ہم آج تک کوئی نام نہیں دے سکے ۔ دراصل ہم دونوں گورنمنٹ کالج کو درس گاہ نہیں مانتے اس میں” سین ” کے حرف کو وافر سمجھتے ہیں -
(بابا کے افسانے چاند کا سفر سے اقتباس)
 

زبیر مرزا

محفلین
مجھے معلوم ہے آپ کو سکون اور مسرت کی تلاش ہے – لیکن سکون تلاش سے کس طرح مل سکتا ہے – سکون اور آسانی تو صرف ان کو مل سکتی ہے جو آسانیاں تقسیم کرتے ہیں ، جو مسرتیں بکھیرتے پھرتے ہیں – اگر آپ کو سکون کی تلاش ہے تو لوگوں میں سکون تقسیم کرو ، تمھارے بورے بھرنے لگیں گے ………..طلب بند کرو دو ………!
یہ دولت صرف دینے سے بڑھتی ہے ، بکھیرتے پھرنے سے اس میں اضافہ ہوتا ہے – الله سائیں کے طریق نرالے ہیں – سکون کے دروازے پر بھکاری کی طرح کبھی نہ جانا ، بادشاہ کی طرح جانا ، جھومتے جھامتے ، دیتے بکھیرتے ……………. کیا تم کو معلوم نہیں کہ بھکاریوں پر ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے ، اور بھکاری کون ہوتا ہے – وہ جو مانگے ، جو صدا دے ، تقاضا کرے اور شہنشاہ کون ہوتا ہے جو دے عطا کرے – لٹاتا جائے پس جس راہ سے بھی گزرو بادشاہوں کی طرح گزرو شہنشاہوں کی طرح گزرو ………. دیتے جاؤ دیتے جاؤ – غرض و غایت کے بغیر – شرط شرائط کے بغیر -
( زاویہ ٣ محبّت کی حقیقت)
 

زبیر مرزا

محفلین
میری ماں کے زمانے میں عورت محبت کے میدان میں سب سے آگے ہوتی تھی اورجب انعام تقسیم ہونے کا وقت آتا تو غائب ہوجاتی-
اس کو مکٹ سجا کے ، سرمہ کاجل لگا کے مہمان خصوصی بننے کا طریقہ نہیں آتا تھا- ایسے موقعوں پر وہ نظرسے اوجھل ہوکر ایسے
اوہلے میں چھپ جاتی تھی کہ مدتوں اس کے اثرآثارکا پتہ تک نہ چلتا- یہ مہارت شاید اس نے پردہ نشینی سے حاصل کی تھی- بڑے سے بڑا
کام کرنے کے بعد ہیوئین کی سٹیج پرآنے سے کتراتی تھی- اس زمانے عورت کا روپ پری کا ساتھا- جب کوئی نہ ہوتا باغ لگا کر، پھول کھلاکر
تخت بچھا کر اور پکوان سجا کے غائب ہوجاتی تھی اور کہیں دور چُھپ کر نوعِ انسانی کو محفلِ انبساط سے لُطف اندوز ہوتا دیکھ کر خوش ہوتی-
(بابا کی تحریر اماں سردار بیگم سے اقتباس)
اماں سرداربیگم باباکی ایک منفرداورلاجواب تحریر ہے جو انھوں نے اپنی والدہ کے لیے
لکھی ہے - مجھے یہ تحریر بے حد پسند ہے - یہ ان کے افسانوں کے مجموعے
صبحانے فسانے میں شامل ہے - کسی وقت فرصت ملی تو اسے مکمل ٹیکسٹ میں لکھ کے
پیش کروں گا -
 

زبیر مرزا

محفلین
اولاد کے بارے میں میری ماں کا رویہ بلکل دیہاتی ماؤں جیسا تھا- وہ جب بھی اپنے بچوں کی بھلائی کا سوچتیں ، سب سے پہلے
کُل دنیا کی خیرمانگتیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کےبعد دنیا بھرکے بچوں کی اوران کے طفیل اپنے بچوں کی صحت وسلامتی اوردین ودنیا کی
سرخروئی اورکامیابی کی طلبگار ہوتیں-
(اماں سردار بیگم سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
انسان بڑی دلچسپ مخلوق ہے ۔ یہ جانور کو مصیبت میں دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا لیکن انسان کو مصیبت میں مبتلا کر کے خوش ہوتا ہے ۔ یہ پتھر کے بتوں تلے ریشم اور بانات کی چادریں بچھا کر ان کی پوجا کرتا ہے ۔ لیکن انسان کے دل کو ناخنوں سے کھروچ کے رستا ہوا خون چاٹتا ہے ۔ انسان اپنی کار کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کا ماتھا پونچھتا اور اس کے پہلو چمکاتا ہے اور میلے کچیلے آدمی کو دھکے دے کر اس لیے پرے گرا دیتا ہے کہ کہیں ہاتھ لگا کر وہ اس مشین کا ماتھا نہ دھندلا کر دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان پتھروں سے مشینوں سے جانوروں سے پیار کر سکتا ہے انسانوں سے نہیں ۔
(بابا اشفاق احمد مرحوم)
 
Top