ایک کاوش اصلاح، تنقید و تبصرہ کے لئے ،'' صبح امید کی لو کاش در آئی ہوتی''

صبح امید کی لو کاش در آئی ہوتی
قلب مغموم، بجھی آس بندھائی ہوتی

کج ادائی جو تری ہوتی کسی ایک طرف
ایک جانب یہ مری آبلہ پائی ہوتی

زور چلتا جو مرا، عشق میں کرتا نہ کبھی
اور چابی بھی ہواوں کی بنائی ہوتی

غم نہیں تشنہ رہے لب کہ تھا قسمت میں لکھا
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی

مصلحت جان کے اظہر میں تو خاموش رہا
آس ہوتی جو ذرا، بات بنائی ہوتی​
 

ابن رضا

لائبریرین
صبح امید کی لو کاش در آئی ہوتی
قلب مغموم، بجھی آس بندھائی ہوتی

کج ادائی جو تری ہوتی کسی ایک طرف
ایک جانب یہ مری آبلہ پائی ہوتی

زور چلتا جو مرا، عشق میں کرتا نہ کبھی
اور چابی بھی ہواوں کی بنائی ہوتی

غم نہیں تشنہ رہے لب کہ تھا قسمت میں لکھا
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی

مصلحت جان کے اظہر میں تو خاموش رہا
آس ہوتی جو ذرا، بات بنائی ہوتی​
دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں اگر " ایک جانب یہ " کی بجائے " دوسری سمت " کہیں تو؟؟
 

الف عین

لائبریرین
صبح امید کی لو کاش در آئی ہوتی
قلب مغموم، بجھی آس بندھائی ہوتی
مزا نہیں آیا۔کرن تو در آتی ہے یا آ سکتی ہے، لیکن لو نہیں۔ دوسرے مصرع میں قلب مغموم بے ربط لگتا ہے۔
`ا س نے کچھ بجھتئ ہوئی آس بندھائی ہوتی
قسم کا کچھ مصرع کیا جا سکتا ہے

غم نہیں تشنہ رہے لب کہ تھا قسمت میں لکھا
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی
پہلا مصرع مزید روانی چاہتا ہے

مصلحت جان کے اظہر میں تو خاموش رہا
آس ہوتی جو ذرا، بات بنائی ہوتی
÷÷بات کون بناتا، یہ واضح نہیں۔ پہلے مصرع میں بھی ‘میں تو‘ اچھا نہیں لگ رہا
مصلحت جان کے خاموش رہا میں اظہر
کہنے میں کیا قباحت تھی؟
 
صبح امید کی لو کاش در آئی ہوتی
قلب مغموم، بجھی آس بندھائی ہوتی
مزا نہیں آیا۔کرن تو در آتی ہے یا آ سکتی ہے، لیکن لو نہیں۔ دوسرے مصرع میں قلب مغموم بے ربط لگتا ہے۔
`ا س نے کچھ بجھتئ ہوئی آس بندھائی ہوتی
قسم کا کچھ مصرع کیا جا سکتا ہے
جی بہت بہتر محترم اُستاد، یوں دیکھ لیجئے
صبح امید، کرن کاش در آئی ہوتی
اُس نے بجھتی ہوئی کچھ آس بندھائی ہوتی


غم نہیں تشنہ رہے لب کہ تھا قسمت میں لکھا
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی
پہلا مصرع مزید روانی چاہتا ہے
جی کچھ تبدیلی کئے دیتے ہیں
غم نہیں بخت میں لکھی تھی مرے تشنہ لبی
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی


مصلحت جان کے اظہر میں تو خاموش رہا
آس ہوتی جو ذرا، بات بنائی ہوتی
÷÷بات کون بناتا، یہ واضح نہیں۔ پہلے مصرع میں بھی ‘میں تو‘ اچھا نہیں لگ رہا
مصلحت جان کے خاموش رہا میں اظہر
کہنے میں کیا قباحت تھی
جی یہ صورت بہت بہتر ہے پہلے سے
مصلحت جان کے خاموش رہا میں اظہر
آس ہوتی جو مجھے، بات بنائی ہوتی


گویا صورتحال کچھ یوں ہوئی اب


صبح امید، کرن کاش در آئی ہوتی
اُس نے بجھتی ہوئی کچھ آس بندھائی ہوتی


کج ادائی جو تری ہوتی کسی ایک طرف
دوسری سمت مری آبلہ پائی ہوتی

زور چلتا جو مرا، عشق میں کرتا نہ کبھی
اور چابی بھی ہواوں کی بنائی ہوتی

غم نہیں بخت میں لکھی تھی مرے تشنہ لبی
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی

مصلحت جان کے خاموش رہا میں اظہر
آس ہوتی جو مجھے، بات بنائی ہوتی
 
صبح امید کی لو کاش در آئی ہوتی
قلب مغموم، بجھی آس بندھائی ہوتی

کج ادائی جو تری ہوتی کسی ایک طرف
ایک جانب یہ مری آبلہ پائی ہوتی

زور چلتا جو مرا، عشق میں کرتا نہ کبھی
اور چابی بھی ہواوں کی بنائی ہوتی

غم نہیں تشنہ رہے لب کہ تھا قسمت میں لکھا
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی

مصلحت جان کے اظہر میں تو خاموش رہا
آس ہوتی جو ذرا، بات بنائی ہوتی​
تمہاری دید سے ہم دور ہی بھلے رہتے
یہی تھا ڈر کہ نا ہم پہ عتاب ہو جائے
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار تو درست ہو گئے، لیکن مطلع اب بھی دل کو نہین لگ رہا،
اک کرن آس کی اے کاش درآ ئی ہوتی
کہیں تو!!، صبح لانا کیا ضروری ہے؟
 
باقی اشعار تو درست ہو گئے، لیکن مطلع اب بھی دل کو نہین لگ رہا،
اک کرن آس کی اے کاش درآ ئی ہوتی
کہیں تو!!، صبح لانا کیا ضروری ہے
جی بہت مناسب ہے، یوں دیکھ لیجئے اور دو اشعار نئے ہوئے ہیں
اک کرن آس کی اے کاش در آئی ہوتی
اب جو بُجھنے کو ہے امید، بندھائی ہوتی

آنکھ ہی آنکھ میں وہ دے گیا پیغام مجھے
بات سُنتا بھی، کوئی بات سُنائی ہوتی

کیا قیامت تھی اگر وصل ہی ٹہرا رہتا
ہجر ہوتا نہ جدائی نہ دہائی ہوتی

گویا کچھ یوں ہوا کہ

اک کرن آس کی اے کاش در آئی ہوتی
اب جو بُجھنے کو ہے امید، بندھائی ہوتی

آنکھ ہی آنکھ میں وہ دے گیا پیغام مجھے
بات سُنتا بھی، کوئی بات سُنائی ہوتی

کیا قیامت تھی اگر وصل ہی ٹہرا رہتا
ہجر ہوتا نہ جدائی نہ دہائی ہوتی


کج ادائی جو تری ہوتی کسی ایک طرف
دوسری سمت مری آبلہ پائی ہوتی

زور چلتا جو مرا، عشق میں کرتا نہ کبھی
اور چابی بھی ہواوں کی بنائی ہوتی

غم نہیں بخت میں لکھی تھی مرے تشنہ لبی
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی

مصلحت جان کے خاموش رہا میں اظہر
آس ہوتی جو مجھے، بات بنائی ہوتی​
 

الف عین

لائبریرین
مطلع تو ہو ہی چکا
بات سُنتا بھی، کوئی بات سُنائی ہوتی
سے
کچھ مری سنتا، کوئی بات۔۔۔۔۔ بہتر ہو گا۔
دوسرا نیا شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لئے کچھ کہہ نہیں سکتا
 
Top