ایک نظم حاضر ہے ، '' بال''

بال

وہی موسم ہے، بارش ہے، مگر چاہت نہیں باقی
وہی ہیٹر لگا کمرہ، مگر راحت نہیں باقی

الجھ بیٹھے تھے ہم دونو، ذرا سی بات کو لے کر
لڑائی ہو گئی تھی سرد پھیلی رات کو لے کر

مری منطق مطابق، رات سردی کی نہیں اچھی
ترا کہنا، سہانی سرد راتیں ہیں کہیں اچھی

وہی میں سوچتا ہوں بال ڈالا، بات چھوٹی نے
الگ کرنے کو شائد جال ڈالا، بات چھوٹی نے

برابر بال کے جو فرق آنکھوں میں سمایا ہے
کئی قربانیاں لے کر بھی اس نے آزمایا ہے

یہی تھا بال سا جس نے محبت تار کر دی تھی
دسمبر کا مہینہ تھا، ہماری ہار کر دی تھی

ہمارے درمیاں جو بال ہے کیا وہ مٹائے گی
دسمبر لوٹ بھی آیا، محبت لوٹ پائے گی
 

الف عین

لائبریرین
کچھ مشورے
مری منطق مطابق، رات سردی کی نہیں اچھی‘ میں منطق کے مطابق ہونا چاہئے، اس کو یوں کیا جا سکتا ہے
مرا یہ ادعا تھا، رات سردی کی نہیں اچھی
وہی میں سوچتا ہوں بال ڈالا، بات چھوٹی نے
الگ کرنے کو شائد جال ڈالا، بات چھوٹی نے
بات چھوٹی نے؟؟؟ غلط محاورہ ہے، ’چھوٹی بات نے‘ تو ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ محض ’بال ڈالا‘ بھی کوئی محاورہ نہیں، دل میں بال ڈالا، محبت کے شیشے میں بال ڈالا وغیرہ کی ضرورت ہے یہاں۔ اس شعر کو پھر کہو۔
سولات پیدا ہوتے ہیں:
برابر بال کے جو فرق آنکھوں میں سمایا ہے
کئی قربانیاں لے کر بھی اس نے آزمایا ہے
کیسی قربانیاں؟ لیا آزمانا؟

یہی تھا بال سا جس نے محبت تار کر دی تھی
دسمبر کا مہینہ تھا، ہماری ہار کر دی تھی
ہماری ہار!! کیا مطلب، کس کھیل یا جنگ میں؟

ہمارے درمیاں جو بال ہے کیا وہ مٹائے گی
دسمبر لوٹ بھی آیا، محبت لوٹ پائے گی
کون مٹائے گی؟ اگر اسی میں بال پڑے گا تو وہ اس قابل کہاں کہ اس کو جوڑ سکے!!
دوسرے مصرع کو سوالیہ ہونا تھا۔ ’کیا محبت لوٹ پائے گی؟‘
 
Top