ایک نظم: نوشتہء پس ِ دیوار

یاران ِ محفل ِ اردو: تسلیمات
اردو محفل میں آئے ہوئے مجھ کو کچھ زیادہ مدت نہیں ہوئی ہے۔چونکہ میرا ذوق و شوق اردو شعر و اَدب تک محدود ہے اس لئے میری سسرگرمیاں بھی محدود رہی ہیں۔ ہر کام کے لئے زندگی میں ایک دور یا وقت ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ میری دلچسپیاں محدود ضرور ہو گئی ہیں لیکن معدوم مطلق نہیں ہوئی ہیں۔ بفضلہ یہاں ایسے احباب کافی تعداد میں ہیں جو ادب و شعر سے وابستگی کی اہمیت سے واقف ہیں۔ البتہ یہ بات غور طلب ضرور ہے کہ احباب کی توجہ غزل کی جانب زیادہ مرکوز ہے۔ ایک آدھ آزاد نظم اور غزل معری دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا لیکن زیادہ توجہ اور زور غزل پر ہی ہے۔ نظم لکھنے کا روج اردو میں کم رہاہے اور فی زمانہ اور کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر کچھ دوست نظم گوئی کی بھی فکر کرتے۔ نظم کہنا غزل گوئی سے مختلف فن ہے اور اس کا اپنا حسن بھی ہے۔جن لوگوں نے علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے وہ اس حسن اور لطف سے بخوبی واقف ہیں۔ میں نے جو نظمیں کہی ہیں ان میں سے چیدہ چیدہ نظمیں یہاں پیش کررہا ہوں۔ میرا فطری رجحان تاثراتی منظومات کی جانب ہے۔ ایسی نظمیں زیادہ طویل نہیں ہوتی ہیں کیونکہ ان کے محرک تاثرات کی عمر ہی کم ہوتی ہے۔ چنانچہ ان نظموں کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے قاری کو کچھ زیادہ وقت ،توجہ اور جگر سوزی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گذارش ہے کہ اس پیشکش پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ آپ کی تنقید سے میری کوشش میں بہتری آجائے تو اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔ انشااللہ۔ آپ کی توجہ اور عنایات کا ممنون ہوں اوردعائے خیر کا طالب۔نظم :نوشتہء پسِ دیوار: ملاحظہ کیجئے۔
سرور عالم راز
=====================
نوشتہ ء پس ِ دیوار
( مال کی سیر کے چند تاثرات)
یہ رنگ و بو ، یہ نظارے، یہ بزم آرائی ====== نیازو ناز و ا ِدا ، حسن ، عشق، رعنائی
شباب و نظم و غزل در پئے شکیبائی ====== مجھے یہ ساعت گزراں کہاں پہ لے آئی
قرار دیکھ لیا ، اضطرار دیکھ لیا
غم حبیب، غم روزگار دیکھ لیا
اُ داس چہروں پہ اڑتا غبار دیکھ لیا
نوائے شوق کو بے اختیار دیکھ لیا
خزاں گزیدہ لباس ِ بہار دیکھ لیا
گماں دریدہ، یقیں تار تار دیکھ لیا
تمام عشوہ و حسن نگار دیکھ لیا
جنوں کا سجدہ سر کوئے یار دیکھ لیا
سواد عقل و خرد بے وقار دیکھ لیا
رہا نہ خود پہ بھی جب اعتبار دیکھ لیا
کبھی جو دیکھا نہ تھا، بار بار دیکھ لیا
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم ====== نوشتہ ء پس ِ دیوار کیا ہے،کیا معلوم!
====================
 

ارشد رشید

محفلین
آپ کی نظم نظر نواز ہوئی ،ماشاء اللہ لطف آیا پڑھ کر ،آپ نے اس مرکزی خیال کو بخوبی نظم کیا ہے کہ انسان کی عقل کا مدار حواس پر ہے اور حواس کی ایک حد ہے چنانچہ آدمی کا مشاہدہ و تجربہ جس قدر بھی ہو اسے انتہائی بنیادی سوالات کے جوابات کہ اس کی ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا ہے محض عقل کے گھوڑے دوڑانے سے نہیں مل سکتے کیونکہ عقل محدود ہے ۔
نظم کے آخری شعر کا تو جواب نہیں ۔ماشاء اللہ
یاسر سائیں - چونکہ آپ کو یہ نظم پسند آئی اس لیئے میں آپ سے ہی پوچھ لیتا ہوں کہ نوشتہ پسِ دیوار کا کیا مطلب ہے - نوشتہ دیوار تو سنا اور پڑھا ہے کہ اس کا مطلب ہے روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں چیز مگر پس ِ دیوار کیا ہوا ؟ جو بات دیوار کے پیچھے لکھی ہے وہ تو آپ کے لیئے ہے ہی نہیں وہ تو ہے ہی اس کے لیے جس کی وہ دیوار ہے - اور پھر یہ بھی تو ہے کہ کسی کو کیا پتہ کہ پسِ دیوار کچھ نوشتہ ہے بھی کہ نہیں - تو نوشتہ پسِ دیوار کے بارے میں سوچنا چہ معنیٰ دارد؟
 
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترمی کیسے ہیں ؟
آپ کی نظم نظر نواز ہوئی ،ماشاء اللہ لطف آیا پڑھ کر ،آپ نے اس مرکزی خیال کو بخوبی نظم کیا ہے کہ انسان کی عقل کا مدار حواس پر ہے اور حواس کی ایک حد ہے چنانچہ آدمی کا مشاہدہ و تجربہ جس قدر بھی ہو اسے انتہائی بنیادی سوالات کے جوابات کہ اس کی ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا ہے محض عقل کے گھوڑے دوڑانے سے نہیں مل سکتے کیونکہ عقل محدود ہے ۔
نظم کے آخری شعر کا تو جواب نہیں ۔ماشاء اللہ

اور اسی طرح ابتدا بھی بڑی خوبصورتی سے کی ہے:

بہت خوش آہنگ شعر ہے ماشاء اللہ خصوصاً دوسرے مصرع کے آخر میں جو آپ: حسن ،عشق ، رعنائی : بغیر ترکیب کے لائے ہیں اس سے آہنگ میں ایک دلکشی آ گئی ہے۔

لیکن سرور صاحب وہ کہتے ہیں نہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے سو ایک الجھن پیدا ہوتی ہے، امید ہے آپ سلجھادیں گے-ک

شباب کے ساتھ نظم و غزل کا کیا تعلق ،بے جوڑ سی لگ رہی ہے ترکیب۔اور پھر محترمی :گزراں: کا غیر ثقہ تلفظ آپ نے کیسے برت لیا۔

امید ہے آپ جواب عنایت فرمائیں گے۔
عزیز مکرم یاسر صاحب: سلام علیکم
نظم کے حوالے سے میری عزت افزائی کا دلی شکریہ۔ آپ نے ایسے خوبصورت الفاظ سے یاد کیا کہ اس حقیر پر تقصیر کا دل :گارڈن گارڈن: ہو گیا۔ جزاک اللہ خیرا۔ میری اکثر نظمیں اسی طرح کی تاثراتی اور جذباتی ہیں اور عام طور پر لکھنے کے بعد د ہ نظر ثانی یا اصلاح سے نہیں گذرتی ہیں سو ان میں کسی سقم کا رہ جانا جائے حیرت نہیں ہونا چاہئے۔ یہ نظم اگست 2005 کی کہی ہوئی ہے ۔ بہت غنیمت ہے کہ آپ کی نگاہ احتساب میں ایک ہی بات آئی۔جب نظم کہی تھی تو ؛ساعت گزراں: میں ز پر میرے ذہن میں زبر لگا ہوگا لیکن اس کی تصدیق تقطیع سے کرنا چاہئے۔ سو آپ بھی کیجئے او ر میں بھی کرتا ہوں۔ اگر سقم ہے تو دورکرنا ضروری ہے، انشااللہ۔ غلطی اگر ہے تو اس کا آسان ترین علاج یہ ہے کہ اس کا اعتراف کیا جائے اورپھر اصلاح۔ اور شباب کے ساتھ نظم و غزل کا تعلق نہیں ہوگا توکیا مرثیہ کا ہوگا؟ بہر کیف اس کو بھی دیکھ لیں گے۔ اور رہ گیا لوگوں کی فاتحہ خوانی کاپروگرام تو آپ اس کی فکرنہ کریں۔ ایسی باتوں سے کیا حاصل۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اگر کسی سے خفا ہو جائیں تو پھر انھیں اس شخص کے ہر مصرع میں سوائے نقص کے اور کچھ نظرنہیں آتا۔ ان کو بھی انھیں کے حال پر چھوڑدیں۔ یہی بہتر ہے۔
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟
 
مدیر کی آخری تدوین:
یاران ِ محفل ِ اردو: تسلیمات
اردو محفل میں آئے ہوئے مجھ کو کچھ زیادہ مدت نہیں ہوئی ہے۔چونکہ میرا ذوق و شوق اردو شعر و اَدب تک محدود ہے اس لئے میری سسرگرمیاں بھی محدود رہی ہیں۔ ہر کام کے لئے زندگی میں ایک دور یا وقت ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ میری دلچسپیاں محدود ضرور ہو گئی ہیں لیکن معدوم مطلق نہیں ہوئی ہیں۔ بفضلہ یہاں ایسے احباب کافی تعداد میں ہیں جو ادب و شعر سے وابستگی کی اہمیت سے واقف ہیں۔ البتہ یہ بات غور طلب ضرور ہے کہ احباب کی توجہ غزل کی جانب زیادہ مرکوز ہے۔ ایک آدھ آزاد نظم اور غزل معری دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا لیکن زیادہ توجہ اور زور غزل پر ہی ہے۔ نظم لکھنے کا روج اردو میں کم رہاہے اور فی زمانہ اور کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر کچھ دوست نظم گوئی کی بھی فکر کرتے۔ نظم کہنا غزل گوئی سے مختلف فن ہے اور اس کا اپنا حسن بھی ہے۔جن لوگوں نے علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے وہ اس حسن اور لطف سے بخوبی واقف ہیں۔ میں نے جو نظمیں کہی ہیں ان میں سے چیدہ چیدہ نظمیں یہاں پیش کررہا ہوں۔ میرا فطری رجحان تاثراتی منظومات کی جانب ہے۔ ایسی نظمیں زیادہ طویل نہیں ہوتی ہیں کیونکہ ان کے محرک تاثرات کی عمر ہی کم ہوتی ہے۔ چنانچہ ان نظموں کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے قاری کو کچھ زیادہ وقت ،توجہ اور جگر سوزی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گذارش ہے کہ اس پیشکش پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ آپ کی تنقید سے میری کوشش میں بہتری آجائے تو اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔ انشااللہ۔ آپ کی توجہ اور عنایات کا ممنون ہوں اوردعائے خیر کا طالب۔نظم :نوشتہء پسِ دیوار: ملاحظہ کیجئے۔
سرور عالم راز
=====================
نوشتہ ء پس ِ دیوار
( مال کی سیر کے چند تاثرات)
یہ رنگ و بو ، یہ نظارے، یہ بزم آرائی ====== نیازو ناز و ا ِدا ، حسن ، عشق، رعنائی
شباب و نظم و غزل در پئے شکیبائی ====== مجھے یہ ساعت گزراں کہاں پہ لے آئی
قرار دیکھ لیا ، اضطرار دیکھ لیا
غم حبیب، غم روزگار دیکھ لیا
اُ داس چہروں پہ اڑتا غبار دیکھ لیا
نوائے شوق کو بے اختیار دیکھ لیا
خزاں گزیدہ لباس ِ بہار دیکھ لیا
گماں دریدہ، یقیں تار تار دیکھ لیا
تمام عشوہ و حسن نگار دیکھ لیا
جنوں کا سجدہ سر کوئے یار دیکھ لیا
سواد عقل و خرد بے وقار دیکھ لیا
رہا نہ خود پہ بھی جب اعتبار دیکھ لیا
کبھی جو دیکھا نہ تھا، بار بار دیکھ لیا
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم ====== نوشتہ ء پس ِ دیوار کیا ہے،کیا معلوم!
====================
قاری اگر شاعر کی مخصوص کیفیت سے تعلق نہ بھی بنا سکے تو ایسی تخلیقات کی سادہ بیانی اور خوش زبانی کا لطف اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا ... بہت داد قبول فرمائیے.
 
یاران ِ محفل ِ اردو: تسلیمات
اردو محفل میں آئے ہوئے مجھ کو کچھ زیادہ مدت نہیں ہوئی ہے۔چونکہ میرا ذوق و شوق اردو شعر و اَدب تک محدود ہے اس لئے میری سسرگرمیاں بھی محدود رہی ہیں۔ ہر کام کے لئے زندگی میں ایک دور یا وقت ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ میری دلچسپیاں محدود ضرور ہو گئی ہیں لیکن معدوم مطلق نہیں ہوئی ہیں۔ بفضلہ یہاں ایسے احباب کافی تعداد میں ہیں جو ادب و شعر سے وابستگی کی اہمیت سے واقف ہیں۔ البتہ یہ بات غور طلب ضرور ہے کہ احباب کی توجہ غزل کی جانب زیادہ مرکوز ہے۔ ایک آدھ آزاد نظم اور غزل معری دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا لیکن زیادہ توجہ اور زور غزل پر ہی ہے۔ نظم لکھنے کا روج اردو میں کم رہاہے اور فی زمانہ اور کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر کچھ دوست نظم گوئی کی بھی فکر کرتے۔ نظم کہنا غزل گوئی سے مختلف فن ہے اور اس کا اپنا حسن بھی ہے۔جن لوگوں نے علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے وہ اس حسن اور لطف سے بخوبی واقف ہیں۔ میں نے جو نظمیں کہی ہیں ان میں سے چیدہ چیدہ نظمیں یہاں پیش کررہا ہوں۔ میرا فطری رجحان تاثراتی منظومات کی جانب ہے۔ ایسی نظمیں زیادہ طویل نہیں ہوتی ہیں کیونکہ ان کے محرک تاثرات کی عمر ہی کم ہوتی ہے۔ چنانچہ ان نظموں کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے قاری کو کچھ زیادہ وقت ،توجہ اور جگر سوزی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گذارش ہے کہ اس پیشکش پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ آپ کی تنقید سے میری کوشش میں بہتری آجائے تو اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔ انشااللہ۔ آپ کی توجہ اور عنایات کا ممنون ہوں اوردعائے خیر کا طالب۔نظم :نوشتہء پسِ دیوار: ملاحظہ کیجئے۔
سرور عالم راز
=====================
نوشتہ ء پس ِ دیوار
( مال کی سیر کے چند تاثرات)
یہ رنگ و بو ، یہ نظارے، یہ بزم آرائی ====== نیازو ناز و ا ِدا ، حسن ، عشق، رعنائی
شباب و نظم و غزل در پئے شکیبائی ====== مجھے یہ ساعت گزراں کہاں پہ لے آئی
قرار دیکھ لیا ، اضطرار دیکھ لیا
غم حبیب، غم روزگار دیکھ لیا
اُ داس چہروں پہ اڑتا غبار دیکھ لیا
نوائے شوق کو بے اختیار دیکھ لیا
خزاں گزیدہ لباس ِ بہار دیکھ لیا
گماں دریدہ، یقیں تار تار دیکھ لیا
تمام عشوہ و حسن نگار دیکھ لیا
جنوں کا سجدہ سر کوئے یار دیکھ لیا
سواد عقل و خرد بے وقار دیکھ لیا
رہا نہ خود پہ بھی جب اعتبار دیکھ لیا
کبھی جو دیکھا نہ تھا، بار بار دیکھ لیا
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم ====== نوشتہ ء پس ِ دیوار کیا ہے،کیا معلوم!
====================
محترم سرور صاحب ، حالانکہ ایک پر رونق ماحول عموماً خوشی کا احساس کراتا ہے ، لیکن میرا مشاہدہ رہا ہے کہ کبھی کبھی ایسا ماحول کوئی دکھتی رگ چھیڑ دیتا ہے اور دِل بجائے خوش ہونے كے ، کچھ ایسے خیالوں میں کھو جاتا ہے جن کا خوشی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا . میری ناچیز رائے میں یہ نظم کچھ ایسی ہی صورت حال کی پیدائش ہے جہاں آپ خود کو بھیڑ بھاڑ میں گھرا پا کر اپنے ماضی کی یادوں اور مستقبل كے ممکنات میں کھو گئے . نظم پسند آئی . داد قبول فرمائیے .
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر سائیں - چونکہ آپ کو یہ نظم پسند آئی اس لیئے میں آپ سے ہی پوچھ لیتا ہوں کہ نوشتہ پسِ دیوار کا کیا مطلب ہے - نوشتہ دیوار تو سنا اور پڑھا ہے کہ اس کا مطلب ہے روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں چیز مگر پس ِ دیوار کیا ہوا ؟ جو بات دیوار کے پیچھے لکھی ہے وہ تو آپ کے لیئے ہے ہی نہیں وہ تو ہے ہی اس کے لیے جس کی وہ دیوار ہے - اور پھر یہ بھی تو ہے کہ کسی کو کیا پتہ کہ پسِ دیوار کچھ نوشتہ ہے بھی کہ نہیں - تو نوشتہ پسِ دیوار کے بارے میں سوچنا چہ معنیٰ دارد؟
ارشد رشید بھائی

نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم ====== نوشتہ ء پس ِ دیوار کیا ہے،کیا معلوم!

یہ شعر پوری نظم کا حاصل ہے ،اور ترکیب "نوشتہ ء پس ِ دیوار" پوری نظم کی جان، اگر شاعر اسے بطور عنوان نہ بھی برتتا تومیں یہی کہتا کہ یہی نظم کی کلید ہے - نوشتہ ء دیوار اور زبانوں میں بھی رائج اصطلاح ہے اور مخصوص معنوں میں استعمال ہوتی ہے جیسے غیبی خبریں اور وہ اٹل فیصلے یا رونما ہونے والے واقعات جن کا ہمیں بتادیا گیا ہے -شاعر نے اس اصطلاح میں خوبصورت تصرف کر کے اسے "نوشتہ ء پس ِ دیوار" کر دیا ہے (غالبا یہ تصرف سرور صاحب کا ذاتی ہے کہ میری نظر سے اور کہیں نہیں گزرا ،یوں میرا مطالعہ ناقص ہے )چنانچہ اب اس اصطلاح سے مراد ہوگی وہ غیبی علم جو ہم کو نہیں دیا گیا -اب اس اصطلاح کا جوڑ پہلے مصرع سے یہ ہوگا کہ نہ ہمیں اپنی دنیاوی انتہا کا معلوم ہے کہ موت کب واقع ہوگی نہ خود دنیا کی انتہا کا معلوم ہے کہ قیامت کب آئے گی نہ ہی اپنے اخروی انجام کا معلوم ہے کہ :شقی: ہوں گے کہ :سعید: اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابتدا کا تو معلوم ہےتو پھر شاعر نے یہ کیوں کہا کہ :نہ ابتدا کی خبر: تو جواب یہ ہے کہ ابتدا کے بارے میں جزوی معلومات دی گئی ہیں کہ جو ہم سے متعلق اور ہمارے لئے کارآمد ہیں اور باقی سب : نوشتہ ء پس ِ دیوار :ہے ، شاعر خوبصورتی سے سائنس کے مفروضوں پر مبنی ابتدا اور انتہا کے متعلق بلند بانگ دعووں کو بھی اس ترکیب سے جھٹلا رہا ہے یہ کہہ کر کہ :نوشتہ ء پس ِ دیوار کیا ہے،کیا معلوم!:

اس پوری نظم میں :دیکھ لیا : ردیف نے بھی خوب کام کیا ہے یہ بتانے کے لیے کہ انسان کا ادراک، عقل اور دنیاوی معلومات سب حواس کے تابع ہیں لہٰذا :حضرت انسان : بڑی ٹھوکریں کھاتا ہے کیونکہ حواس محدود ہیں لہٰذا ان پر مبنی علم بھی محدود -بہت سے بہت "نوشتہ ء دیوار" پڑھ کر خود کو ٹھوکروں سے بچا لے گا مگر"نوشتہ ء پس ِ دیوار" کا کسے پتا،کسے خبر ، سو رہا ضعیف کا ضعیف -

محترمی سرور عالم راز اس شعر کا بھی جواب نہیں
جنوں کا سجدہ سر کوئے یار دیکھ لیا
سواد عقل و خرد بے وقار دیکھ لیا

آج کل عشق بھی ایک: پروپیگنڈا ٹول: بن گیا ہے، سواد عقل وخرد کو بے وقار کرنے کے لیے تاک تاک کے نشانہ بنایا جا رہا ہے ان لوگوں کو جو دین و ملّت کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں -
 

ارشد رشید

محفلین
- نوشتہ ء دیوار اور زبانوں میں بھی رائج اصطلاح ہے اور مخصوص معنوں میں استعمال ہوتی ہے جیسے غیبی خبریں اور وہ اٹل فیصلے یا رونما ہونے والے واقعات جن کا ہمیں بتادیا گیا ہے -شاعر نے اس اصطلاح میں خوبصورت تصرف کر کے اسے "نوشتہ ء پس ِ دیوار" کر دیا ہے
یاسر بھائی اتنی تفصیل سے سمجھانے کا بہت بہت شکریہ - مگر اگر ناراض نہ ہو تو عرض کروں کی یہ ساری تشریح آپ نے جس مفروضہ پر رکھی ہے وہ مفروضہ ہی غلط ہے -
نوشتہ دیوار یا راءٹنگ اون دا وا ل کا ہر گز بھی مطلب غیبی باتیں نہیں ہوتا - اسکے برعکس اسکا مطلب ہوتا ہے ظاہری باتیں - دنیا کی ہر زبان میں اس اصطلاح کا مطلب ہے سامنے کی بات ، جو سب کو بغیر بتائے بھی ، صاف نظر آ رہی ہو - جیسے آج کل کے حالات میں یہ کہنا کہ اگر انتخابات ہوئے تو عمران خان کی جیت نوشتہ دیوار ہے -
غیبی باتٰیں کسی دیوار پہ نہیں لکھی ہوتیں نہ ہی پس ِ دیوار لکھی ہوتی ہیں یہ کتابوں میں ہو تی ہیں - لہٰذا میرا اعتراض اپنی جگہ رہے گا کہ نوشتہ پس دیوار کوئی ترکیب نہیں بنتی بلکہ یہ ترکیب ہی غلط ہے اور اسی لیے آپ نے اسے پہلے کبھی نہیں پڑھا -
لیکن آپ چاہیں تو میرے اس تجزیہ کو رد کر سکتے ہیں - کوئئ مسئلہ نہیں -
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی اتنی تفصیل سے سمجھانے کا بہت بہت شکریہ - مگر اگر ناراض نہ ہو تو عرض کروں کی یہ ساری تشریح آپ نے جس مفروضہ پر رکھی ہے وہ مفروضہ ہی غلط ہے -
نوشتہ دیوار یا راءٹنگ اون دا وا ل کا ہر گز بھی مطلب غیبی باتیں نہیں ہوتا - اسکے برعکس اسکا مطلب ہوتا ہے ظاہری باتیں - دنیا کی ہر زبان میں اس اصطلاح کا مطلب ہے سامنے کی بات ، جو سب کو بغیر بتائے بھی ، صاف نظر آ رہی ہو - جیسے آج کل کے حالات میں یہ کہنا کہ اگر انتخابات ہوئے تو عمران خان کی جیت نوشتہ دیوار ہے -
غیبی باتٰیں کسی دیوار پہ نہیں لکھی ہوتیں نہ ہی پس ِ دیوار لکھی ہوتی ہیں یہ کتابوں میں ہو تی ہیں - لہٰذا میرا اعتراض اپنی جگہ رہے گا کہ نوشتہ پس دیوار کوئی ترکیب نہیں بنتی بلکہ یہ ترکیب ہی غلط ہے اور اسی لیے آپ نے اسے پہلے کبھی نہیں پڑھا -
لیکن آپ چاہیں تو میرے اس تجزیہ کو رد کر سکتے ہیں - کوئئ مسئلہ نہیں -
ارشد رشید بھائی یہ دیکھ لیں یہ مضمون مفید مطلب ثابت ہوگا۔اس اصطلاح کے ماخذ کے متعلق اچھی گفتگو ہے:
 

ارشد رشید

محفلین
ارشد رشید بھائی یہ دیکھ لیں یہ مضمون مفید مطلب ثابت ہوگا۔اس اصطلاح کے ماخذ کے متعلق اچھی گفتگو ہے:
جناب اچھا مضمون ہے اور اگر درست بھی ہے تب بھی نوشتہ دیوار غیب کی بات تو نہ ہوئ - یہ تو وہ بات ہوئ جو غیب سے عالمِ ظہور میں اگئی - جو بات دیوار پہ لکھ دی جائے چاہے کسی غیبی ہاتھ سے کیوں نہ ہو اب وہ بات غیب نہ رہی - اور اسی مضمون میں آگے پڑھیں تو اس میں بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح ان باتوں کے لیے ہی استعمال ہوتی ہیں جو اظہر من الشمس ہوں - میں اب بھی یہی رائے رکھوں گا -
 

یاسر شاہ

محفلین
جناب اچھا مضمون ہے اور اگر درست بھی ہے تب بھی نوشتہ دیوار غیب کی بات تو نہ ہوئ - یہ تو وہ بات ہوئ جو غیب سے عالمِ ظہور میں اگئی - جو بات دیوار پہ لکھ دی جائے چاہے کسی غیبی ہاتھ سے کیوں نہ ہو اب وہ بات غیب نہ رہی

بھائی ارشد آپ نے میرے اصل مراسلے کو غور سے پڑھا ہی نہیں ہے ابھی تک۔یہ دیکھیے:

نوشتہ ء دیوار اور زبانوں میں بھی رائج اصطلاح ہے اور مخصوص معنوں میں استعمال ہوتی ہے جیسے غیبی خبریں اور وہ اٹل فیصلے یا رونما ہونے والے واقعات جن کا ہمیں بتادیا گیا ہے
اول تو میں نے اس اصطلاح کے سارے معانی کا احاطہ نہیں کیا ،:جیسے: کے بعد نظم کے سیاق وسباق میں چند معانی لکھ دیے اور آخر میں صاف لکھا ہے :جن کا ہمیں بتا دیا گیا ہے: یعنی وہ غیبی خبریں جن کی ہمیں مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے آگاہی مل چکی ہے۔
آپ کےبعضے تبصرے بہت ہنساتے ہیں بالکل اس انگریز کی طرح جو دیہات آیا اور دیکھا کہ دیوار پہ گوبر لگا ہے، یہ دیہات میں عام معمول ہے ،تو کہنے لگا بھینس نے دیوار پہ چڑھ کر آخر کیسے یہ کاروائی کی ہوگی۔😊😊
 

ارشد رشید

محفلین
بھائی یاسر - میں نے آپ کے سب مراسلے غور سے پڑھے اور میں سمجھ گیا کہ آپ اس سے کیا مطلب سمجھتے ہیں میں اس سے اتفاق نہیں کر سکتا - بات اتنی ہے کہ میں غیبی خبروں کو نوشتہ دیوار نہیں سمجھ سکتا اور آپ ایسا ہی سمجھتے ہیں - تو ٹھیک ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے - میں نے کئئ بار یہ بات لکھی کہ آپ ایسا سمجھ سکتے ہیں میں نہیں سمجھتا اور اس سے کوئئ فرق نہیں پڑتا - یہ ضروری نہیں کہ ہر بحث کا نتیجہ یہ نکلے کہ اگلا قائل ضرور ہو - سر لکم دینکم ولی دین کے مصداق آپ وہ سمجھیں میں یہ سمجھتا ہوں - اس کو ایسے ہی رہنے دیں -
ہاں البتہ آپ کا لطیفہ پڑھ کر مجھے اتنا اندازہ ہوگیا کہ آپ مجھے کتنا جاہل سمجھتے ہیں -
 

یاسر شاہ

محفلین
ہاں البتہ آپ کا لطیفہ پڑھ کر مجھے اتنا اندازہ ہوگیا کہ آپ مجھے کتنا جاہل سمجھتے ہیں -
ارشد بھائی میں آپ کو جاہل نہیں سمجھتا اور نہ ہی وہ انگریز جاہل تھا بلکہ جس طرح وہ دیہات کی اصطلاحات سے واقف نہیں تھا آپ کو بھی شعری اصطلاحات سے آگہی بہت کم ہے ،محاورے ،ضرب الامثال وغیرہ اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوتےہیں لہذا یہ کہنا ہی بیکار ہے کہ دیوار پہ کون لکھتا ہے غیبی خبریں وہ تو کتابوں میں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ
یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور آپ کہنے لگیں بھئی تم جھوٹ بول رہے ہو میرے ہاتھ میں طوطے تھے ہی نہیں۔
 

ارشد رشید

محفلین
ارشد بھائی میں آپ کو جاہل نہیں سمجھتا اور نہ ہی وہ انگریز جاہل تھا بلکہ جس طرح وہ دیہات کی اصطلاحات سے واقف نہیں تھا آپ کو بھی شعری اصطلاحات سے آگہی بہت کم ہے ،محاورے ،ضرب الامثال وغیرہ اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوتےہیں لہذا یہ کہنا ہی بیکار ہے کہ دیوار پہ کون لکھتا ہے غیبی خبریں وہ تو کتابوں میں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ
یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور آپ کہنے لگیں بھئی تم جھوٹ بول رہے ہو میرے ہاتھ میں طوطے تھے ہی نہیں۔
سر رہنے دیں اس بحث کو یہیں تک -
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یاران ِ محفل ِ اردو: تسلیمات
اردو محفل میں آئے ہوئے مجھ کو کچھ زیادہ مدت نہیں ہوئی ہے۔چونکہ میرا ذوق و شوق اردو شعر و اَدب تک محدود ہے اس لئے میری سسرگرمیاں بھی محدود رہی ہیں۔ ہر کام کے لئے زندگی میں ایک دور یا وقت ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ میری دلچسپیاں محدود ضرور ہو گئی ہیں لیکن معدوم مطلق نہیں ہوئی ہیں۔ بفضلہ یہاں ایسے احباب کافی تعداد میں ہیں جو ادب و شعر سے وابستگی کی اہمیت سے واقف ہیں۔ البتہ یہ بات غور طلب ضرور ہے کہ احباب کی توجہ غزل کی جانب زیادہ مرکوز ہے۔ ایک آدھ آزاد نظم اور غزل معری دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا لیکن زیادہ توجہ اور زور غزل پر ہی ہے۔ نظم لکھنے کا روج اردو میں کم رہاہے اور فی زمانہ اور کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر کچھ دوست نظم گوئی کی بھی فکر کرتے۔ نظم کہنا غزل گوئی سے مختلف فن ہے اور اس کا اپنا حسن بھی ہے۔جن لوگوں نے علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے وہ اس حسن اور لطف سے بخوبی واقف ہیں۔ میں نے جو نظمیں کہی ہیں ان میں سے چیدہ چیدہ نظمیں یہاں پیش کررہا ہوں۔ میرا فطری رجحان تاثراتی منظومات کی جانب ہے۔ ایسی نظمیں زیادہ طویل نہیں ہوتی ہیں کیونکہ ان کے محرک تاثرات کی عمر ہی کم ہوتی ہے۔ چنانچہ ان نظموں کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے قاری کو کچھ زیادہ وقت ،توجہ اور جگر سوزی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گذارش ہے کہ اس پیشکش پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ آپ کی تنقید سے میری کوشش میں بہتری آجائے تو اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔ انشااللہ۔ آپ کی توجہ اور عنایات کا ممنون ہوں اوردعائے خیر کا طالب۔نظم :نوشتہء پسِ دیوار: ملاحظہ کیجئے۔
سرور عالم راز
=====================
نوشتہ ء پس ِ دیوار
( مال کی سیر کے چند تاثرات)
یہ رنگ و بو ، یہ نظارے، یہ بزم آرائی ====== نیازو ناز و ا ِدا ، حسن ، عشق، رعنائی
شباب و نظم و غزل در پئے شکیبائی ====== مجھے یہ ساعت گزراں کہاں پہ لے آئی
قرار دیکھ لیا ، اضطرار دیکھ لیا
غم حبیب، غم روزگار دیکھ لیا
اُ داس چہروں پہ اڑتا غبار دیکھ لیا
نوائے شوق کو بے اختیار دیکھ لیا
خزاں گزیدہ لباس ِ بہار دیکھ لیا
گماں دریدہ، یقیں تار تار دیکھ لیا
تمام عشوہ و حسن نگار دیکھ لیا
جنوں کا سجدہ سر کوئے یار دیکھ لیا
سواد عقل و خرد بے وقار دیکھ لیا
رہا نہ خود پہ بھی جب اعتبار دیکھ لیا
کبھی جو دیکھا نہ تھا، بار بار دیکھ لیا
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم ====== نوشتہ ء پس ِ دیوار کیا ہے،کیا معلوم!
====================
مکرمی جناب سرور بھائی !
آپ کی یہ مختصر نظم باصرہ نواز ہوئی اور اچھی لگی۔ اس کے لیے میری ناچیز داد و تحسین قبول کیجیے۔ نظم آپ کے خاص اسلوب کی حامل ہے۔ روایتی اور کلاسیکی شاعرانہ لفظیات اور پیرایۂ اظہار ہر ہر مصرع میں نمایاں ہے۔ نظم کے معنوی پہلو پر بات کرنے کی تو زیادہ گنجائش نہیں کہ نظم کا خیال نہایت صفائی اور خوبصورتی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ دنیا کی رنگارنگی کو دیکھ کر اس کی بے یقینی اور بے ثباتی کے بارے میں ایک جہاں دیدہ اور زندگی گزیدہ صاحبِ عرفان کے دل پر جو تاثرات ابھرتے ہیں ان کی عکاسی بہت مؤثر طور پرکی گئی ہے۔ البتہ اس نظم کے تکنیکی پہلو پر ضرور بات کی جاسکتی ہے۔ ایک بات جو نمایاں طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ چار خوبصورت مصرعوں سے نظم شروع کرنے کے بعد حقائقِ دنیا کی منظر کشی میں شاعر نے کسی خاص ترتیب اور ربط کو برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ بظاہر بے جوڑ عناصر کو بھی ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ "شباب و نظم و غزل در پئے شکیبائی" کے بعد والے گیارہ مصرعوں میں مختلف النوع مضامین کو بیان کیا گیا ہے۔ میری ناقص رائے میں ان گیارہ مصاریع کی ترتیب کو ادل بدل کر کچھ ربط پیدا کرنے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔ مثلاً حسن و عشق کے تلازمات والے تمام مصرعے (عشوہ و حسنِ نگار اور نوائےشوق وغیرہ) اگر قرار اور اضطرار والے مصرع کے بعد رکھے جاتے تو بہتر تھا تاکہ ایک مضمون سے متعلق بات ایک تسلسل کے ساتھ مکمل ہوجاتی۔ اسی طرح غمِ روزگار اور غمِ جہاں سے متعلقہ مصرعے بھی ایک ساتھ رکھے جاسکتے تھے۔
ایک اور بات جو معروف سے ہٹ کر نظر آتی ہے وہ نظم کے درمیان میں گیارہ مصاریع کا ہم قافیہ و ردیف ہونا ہے۔ ایک ہی آہنگ کی اس قدر تکرار ذرایکسانیت پیدا کررہی ہے۔ اردو کی مروجہ شعری اصناف میں ایک ہی ردیف و قافیے کی تکرار چار متواتر مصرعوں سے زیادہ نہیں ملتی اور اس کی وجہ غالباً یہی نظر آتی ہے کہ اس سے زیادہ تکرار خوبصورتی کے بجائے یکسانیت کو جنم دیتی ہے۔ میری ادنیٰ اور ناقص رائے میں ردیف قافیے کی تکرار اگر ایک خاص وقفے کے بعد ہو تو آہنگ بہتر معلوم ہوتا ہے۔
چوتھے مصرع میں ساعتِ گزراں کا تلفظ محلِ نظر ہے۔ گزراں کا درست اور فصیح تلفظ تو بروزن فعِلن یعنی بفتح دوم ہے اور یہی تلفظ فارسی اور اردو شاعری میں مستعمل ہے ۔لیکن اب یہ لفظ بروزن فعلن یعنی بسکون دوم بھی شعرا کے ہاں استعمال ہو نے لگا ہے۔ فیض نے ایک سے زیادہ بار یہی تلفظ اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اسے برقرار رکھنے میں مضائقہ نہیں۔
ان تمام معمولی پہلوؤں سے قطع نظر نظم مجموعی طور پر بہت خیال انگیزہے۔ اس کا اختتام بہت خوب ہے اور آخری شعر گویا نظم میں پیش کیے گئے حقائق سے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے اور قاری کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ نوشتۂ پسِ دیوار کی ترکیب نہایت خوب اور برمحل ہے۔اردو کی شعری تراکیب میں اضافہ ہے ۔
 
Top