ایک نظم جھنجھلاہٹ۔۔ Frustration اصلاح کے لئے

ایک نظم جس کا عنوان ہے
جھنجھلاہٹ۔۔ Frustration
اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔
بحر ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔
اس نظم میں انسانی جھنجھلاہٹ اور بے بسی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔خالی ذہن کیسے عجیب خیالوں کو نہ صرف جگہہ دیتا ہے بلکہ انھیں کہاں کہاں تک لے جاتا ہے۔ اور اس مخلوق یعنی انسان کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اس سے کیا کیا دعوے کروا سکتی ہے۔:)
آئیے دیکھتے ہیں۔:p
*******............********............********
میں جھنجھلا کر یہ اکثر سوچتا ہوں ایسا ممکن ہے
یہ اپنی بے بسی صغریٰ قیامت میں بدل ڈالوں

کشش حاوی زمیں پر ہے ، تو جاؤں میں خلاؤں میں
وہاں سے ڈال کر رسی ، میں دنیا کھینچ لے جاؤں
گھما کر اپنے سر پر زور سے یا اِس کو دوں گردش
میں نیلے آسماں کا کانچ توڑوں، اُس کو بکھراؤں
وہ سورج اتنا روشن بھی نہیں، جتنا وہ لگتا ہے
میں چاہوں تو تمازت ہاتھ رکھ کر اس کی گہناؤں
یہ سب لگتا ہے جتنا، اتنا مستحکم نہیں شاید
نظام شمسی میں ٹھوکر سے برپا کھلبلی کر دوں
جگہ اس چاند کی بدلوں، یہ سورج تھوڑا سرکاؤں
گھماکر دیر تک دنیا کو الٹا، وقت لوٹا دوں
خیالوں میں یہ سب کر کے، جرح کرتا ہوں میں خود سے
کروں ایسا تو یہ امکان شاید سچ بھی ہو جائے
پرانے ڈھرّے پر چلتی ہوئی فرسودہ دنیا میں
نئے اوقات ہوں دن کے ،نئی طرز پزیرائی
نئے انداز سے دنیا کا کاروبار چلتا ہو
اگر ایسا کروں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ زائچے
بنیں پھر سے نئے سب کے، نئی قسمت لکھی جائے
نئے انسان پیدا ہوں نئی فطرت کے مظہر ہوں
میں مخلوقات میں "اشرف" ہوں، ایسا کر بھی سکتا ہوں
میں اکثر سوچتا ہوں، "ہاں کسی دن یہ تو ممکن ہے!"


سیّد کاشف
*******............********............********
آپ سب احباب کے تبصروں کا منتظر رہونگا۔
شکریہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مزے کی نظم ہے۔
گھما کر اپنے سر پر زور سے یا اِس کو دوں گردش
یا کا استعمال سمجھ میں نہیں آیا۔’یوں‘ بہتر ہو گا۔

میں چاہوں تو تمازت ہاتھ رکھ کر اس کی گہناؤں
تمازت؟ یہاں تو محض نور کا ذکر ہونا تھا، حدت کا نہیں۔

کروں ایسا تو یہ امکان شاید سچ بھی ہو جائے
یہ تو صرف سوچا جا رہا ہے، کروں ایسا ‘ کا کیا محل ہے؟

اگر ایسا کروں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ زائچے
زائچے کا تلفظ ’زائے چے‘ باندھا گیا ہے، جو درست نہیں۔
باقی شاید درست ہی ہے۔
 
جواب اقتباس میں موجود ہے۔
مزے کی نظم ہے۔
گھما کر اپنے سر پر زور سے یا اِس کو دوں گردش
یا کا استعمال سمجھ میں نہیں آیا۔’یوں‘ بہتر ہو گا۔
۔ بہت بہتر سر
میں چاہوں تو تمازت ہاتھ رکھ کر اس کی گہناؤں
تمازت؟ یہاں تو محض نور کا ذکر ہونا تھا، حدت کا نہیں۔
سورج میں تو تمازت ہی ہوگی نا سر؟ نور کا ذکر کچھ بے محل نہیں ہوگا۔
یا کچھ اور کیا جائے۔

کروں ایسا تو یہ امکان شاید سچ بھی ہو جائے
یہ تو صرف سوچا جا رہا ہے، کروں ایسا ‘ کا کیا محل ہے؟
۔بہتر سر ۔۔۔ کچھ اور دیکھتا ہوں

اگر ایسا کروں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ زائچے
زائچے کا تلفظ ’زائے چے‘ باندھا گیا ہے، جو درست نہیں۔
زائچے کے بابت فیروزالغات سے:
زائچہ ۔ (زا-اِ-چہَ) جنم پترا، کنڈلی
شاید درست تلفظ باندھا ہے سر؟
باقی شاید درست ہی ہے۔
 
آخری تدوین:
اب اس نظم کو پڑھ کر مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میں نے اسے جلدی ختم کر دیا ہے اور اس میں اسلوب و مضامین کی گنجائش نکل سکتی ہے.
کیا میں صحیح سمت میں سوچ رہا ہوں یا پھر ایسے ہی ٹھیک ہے؟
احباب سے مشوروں اور رہنمائی کی گزارش ہے.
ٹیگ نامہ
راحیل فاروق
محمد وارث
سید عاطف علی
ادب دوست
ظہیراحمدظہیر
سید اسد معروف
 
آخری تدوین:
بہت خوب کاشف بھائی۔ لگتا ہے آپ کو بھی کبھی کبھی غّصہ آتا ہے۔
یہ نظم واقعی اس وقت کی صحیح ترجمانی کر رہی ہے جب انسان حالات کی وجہ سے کوفت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ اس میں مزید اضافہ کے لیے گنجائش موجود ہے۔ بہت سی داد آپ کے لیے۔
 
بہت خوب کاشف بھائی۔ لگتا ہے آپ کو بھی کبھی کبھی غّصہ آتا ہے۔
یہ نظم واقعی اس وقت کی صحیح ترجمانی کر رہی ہے جب انسان حالات کی وجہ سے کوفت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ اس میں مزید اضافہ کے لیے گنجائش موجود ہے۔ بہت سی داد آپ کے لیے۔
شکریہ اسد بھائی۔ نوازش
 
Top