جگجیت اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں

ظفری

لائبریرین
[ame="[media=youtube]BMzTmp97F6E[/media]"]
شہر کی رات اور میں ، ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ ، آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک ، دردبدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کروں
یہ جو پہلی چھاؤں یہ ، آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور ، جیسے عاشق کا خیال
آہ ! لیکن ، کون سمجھے ، کون جانے ، جی کا حال
اے غم ِ دل کیا کروں ، اے وحشت ِ دل کیا کروں
رات ہنس ہنس کر، یہ کہتی ہے کہ میخانے میں چل
پھر کسی شہنازِ لالہ رخ کے ، کاشانے پر چل
یہ نہیں ممکن تو پھر اسے دوست ، ویرانے میں چل
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں
جی میں آتا ہے ، یہ مُردہ چاند تارے نوچ لوں
اِس کنارے نوچ لوں، اور اُس کنارے نوچ لوں
ایک دو کیا ذکر کیا ، سارے کے سارے نوچ لوں
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں
راستے میں ُرک کے دم لے لوں ، میری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں ، میری فطرت نہیں
اور کوئی ہمنوا مل جائے ، یہ قسمت نہیں
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں
 
Top