اے کاش کہ پہلے بار میں درست ہو جئئے، آپ کی توجہ کے لیے آستاد محترم

یار سب ہم نوا نہیں ہوتے
بازگشت کی صدا نہیں ہوتے

بولتے سب وفا مگر یارو
بے حیا با وفا نہیں ہوتے

زندگی قرض ہے اگر ہمدم
قرض سارے ادا نہیں ہوتے

جو ملے راستے کی گلیوں میں
وہ سبھی آشنا نہیں ہوتے

سنگ سے تم تراش لیتے ہو
مگر پتھر خدا نہیں ہوتے

چونکتا ہے سبھی آوازوں پر
حرف سارے ندا نہیں ہوتے

گو محبت ہماری کیسی ہو
کیا بھروسہ جدا نہیں ہوتے

یوں میری بات کو مگر اظہر
جس نے سمجھا خفا نہیں ہوتے
 

الف عین

لائبریرین
درج ذیل مصرعے بحر میں درست نہیں ہیں۔
بازگشت کی صدا نہیں ہوتے۔۔ باز گش بحر میں آتا ہے،

مگر پتھر خدا نہیں ہوتے۔۔۔ ’مگر‘ بر وزن فعل آتا ہے، لیکن یہ درست بر وزن فعو ہے، یا اس بحر (فاعلاتن مفاعلن فعلن، کا دیکھیں تو ’فاع‘

چونکتا ہے سبھی آوازوں پر ۔۔۔۔ ’اوازوں‘ وزن میں آتا ہے۔ یہاں ’صداؤں‘ کر دیں تو وزن درست ہو جاتا ہے۔
یہ پھر لکھ دوں کہ یہ محض تقطیع کے حساب سے کہہ رہا ہوں، زبان و بیان اور معانی کے لحاظ سے خاموش ہوں۔
 
آستادِ محترم،
شعر کہنا سیکھ لیا تو انشااللہ معنیٰ اور مفاہیم بھی درست ہوتے چلے جاہیں گے، ابھی اردو زبان پر عبور کی کوشش کر رہا ہوں
والسلام
اظہر


یار سب ہم نوا نہیں ہوتے
درد کی سب دوا نہیں ہوتے

رنگ ہی رنگ ہیں یہاں لیکن
رنگ سب خوشنما نہیں ہوتے

صدق ہو گر ہماری باتوں میں
سچے جذبے فنا نہیں ہوتے

بولتے سب وفا مگر یارو
بے حیا با وفا نہیں ہوتے

زندگی قرض ہے اگر ہمدم
قرض سارے ادا نہیں ہوتے

جو ملے راستے کی گلیوں میں
وہ سبھی آشنا نہیں ہوتے

سنگ سے تم تراش لیتے ہو
گو کہ پتھر خدا نہیں ہوتے

چونکتا ہے سبھی صداؤں پر
حرف سارے ندا نہیں ہوتے

گو محبت ہماری کیسی ہو
کیا بھروسہ جدا نہیں ہوتے

یوں میری بات کو مگر اظہر
جس نے سمجھا خفا نہیں ہوتے
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب۔۔ اب سب کچھ بحر میں ہے۔
اب ایک بات اور بتا دوں، ایک فنی سقم کی طرف اشارہ کر دوں۔
یار سب ہم نوا نہیں ہوتے
درد کی سب دوا نہیں ہوتے
اس مطلعے کے قافیے میں ’ایطا‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشترک حروف میں جو اس میں استعمال ہوئے ہیں، وہ دوسرے اشعار میں نہیں ہوئے ہیں۔ مطلع میں ’دوا‘ اور ’نوا‘ قوافی استعمال ہوئے ہیں۔ اس صورت میں دوسرے قوافی "گوا" "روا" وغیرہ ہوں گے، جن میں مشترک حروف (حرف روی( ’وا‘ ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ تمہاری غزل میں دوسر ے قوافی ایسے ہیں کہ محض ’الف‘ مشترک ہے، ‘کہا، سنا، خدا، ملا۔ امید ہے آئندہ اس کا بھی خیال رکھا جائے گا، یہ ایک نئی بات سکھا دوں اس بار۔ یہ ابھی سکھا دینے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اب تم نے ایسا قافیہ استعمال کیا ہے کہ یہ بات ابھی ہی بتانی ضروری ہو گئی۔
 
اُستادِ گرامی،
یہ بھی وضاحت کیجیے، از راہِ کرم کہ بالا شکل میں غزل کیا قابلِ قبول ہو گی؟ یا قوافی لازمٍ تبدیل ہوں گے
والسلام
اظہر
 
Top