بائیکاٹ کا فیصلہ - قاضی حسین احمد۔

غازی عثمان

محفلین
بائیکاٹ کا فیصلہ - قاضی حسین احمد۔

الیکشن میں حصہ لیا جائے یا اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس موضوع پر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ میں طویل بحثیں ہوئیں۔ متحدہ مجلس عمل کی جرنل کونسل اور سربراہی کونسل میں اور آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے اجلاسوں میں کئی دن تک یہ موضوع زیر بحث رہا اور بالآخر جماعت اسلامی اور چند دوسری جماعتوں نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جبکہ مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام ( ف ) اور ان کے ساتھ کچھ دوسری جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ قبل ازیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر کے ان جماعتوں کو بائیکاٹ نہ کرنے کا جواز مہیا کیا۔
جماعت اسلامی کیلئے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے خود میری یہ حالت تھی کہ ذہن میں ایک لہر بائیکاٹ کے حق میں جبکہ دوسری اس کےخلاف آتی تھی۔ ایک ذہنی کشمکش تھی جس میں ہم سب ساتھی مبتلا تھے۔ اس اضطراب کا سبب یہ تھا کہ ہمارے مخلص کارکنوں نے طویل عرصے کی محنت سے ملک کے مختلف حصوں میں بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور پشت در پشت غریب لوگوں پر مسلط خاندانوں کے چنگل سے بعض حلقوں کو نکال کر وہاں اسلامی تحریک کی جڑیں مضبوط کی تھیں اور انہیں خدشہ تھا کہ ایک انتخاب سے غیر حاضر رہنے کے سبب یہ علاقے پھر سے انہی روائتی سیاستدانوں کی گرفت میں چلے جائیں گے اور اپنی محنت سے جو گروہ انہوں نے ان علاقوں میں منظم کیا ہے پھر سے منتشر ہوجائے گا اور انہیں دوبارہ اسلامی تحریک کے گرد اکٹھا کرنا مشکل ہوگا۔ اس عرصے میں ملک کی بدعنوان انتظامیہ معاشرے کے بدعنوان عناصر سے مل کر کھل کھیلے گی اور ہم ایک احساس محرومی کے ساتھ پھر کئی سال تک محض تماشہ دیکھنے کے سوا کچھ نہ کرسکیں گے۔ اختیارات میں جو تھوڑا سا حصہ ہمیں ملا ہے اور ایوانوں میں جو تھوڑی بہت رسائی حاصل ہوئی ہے اس سے بھی ہم محروم ہوجائیں گے اور معاشرے کی اصلاح کیلئے جو تھوڑا بہت اثرورسوخ حاصل ہوا ہے اس میں اضافے کے بجائے ہم اس سے دستبردار ہونے کا راستہ اختیار کررہے ہیں۔
اس سلسلے میں حکمرانوں نے بھی بھرپور لابنگ کی، یہاں تک کہ ترکی کے صدر جناب عبداللہ گل بھی یہی بات سمجھانے کیلئے پہچ گئے اور خود اپنی مثال پیش کی کہ مختلف اشتعال انگیزیوں کے باوجود سسٹم کے اندر رہے اور بالآخر صدارت اور وزارت عظمٰی کے منصب تک پہچ گئے۔ ہمارے وہ مخلص کارکن جو ایسے حلقوں اور ایسے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جو طویل عرصے سے جماعت اسلامی کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں، مضطرب تھے کہ وہ مفت میں اپنے حلقوں کی نمائندگی سے دستبردار ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر دیر، چترال، بونیر، سوات اور مالاکنڈ ایجنسی وہ علاقے ہیں جہاں تحریک اسلامی کی مضبوط بنیادیں ہیں اور یہاں کی نمائندگی کرنے کا فخر ہمیشہ جماعت اسلامی کو حاصل رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے حصہ نہ لینے کے نتیجے میں ان لوگوں کو موقع ملے گا جو ہمیشہ جماعت اسلامی کو انتخابی میدان میں شکست دینے کیلئے متحدہ محاذ بناتے رہے ہیں۔ اب باآسانی یہ لوگ اس خالی گھر میں براجمان ہوجائیں گے۔ فارسی کا قول ہے کہ“ خانہ خالی را دیو می گیرد “ ( خالی گھر پر دیو قبضہ کر لیتا ہے )۔
بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں جماعت اسلامی کے امیدواروں نے روایتی پیشہ ور سیاستدانوں کو پچھلے انتخابات میں شکست دی اور اپنی خدمت اور دیانت کی وجہ سے ان علاقوں میں اپنے لئے مستقل جگہ پیدا کی۔ ان علاقوں میں اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، نوشہرہ، صوابی، مردان وغیرہ کے علاقے شامل ہیں جہاں طویل عرصے کی اجارہ داریاں توڑ کر ہمارے مخلص کارکنوں نے مستقل حیثیت پیدا کی ہے۔ انہیں خدشہ تھا کہ یہ علاقے پھر انہی پیشہ ور لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کراچی اور پنجاب میں بہت سی ایسی سیٹیں ہیں جو جماعت کے پاس آسکتی تھیں۔
ایک طرف یہ زمینی صورت حال تھی اور دوسری طرف اصول تھے۔ آمر حکمرانوں کو جب خدشہ لاحق ہوا کہ اقتدار ان کے ہاتھوں سے کھسک رہا ہے، زمین ان کے پاؤں کے نیچے سے پھسلتی جارہی ہے اور ملک میں عدالتوں اور قانون کہ بالادستی کا دور شروع ہوسکتا ہے جو استحصالی طبقے کے زوال پر منتج ہوگا تو انہوں نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے “ آخری مکا “ چلایا۔ ایمرجنسی پلس کے نام سے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو معطل کردیا، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو پی سی او یعنی عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھانے کا حکم دیا۔ لیکن ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے آئین سے بے وفائی کرنے سے انکار کردیا اور آئین کی حفاظت کے عہد پر ڈٹ گئے۔ وکلاء برادری نے ان کا بھرپور ساتھ دینے کا عہد کیا۔ سول سوسائٹی، طلبہ اور ملک کے باشعور طبقات بھی اس جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ میڈیا نے بھی عوام میں بیداری پیدا کی اور انہیں کھرے کھوٹے کا شعور دیا، جس کی وجہ سے اسے پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن آزمائش میں پڑگئے۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں سے ملک کا دانشور طبقہ، وکلاء، طلبہ اور نوجوان پوچھتے ہیں کہ امریکہ کی بچھائی ہوئی بساط کے مطابق آمر مطلق کا ساتھا دیتی ہیں یا اللہ پر بھروسہ کر کے ان ججوں کا ساتھ دیتی ہیں جنہوں نے فرد واحد کا ملازم بننے سے انکار کیا اور آئین کی بالادستی اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ڈٹ گئے۔
ڈھونگ اور فراڈ انتخابات میں شرکت کے نتیجے میں یہ جعلی نظام مزید قوت حاصل کرے گا۔ اپوزیشن کی بعض سیاسی جماعتیں اس خام خیالی میں مبتلاء ہیں کہ وہ انتخابات کو عوامی ریفرنڈم میں تبدیل کرکے اتنی اکثریت کے ساتھ اسمبلیوں میں پہچ جائیں گے کہ فرد واحد کا یہ کھیل ناکام ہوجائے حالانکہ انتخابات کے نتیجے کا فیصلہ عوام نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے جہاں مطلوبہ نتائج پہلے سے تیار ہیں۔ سیٹوں کی بندر بانٹ کا جو فارمولا طے کیا گیا ہے، وہ اخبارات کی زینت بن چکا ہے۔ ووٹر لسٹیں اپنی مرضی کے مطابق تیار کی گئی ہیں، پولنگ اسکیم ان کی مرضی کے مطابق تیار ہوئی ہے۔ نظروں سے اوجھل پولنگ اسٹیشن ( Ghost Poling Station ) کا تو سیاسی کارکن کو پتہ ہی نہیں چل سکتا۔ اور پچھلے بلدیاتی انتخابات میں تو یہ بھی تجربہ ہوا ہے کہ اگر تمام حربے ناکام ہوجاتے ہیں تو اتخابی عملہ نتیجے میں اپنے ہاتھ سے ردوبدل کر دیتاہے اور امیدوار بےچارے کو عذرداری کے ایک طویل اور نہ ختم ہونے والے چکر میں پھانس لیا جاتا ہے۔ بددیانتی پر مبنی اس پورے عمل کے خلاف اپیل سننے کا حق ان اداروں کو ہے جنہوں نے چیف آف اسٹاف کے غیر آئینی عمل کو یہ کہہ کر جواز عطا فرمایا کہ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ ترکی کے صدر کو میں نے یہی کہا کہ ترکی میں کم از کم انتخابی عمل تو سالم تھا اور سیاسی حکومتوں کو فوجی احکام کے تحت ختم کرنے کے باوجود عوام کی مرضی کو بالادستی اس لئے حاصل رہی کہ انتخابات کا سسٹم بدعنوانی سے پاک تھا۔ پاکستان میں مصر اور شام کی طرح کے انتخابات کروانے کی بنیاد ڈال دی گئی ہے جس میں نتیجہ حکمرانوں کی مرضی کے مطابق نکلتا ہے چاہے عوام کی رائے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
فرض کیجیئے کہ ایسے انتخابات میں ایک تعداد اپوزیشن جماعتوں کی اسمبلیوں میں پہچ جائے تو سب سے پہلا سوال یہ اٹھے گا کہ 3 نومبر کے اقدام کا کیا ہو جس میں چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے 60 سے زیادہ جج فارغ کر دئیے گئے اور مرضی کے مطابق جج بھرتی کئے گئے، بعض قوانین اور آئین میں من پسند ترامیم کی گئیں، میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پیمرا آرڈی نینس اور سیاسی مخالفین کو دبانے کےلیےآرمی ایکٹ میں ترامیم کی گئیں۔اوراگران تمام اقدامات کو سپریم کورٹ کے ذریعے آئین کی حصہ بنادیا گیا تو کیا اسی آئین کے تحت حلف اتھانا ہے یا پھر طویل عرصے تک ڈیسک بجا کر نو پی۔سی۔او کا راگ الاپنا ہے اور بالآخر سترھویں ترمیمی بل کی طرح کی ایک ترمیم پر دستخط کرنے ہیں؟ کیونکہ فریاد کا واحد ادارہ سپریم کورٹ بھی برباد کردیا گیا ہے۔اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں نے پہلے ہی سارے غیر آئینی عمل کو جائز قرار دے رکھا ہے۔ایسی ہنگ پارلیمنٹ ( Hung Parliament ) بنانے کے پورے انتظام کردئیے گئے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کو مل کر بھی اکثریت حاصل نہ ہوسکے گی اور وہی جماعتیں حکومت کرینگی جو امریکی مرضی کے تابع ہوکر چلنے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کو ایندھن بنائے رکھنے پر تیار ہوں۔ایسی حالت میں ایمان و ضمیر کا سودا کرنے والے لوگ ہی اسمبلیوں کی ممبری پر قناعت کرسکتے ہیں۔اگر کسی کو مجبوری کی یہ حالت تسلیم نہ ہو اور سرکاری اداروں کے تحت اور امریکی مرضی کے مطابق کام کرنے پر آمادگی نہ ہو تو اس وقت بھی تحریک چلانے اور عوام کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔ اگر بالآخر یہی کرنا ہے تو پھر حکومت کے پھیلائے ہوئے اس انتخابی جال میں پھنسنے کی کیا ضرورت ہے۔
آٹھ جنوری کے انتخابات کے بعد اس پورے ڈرامے کی حقیقت سامنے آجائے گی۔ اگر پیپلز پارٹی کے وعدے کے مطابق اسمبلی کی سیٹوں اور اقتدار میں اپنا حصہ ملتا ہے تو وہ استعماری نقشے کے مطابق اپنا رول ادا کرنے پر تیار ہوگی اور امریکہ کی خواہش کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کریگی۔اور محترمہ بینظیر بھٹو کو پرویز مشرف کی طرح کا پروٹوکول اور حفاظت کا انتظام میسر ہوگا۔اور اگر انہیں اقتدار میں شرکت کا مطلوبہ حصہ نہیں ملے گا تووہ ٩ جنوری کو انتخابات میں جھرلو کا الزام لگا کر چارٹر آف ڈیمانڈ کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت سنبھالنے کی کوشش کریں گی تاکہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں امریکی مرضی کے مطابق ہوں۔
ہم ٩ جنوری تک انتظار کریں گے کہ اگر مسلم لیگ(ن)اورمولانافضل الرحمن صاحب اس کے بعد کے حقائق جاننے کے بعد ایم ایم اے اور اے پی ڈی ایم کی صفوں میں واپس آجائیں تو ہم قوم کے بڑے اور دیر پا مقصد کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں۔اس عرصے میں ہم تلخیاں بڑھانے کے بجائے ہم صبر سے کام لیں گے۔ہماری تنہائی کی باتیں کرنے والے اطمینان رکھیں کیونکہ ہمیں یقین ہے ہم تنہا نہیں ہیں،حق ہمارے ساتھ ہےاور عوامی بیداری کے اس دور میں حقائق چھپے نہیں رہ سکتے۔بین الاقوامی رائے عامہ معلوم کرنے والے ادارے گیلپ کے مطابق پاکستان کی ٥٦ فیصد عوام ان الیکشن کے بائیکاٹ کے حق میں ہیں۔وکلا،میڈیا،طلبہ اورملک کےمظلوم عوام کے ساتھ مل کر ہماری یہ تحریک جاری رہےگی اور ہم ڈھونگ انتخابات کے بائیکاٹ کو مزید مؤثر بنائیں گے اور ایک ایسی فضا پیدا کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے جس میں آئین اپنی اصل صورت میں بحال ہو۔اسلام،جمہوریت،وفاقیت یعنی صوبائی خودمختاری اور عوامی خوشحالی جیسے آئین کے چار بنیادی اصولوں کو تسلیم کیا جائے۔با ضمیر ججوں کو بحال کرکے جعلی عدالتوں سے قوم کی گردن چھڑائی جائے۔قومی اتفاق رائے کی ایک عبوری حکومت قائم کی جائے اور اس کے زیراہتمام ایک ایسا الیکشن کمیشن قائم کیا جائے جس کی غیر جانب داری اور بااختیار ہونے پر سب کو اعتماد ہو۔انتخابات میں ایجنسیوں کا رول مکمل طور پر ختم کیا جائے اور صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرنے کے سارے تقاضے پورے ہوجائیں۔ہمیں یقین ہے کہ مخلصانہ جدوجہد کے نتیجے میں ہم انشاءاللہ قوم کو ایک روشن مستقبل سے ہم آغوش کرسکیں گے۔ہماری جدوجہد ملک اور قوم کے استحکام اوراس کے روشن مستقبل کی جدوجہد ہےاس کیلئے ہم وقتی طور پر الیکشن کا بائیکاٹ کرکے چند سیٹوں اور چند حلقوں کی قربانی دے سکتے ہیں۔عوام تک یہ پیغام پہنچانا کے جعلی الیکشن کا بائیکاٹ کریں اور اعلی مقاصد کی خاطر منظم جدوجہدکیلئے ہماری صفوں میں شامل ہوجائیں،تمام مخلص سیاسی کارکنوں کا بنیادی فرض ہے۔
اللہ رب العالمین کا اٹل قانون ہے۔“بلاشبہ تنگی کے بعد آسانی آتی ہے۔آسانی آنے والی ہے بلاشبہ یقینا تنگی کے بعد“۔

بحوالہ ، امت، جسارت، جنگ
 

شمشاد

لائبریرین
مندرجہ بالا مواد بھی غالبا بی بی اردو سے نقل کیا گیا ہے۔ اگر یہی بات ہے تو برائے مہربانی اس کو حذف کر دیں۔
 

غازی عثمان

محفلین
مندرجہ بالا مضمون بی بی سی سے نقل نہیں کیا گیا،، بلکہ امیر جماعت اسلامی کا یہ مضمون ملکی اخبارات میں چھپا تھا وہاں سے لیا گیا ہے،،
ویسے شمشاد بھائی کیا بی بی سی والوں سے جھگڑا ہو گیا ہے۔؟؟؟؟
میں کل پرسوں ہی تو بل گیٹس کا ایک مضمون بی بی سی پر پڑھا تھا اور وہی مضمون بطور تھریڈ محفل پر پوسٹ تھا؟
 

شمشاد

لائبریرین
بل گیٹس کا جو مضمون یہاں پڑھا تھا، اسے دوبارہ دیکھیں کہ کس طرح اس کا ربط دیا گیا ہے۔

آپ کو بھی چاہیے تھا کہ ماخذ کا ربط دے دیتے۔
 
Top