ایک کہانی ایک حقیقت

یوسف-2

محفلین
ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ کراچی کے شمارہ اگست2014 ء میں ڈاکٹر عبدلرب بھٹی کی ایک کہانی ”لکیروں کے اسیر“ شائع ہوئی ہے۔ اس کہانی کا تانا بانا اسلامی عائلی قوانین کے پس منظر میں بنا گیا ہے۔لیکن فاضل مصنف نے اس کہانی میں متعددفاش غلطیاں کی ہیں۔ پہلے کہانی کا خلاصہ سن لیجئے۔روبی کی شعیب سے محبت کی شادی ہوتی ہے اور کئی برس تک اولاد نہ ہونے پر روبی اپنے شوہر سے میڈیکل چیک اَپ کی بات کرتی ہے۔ جس پر شوہر صاحب سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اورآئندہ اس موضوع پر بات کرنے یا میڈیکل چیک اَپ کرانے سے سختی سے انکار کرتے ہیں۔ بعد ازاں روبی اپنی ایک سہیلی کے اصرار پر شوہر کو بتلائے بغیر اپنا میڈیکل چیک اَپ کرواتی ہے اور رپورٹ کلیئر آنے پر شوہر کو یہ بات بتلا کر اُسے اپنا چیک اَپ کرانے کو کہتی ہے۔ شوہر نامدار اس بات پر اتنا مشتعل ہوجاتاہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دے دیتا ہے اور دونوں میں جدائی ہوجاتی ہے۔ بعد میں شوہر کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ روبی سے دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے بتلایا جاتا ہے کہ وہ ایسا ”حلالہ “کروانے کے بعدہی کرسکتا ہے۔ چنانچہ وہ روبی کو بھی اس بات پر آمادہ کرلیتا ہے۔ روبی اپنے ایک سابقہ ہم جماعت اسدکو حلالہ کرنے پر راضی کرلیتی ہے۔ اسد روبی سے شادی کرلیتا ہے اور اس کے ساتھ ہم بستری کرنے کے بعد حسب معاہدہ طلاق دے دیتا ہے۔ عدت گذار کر روبی دوبارہ اپنے پہلے شوہر شعیب سے شادی کرلیتی ہے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد روبی حاملہ ہوجاتی ہے، اور ایک بیٹے کو جنم دیتی ہے۔ شعیب کو کچھ شک ہوتا ہے اور وہ بیوی کو بتلائے بغیر اپنا میڈیکل چیک اَپ کراتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو باپ بننے کے قابل ہی نہیں ہے۔ چنانچہ وہ روبی کے اس اولاد کو باپ کی شفقت نہیں دیتا حتیٰ کہ بیٹا جوان ہوجاتا ہے۔ بیٹااس بات پر ذہنی طور پر پریشان رہتا ہے کہ اسے ماں تو پیار کرتی ہے لیکن باپ اسے کیوں نظر انداز کرتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد روبی کو بھی شعیب کے میڈیکل رپورٹ کا پتہ چل جاتا ہے۔ تاہم وہ دونوں اس بارے میں خاموش رہتے ہیں اور اپنے بیٹے کو بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتلاتے۔ کہانی گو کہ آگے بھی چلتی ہے، مگر وہ ہمارے زیربحث موضوع کا حصہ نہیں ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------------------
اس کہانی میں سب سے بڑا فنی نقص یہ ہے کہ جب روبی اسد سے طلاق لے کر اورعدت گزار کر شعیب سے شادی کرتی ہے تو پھر وہ اسد سے حمل کیسے لے کر آتی ہے۔ غالبآ مصنف کو عدت کا صحیح مطلب ہی نہیں معلوم یا وہ سمجھ رہے ہیں کہ عدت کا مطلب محض تین ماہ کا وقفہ ہے۔ حالانکہ عدت کا مطلب ہے کہ عورت تین حیض گزارے، جو عمومی طور پر تین ماہ کے مساوی ہوتا ہے۔ اگر کسی خاتون نے طلاق کے بعد تین حیض گزار لئے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اب حاملہ نہیں ہے۔ میڈیکل سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ تین حیض کے بعد خاتون کے جسم میں اس کے سابقہ شوہر کا کوئی جرثومہ باقی نہیں رہتا، جو اسے حاملہ کرسکے۔ اور اسلامی شریعت بھی عدت گزارنے کا حکم اسی لئے دیتی ہے تاکہ اولاد کا حسب نسب واضح اور صاف صاف رہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی حاملہ خاتون کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی تاوقتیکہ وہ بچہ جنم نہ دے لے کیونکہ حاملہ خاتون کی عدت وضع حمل ہے۔ اور حمل کی ایک واضح نشانی یہ ہے کہ خاتون کو مقررہ مدت پر حیض نہیں آتا۔لہٰذا عدت کی مدت یعنی تین حیض تک حمل کا چھپے رہنا ناممکن ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------
اس کہانی کا مرکزی موضوع ” حلالہ“ ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تمہیں میں کرائے کا سانڈ نہ بتلاو¿ں ؟ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ضرور بتلائیے۔ آپ نے فرمایا : حلالہ کرنے والا ( پھر آپ نے مزید فرمایا) اللہ تعالی کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پر۔ (سنن ابن ماجہ ، سنن دار قطنی ، مستدرک الحاکم)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے،دونوں پرلعنت فرمائی ہے۔ (جامع ترمذی:۱۱۱۹)۔ دوسری روایت میں حلالہ کرنے والے کوکرائے کا سانڈ قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۹۳۶)۔ گویا ”حلالہ کرانا“ اسلام میں حرام ہے۔ یہاں حلالہ کرانا سے مراد یہ ہے کہ تین طلاقوں کے بعد سابقہ شوہر سے دوبارہ شادی کرنے کی غرض سے کسی دوسرے مرد سے ایک رات یا چند دنوں کی معینہ مدت کے لئے طے شدہ معاہدہ کے تحت شادی کرنا ۔یہ کارِحرام ہے اور اسی فعل پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ قرآن میں جس ”حلالہ“ کا ذکر ہے، وہ ”حلالہ کا ہونا“ ہے نہ کہ ”حلالہ کا کرنا“۔ حلالہ ”ہوتا“ اس طرح ہے کہ اگر کسی خاتون کو اس کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں اور وہ عدت گزارنے کے بعدکسی اور مرد سے نارمل طریقہ سے شادی کرلے ۔حلالہ کی نیت سے معینہ مدت کے لئے نہیں کہ اسلام میں معینہ مدت کے لئے شادی حرام ہے اور یہ زنا کے مترادف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حلالے کی نیت سے کئے گئے نکاح کوزنا سمجھتے تھے۔اور حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔ (تفسیر ابن کثیر)۔ پھراگر یہ دوسرا شوہر مرجائے یا اس سے بھی کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے اور یہ اُسے طلاق دے دے۔ تب اب یہ خاتون اپنے پہلے والے شوہر سے بھی شادی کرسکتی ہے۔مرد ایک یا دو طلاق کے بعد عدت کے اندر اندر زبانی یا عملآ رجوع کرسکتا ہے یا عدت کے بعد نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرسکتا ہے۔ لیکن تین طلاق کے بعد دائمی جدائی ہوجاتی ہے۔ تین طلاق کے بعد عدت کے اندر اندر نہ تو رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی بعد از عدت ان دونوں کا آپس میں نیا نکاح ہوسکتا ہے۔واضح رہے کہ ایک یا دو طلاق کی صورت میں مطلقہ کو اپنی عدت اسی شوہر کے گھر میں گزارنی ہوتی ہے۔ دوران عدت نہ تو شوہر اسے گھر سے نکال سکتا ہے اور نہ ہی بیوی کو شوہر کا گھر چھوڑ کر جانا چاہئے۔ تاکہ اگر طلاق کی وجہ محض غصہ ہو اور غصہ اترنے پر شوہر رجوع کرنا چاہے تو کرسکے۔
---------------------------------------------------------------------------------------------
اللہ نے یہ تمام واضح احکامات قرآن میں یوں بیان کئے ہیں:طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا یا بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے (البقرہ۔۹۲۲) ۔اور مطلقہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو (نیا نکاح کرنے سے) روکے رکھیں۔ ۔ ۔ اور اُن کے شوہر اس مدت میں اُن کو (اپنی زوجیت میں) واپس لے لینے کے حقدار ہیں (البقری۔۸۲۲)۔پھر اگر وہ (تیسری بار) اس کو طلاق دیدے تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہوجائے (البقرہ۔۰۳۲)۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو۔ ۔ ۔ (زمانہ عدت میں) نہ تم انہیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔ ۔ ۔ تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے(طلاق۔۱)۔ حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے (طلاق۔۴)۔ ان کو (عدت کے دوران) اسی جگہ رکھو، جہاں تم رہتے ہو۔ جیسی کچھ جگہ بھی تمہیں میسر ہو۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لئے انہیں نہ ستاو ¿ ۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہوجائے (طلاق۔۶)۔
---------------------------------------------------------------------------------------------
قرآن و حدیث کی روسے طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو اُس حالت طہر میں طلاق دی جائے، جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو۔ پھر تین حیض تک اسے شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنے دیا جائے۔ اس دوران بیوی بناو سنگھار کے ساتھ موجود رہے اور شوہر چاہے تواس دوران زبان سے یا عملی طور پر رجوع کرسکتا ہے۔یوں پھر وہ دونوں شوہر بیوی کے طور پر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اگر عدت کی مدت گزر جائے اور شوہر نے رجوع نہیں کیا تو پھر دونوں میں علیحدگی ہوجائے گی۔ اب دونوں کہیں اور بھی شادی کرسکتے ہیں اور اگردونوں چاہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ بھی نئے مہر کے ساتھ شادی کرسکتے ہیں۔ اب اگر خدانخواستہ دوبارہ ان کے درمیان تنازعہ ہوجائے تو پھر طلاق کا وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا، جو پہلی طلاق کے موقع پر اختیار کیا گیا تھا۔ یعنی بلا مباشرت والے حالت طہر میں طلاق دے کر تین حیض تک عدت گزارنا۔ جس کے دوران شوہر رجوع بھی کرسکتا ہے۔ اور عدت کے بعد دونوں کہیں اور بھی شادی کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھی نئے مہر کے ساتھ شادی کرسکتے ہیں۔آپس میں شادی کرنے کی صورت میں اب مرد کے پاس طلاق کی ایک ہی حق باقی رہ جاتا ہے۔ اب اگر مرد نے تیسری بار طلاق دیدی تو اب رجوع یا آپس میں دوبارہ نکاح کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ اب عورت کو لازمآ
کسی اور مرد سے ہی شادی کرنی ہوگی۔لیکن یہ شادی ’حلالہ‘ کی نیت سے نہیں بلکہ مستقل نیت سے کرنی ہوگی۔ البتہ اگر اس کا یہ دوسرا شوہر وفات پاجائے یا یہ بھی کسی وجہ سے اسے طلاق دیدے ، تب یہ عورت اگر چاہے تو اپنے پہلے والے شوہر سے شادی کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ طلاق دینے کا افضل طریقہ یہی ہے کہ اُس حالت طہر میں دی جائے، جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو۔ تاہم اگر مباشرت کئے جانے والے حالت طہر میں ، حیض کے دوران یا دوران حمل بھی طلاق دی جائے تو طلاق نافذ ہوجاتی ہے۔
----------------------------------------------------------------------------------------------
اب آتے ہیں ایک ساتھ یا ایک نشست میں تین طلاق دینے والے مسئلہ کی طرف۔گو کہ یہ درست ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو مذاہب ِاَربعہ کے فقہا تین طلاقیں ہی شمار کرتے ہیں، لیکن اس پر اِجماع نہیں ہے اور نہ ہی مذاہب ِاَربعہ کا اتفاق اجماع کے مترادف ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت موجود ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے زمانے میں، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی د و سالوں تک ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔مسنداحمد میں حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ موجود ہے، ا±نہوں نے تین طلاقیں دے دی تھیں جس پر وہ سخت نادم ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پرجب ا±نہوں نے یہ بتایا کہ ا±نہوں نے یہ طلاقیں مجلس واحد میں دی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا±نہیں رجوع کرنے کی اجازت دے دی، اور ا±نہوں نے رجوع کرلیا۔ گویا ایک ساتھ جتنی بھی طلاقیں دی جائیں، وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ اور دوران عدت شوہر رجوع بھی کرسکتا ہے اور بعد از عدت اسی عورت سے نیا نکاح بھی کرسکتا ہے۔ یہی طریقہ دور رسالت، دور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک رائج رہا۔ پھر طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتظامی حکم نافذ کیا کہ اگر کسی نے ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو وہ تین ہی نافذ ہوگی اور دونوں کو جدا کردیا جائے گا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اس رائے سے رجوع کرلیا تھا۔ لیکن اگر بالفرض محال ایسا نہ بھی ہوا ہو تب بھی ہمارے لئے دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی قابل تقلید ہے، نہ کہ کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا امام کا طریقہ،جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے مختلف اور متضاد بھی ہو۔ آج اگر ہم نکاح و طلاق کے معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رائج طور طریقوںپر عمل کریں تو بہت سی پریشانیوں بالخصوص حلالہ جیسے کار حرام سے بچ سکتے ہیں۔ (تحریر: یوسف ثانی)
....................................................................................................
 
مدیر کی آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ خیر۔ ایک معلوماتی شراکت۔

آپ کے مراسلے کا پانچواں پیرا :

"قرآن و حدیث کی روسے طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو اُس حالت طہر میں طلاق دی جائے، جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو۔ پھر تین حیض تک اسے شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنے دیا جائے۔ اس دوران بیوی بناو سنگھار کے ساتھ موجود رہے اور شوہر چاہے تواس دوران زبان سے یا عملی طور پر رجوع کرسکتا ہے۔یوں پھر وہ دونوں شوہر بیوی کے طور پر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اگر عدت کی مدت گزر جائے اور شوہر نے رجوع نہیں کیا تو پھر دونوں میں علیحدگی ہوجائے گی۔ اب دونوں کہیں اور بھی شادی کرسکتے ہیں اور اگردونوں چاہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ بھی نئے مہر کے ساتھ شادی کرسکتے ہیں۔ اب اگر خدانخواستہ دوبارہ ان کے درمیان تنازعہ ہوجائے تو پھر طلاق کا وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا، جو پہلی طلاق کے موقع پر اختیار کیا گیا تھا۔ یعنی بلا مباشرت والے حالت طہر میں طلاق دے کر تین حیض تک عدت گزارنا۔ جس کے دوران شوہر رجوع بھی کرسکتا ہے۔ اور عدت کے بعد دونوں کہیں اور بھی شادی کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھی نئے مہر کے ساتھ شادی کرسکتے ہیں۔آپس میں شادی کرنے کی صورت میں اب مرد کے پاس طلاق کی ایک ہی حق باقی رہ جاتا ہے۔ اب اگر مرد نے تیسری بار طلاق دیدی تو اب رجوع یا آپس میں دوبارہ نکاح کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ اب عورت کو لازماً کسی اور مرد سے ہی شادی کرنی ہوگی۔لیکن یہ شادی ’حلالہ‘ کی نیت سے نہیں بلکہ مستقل نیت سے کرنی ہوگی۔ البتہ اگر اس کا یہ دوسرا شوہر وفات پاجائے یا یہ بھی کسی وجہ سے اسے طلاق دیدے ، تب یہ عورت اگر چاہے تو اپنے پہلے والے شوہر سے شادی کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ طلاق دینے کا افضل طریقہ یہی ہے کہ اُس حالت طہر میں دی جائے، جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو۔ تاہم اگر مباشرت کئے جانے والے حالت طہر میں ، حیض کے دوران یا دوران حمل بھی طلاق دی جائے تو طلاق نافذ ہوجاتی ہے۔"

تیسری طلاق کے بعد یہ لازم تو نہیں ہے کہ عورت ضرور شادی کرے۔ اگر عورت طلاق کے بعد شادی نہیں کرنا چاہتی تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
شمشاد بھائی! وضاحت کا شکریہ۔ جی ہاں! تیسری طلاق کے بعد عورت کے لئے شادی کرنا ضروری نہیں ہے، جیسا کہ اس فقرے میں بظاہرنظر آرہا ہے ہے۔
لیکن اگر اس فقرے کو سابقہ ”سلسلہ نکاح بعد از طلاق“ کے پس منظر میں دیکھئے تو ایک دوسرا مطلب نکلتا ہے اور اسی طرف میرا اشارہ تھا کہ ۔ ۔ ۔ پہلی طلاق کے بعد اسی مرد سے نکاح ممکن ہے، دوسری طلاق کے بعد بھی پھر اسی مرد سے نکاح ممکن ہے۔ لیکن تیسری طلاق کے بعد اسی مرد سے نکاح ممکن نہیں۔ اسے لازماً کسی اور مرد سے نکاح کرنا ہوگا (اگر وہ نکاح کرنا چاہے تو)

ویسے تو پہلی یا دوسری طلاق کے بعد بھی (بعد از عدت) عورت کے لئے اسی مرد سے نکاح کرنا لازمی نہیں ہے۔ وہ چاہے تو نکاح ہی نہ کرے یا چاہے تو اسی مرد سے نکاح نہ کرے جو اسے ایک یا دو بار”بے توقیر“ کر چکا ہو۔

نوٹ: یہ ایک ’جوابی بلکہ وضاحتی‘ مضمون ہے جو مذکورہ بالا کہانی کے جواب میں فی البدیہہ لکھا گیا ہے۔ یہ کوئی مستقل نوعیت کا مضمون نہیں ہے، جس میں موضوع سے متعلق تمام ضروری نکات کا احاطہ کیا گیا ہو۔
 

ابن رضا

لائبریرین
لہٰذا عدت کی مدت یعنی تین حیض تک حمل کا چھپے رہنا ناممکن ہے۔
حیض کے مسائل کا عورت الا اعلان ذکر نہیں کرتی کہ دورانِ عدت وہ حائضہ ہوئی یا نہیں، خاموشی اختیار کرنے کا سبب پہلے شوہر کی نامردی بھی ہو سکتی ہے اور ویسے بھی یہ کردار معاشرے کے عکاس ہیں کہ لوگ محرومیاں دور کرنے کے لیے سیاہ و سفید میں تمیز تک بھول جاتے ہیں مذہبی احکامات تو دور کی بات ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
لہٰذا عدت کی مدت یعنی تین حیض تک حمل کا چھپے رہنا ناممکن ہے۔
یہاں میری مراد ، خود عورت سے چھپے رہنا تھی، نہ کہ دوسروں سے چھپے رہنا۔ یعنی عورت کو بخوبی معلوم ہوتا ہے عدت کے بعد کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔ زیر تبصرہ کہانی میں یہ دکھایا گیا تھا کہ عورت نے شرعی عدت گذار کر اپنے سابقہ شوہرسے شادی کی۔ اور شادی کے بعد اسے معلوم ہوا کہ وہ حمل سے ہے۔ اسی پس منظر میں، میں نے لکھا تھا کہ ۔۔۔۔

حیض کے مسائل کا عورت الا اعلان ذکر نہیں کرتی کہ دورانِ عدت وہ حائضہ ہوئی یا نہیں، خاموشی اختیار کرنے کا سبب پہلے شوہر کی نامردی بھی ہو سکتی ہے اور ویسے بھی یہ کردار معاشرے کے عکاس ہیں کہ لوگ محرومیاں دور کرنے کے لیے سیاہ و سفید میں تمیز تک بھول جاتے ہیں مذہبی احکامات تو دور کی بات ہے۔
بات تو آپ کی درست ہے۔ لیکن کہانی میں تو ہیروئین اپنے حاملہ ہونے تک اس بات سے ”بے خبر“ تھی کہ اس کا شوہر نامرد ہے۔ جب بچہ کافی بڑا ہوگیا اور اتفاق سے اس کی رسائی اپنے شوہر کے میڈیکل رپورٹ تک ہوئی تب اسے پتہ چلا کہ اس کا شوہر نامرد ہے۔
 
کیا عجب اور فتنہ انگیز بات ہے جب یہ کہا جائے کہ ایک بات یا تصور کی حقیقت کا علم صحابہ اور قرون اولی کے مسلمانوں کو نہ ہوا، چودہویں صدی کا ملا اس علم کی حقیقت کو پانے کا دعوی دار ہے
 

یوسف-2

محفلین
کیا عجب اور فتنہ انگیز بات ہے جب یہ کہا جائے کہ ایک بات یا تصور کی حقیقت کا علم صحابہ اور قرون اولی کے مسلمانوں کو نہ ہوا، چودہویں صدی کا ملا اس علم کی حقیقت کو پانے کا دعوی دار ہے
شاید آپ نے مکمل مضمون نیں پڑھا۔ یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ ”زیر بحث بات“ یعنی ایک ساتھ دی گئی تین یا زائد طلاقوں کو ایک طلاق گننے کی حقیقت کا علم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تھا۔
  1. یہی بات دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں رائج تھی۔
  2. یہی بات خلیفہ اول حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کے دور میں مروج تھا۔
  3. یہی بات خلیفہ دوم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلے دو سال تک متفق علیہ تھی۔
ہمارے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دو اولین خلفا راشدین کے دور میں متفق علیہ بات شرعی دلیل کے طور پر زیادہ مستند ہے، بہ نسبت اُس برعکس رائے کہ جو بعد میں پیش کی گئی ۔ واللہ اعلم بالصواب
 

ابن رضا

لائبریرین
یہاں میری مراد ، خود عورت سے چھپے رہنا تھی، نہ کہ دوسروں سے چھپے رہنا۔ یعنی عورت کو بخوبی معلوم ہوتا ہے عدت کے بعد کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔ زیر تبصرہ کہانی میں یہ دکھایا گیا تھا کہ عورت نے شرعی عدت گذار کر اپنے سابقہ شوہرسے شادی کی۔ اور شادی کے بعد اسے معلوم ہوا کہ وہ حمل سے ہے۔ اسی پس منظر میں، میں نے لکھا تھا کہ ۔۔۔۔


بات تو آپ کی درست ہے۔ لیکن کہانی میں تو ہیروئین اپنے حاملہ ہونے تک اس بات سے ”بے خبر“ تھی کہ اس کا شوہر نامرد ہے۔ جب بچہ کافی بڑا ہوگیا اور اتفاق سے اس کی رسائی اپنے شوہر کے میڈیکل رپورٹ تک ہوئی تب اسے پتہ چلا کہ اس کا شوہر نامرد ہے۔
محترمی جیسے دو جمع دو چار ہی ہوتے ہیں اسی طرح یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ اولاد نہ ہونے کا دکھ دور کرنے کے لیے شوہر کے منع کرنے کے باوجود موصوفہ اپنے تمام ٹیسٹ کرا لیتی ہیں اور وہ درست ہوتے ہیں تو پھر تان آ کر میاں جی پر ہی ٹوٹے گی۔ جبکہ شادی کے بعد اتنا وقت گزر گیا ہو۔
 
شاید آپ نے مکمل مضمون نیں پڑھا۔ یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ ”زیر بحث بات“ یعنی ایک ساتھ دی گئی تین یا زائد طلاقوں کو ایک طلاق گننے کی حقیقت کا علم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تھا۔
میرا اشارہ اس جانب نہیں تھا -( یہ بات توتفصیل سے بیان کی جائے گی کہ اہل سنت، ایک وقت کی مبینہ تین طلاق کو تین کن دلائل سے ثابت کرتے ہیں)
میں نے تو آپ کی مندرجہ ذیل بات کا جواب دیا تھا ،
۔۔۔۔تب بھی ہمارے لئے دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی قابل تقلید ہے، نہ کہ کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا امام کا طریقہ،جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے مختلف اور متضاد بھی ہو (تحریر: یوسف ثانی)
آجکل کی نام نہاد تفہیم قرون اولی کے صحابہ،تابعین اور تبع تابعین سے زیادہ ہرگز نہیں کہ جو فیصلہ کرے کہ فلاں صحابہ کا فلاں عمل سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مختلف یا متضاد ہے
 

arifkarim

معطل
میڈیکل سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ تین حیض کے بعد خاتون کے جسم میں اس کے سابقہ شوہر کا کوئی جرثومہ باقی نہیں رہتا، جو اسے حاملہ کرسکے۔
میڈیکل سائنس کے مطابق ایک جرثومے کی عمر تین سے پانچ دن ہے۔ اور غالباً اس کی تصدیق زیک بھائی پہلے بھی کر چکے ہیں:
http://www.mayoclinic.org/healthy-living/getting-pregnant/expert-answers/pregnancy/faq-20058504
http://www.newhealthguide.org/How-Long-Can-Sperm-Live-Inside-The-Body.html
 

یوسف-2

محفلین
میڈیکل سائنس کے مطابق ایک جرثومے کی عمر تین سے پانچ دن ہے۔ اور غالباً اس کی تصدیق زیک بھائی پہلے بھی کر چکے ہیں:
http://www.mayoclinic.org/healthy-living/getting-pregnant/expert-answers/pregnancy/faq-20058504
http://www.newhealthguide.org/How-Long-Can-Sperm-Live-Inside-The-Body.html
جی ہاں! آپ کی بات عمومی طور پر درست ہے۔ میں نے کہیں تین حیض کی عدت سے متعلق ایک طبی ریسرچ پڑھی تھی (اس وقت یاد نہیں کہ کہاں)، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ تین حیض کے بعد مطلقہ خاتون کے اپنے سابقہ شوہر سے ”حمل سے پاک“ ہونے کے امکانات 100 فیصد ہوتے ہیں۔ ایک یا دو حیض کے بعد یہ امکان 100 فیصد سے کچھ کم ہوتے ہیں۔ اور متعلقہ غیر مسلم ریسرچر نے اسی بنیاد پر اسلام کے تین حیض کی مدت والے عدت کے قانون کو سراہا بھی تھا۔ اس تحقیق کا لب لباب یہ تھا کہ ایک یا دو حیض جاری ہونے کے باوجود مطلقہ خاتون کے حمل سے رہنے کے چند فیصد امکانات بہرحال موجود رہتے ہیں جبکہ تین حیض جاری ہونے کے بعد یہ امکان صفر رہ جاتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top