اے کاش تیرے دُکھی دل۔۔۔۔بصد احترام اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہے

اے کاش تیرے دُکھی دل کو پیار سے چھو لوں
میں تیرے درد چرا لوں تری جگہ رو لوں
وہ جھوٹ بول رہا تھا مجھے پتہ تھا مگر
یہ دل مُِصر تھا اسے شک کا فائدہ دے لوں
تعلقات جو توڑے جفا سے تنگ آکر
اٹھی امنگ نیا باب پیار کا کھولوں
تمام عمر تھیں جس جاں کی کیں مداراتیں
کی اس نے کتنی وفا کیا میں مدعا کھولوں
ستم کئے تھے وہ تجھ پر کے کھو دیا تھا تجھے
اُس اضطراب کی اب تجھ سے کچھ سزا پالوں
تھی عمر میری پر اس کرب میں کٹی کہ کہیں
زمانے والوں کو خود سے نہ میں خفا کر لوں
 

الف عین

لائبریرین
بحر و اوزان کا تو مسئلہ نہیں، البتہ قوافی کا مسئلہ گمبھیر ہے۔ چھو لوں، رو لوں مطلع سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’لوں‘ ردیف ہے، اور محض چھو اور رو قوافی ہیں (جو اگرچہ غلط ہیں کہ ان کی حرکات مختلف ہیں)۔ لیکن اس کے علاوہ کھولوں اور کر لوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قوافی ہی نہیں۔
یہ غلطی سدھاری جائے تو بات آگے بڑھے۔
 
Top