ایک نظم برائے اصلاح'' پتی پھول کی '' از محمد اظہر نزیر

پتی پھول کی


پھر تو دیکھا نہ گیا، پھول بکھرتا مجھ سے
خوف پتی کےدُکھے قلب، اُترتا مجھ سے
جب سے پُر خار سی دیکھی ہے گزرگاہ میں نے
درد گلشن کا، خزاؤں سے گذرتا مجھ سے

وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
پر درندوں نے جلا ڈالی حزینہ کیسی
وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی سنگ لیکن
ہم نے مسکین جلا ڈالی پتی بن ویسی

خوف سے کانپتی وہ رات کو گھر آئی تھی
اک درندے کی ہوسناکی کو ٹھکرآئی تھی
لا کے تیزاب جلا ڈالا اُسے قاتل نے
جگ میں عریاں کہ وہ بد ذات کو کر آئی تھی


قرض پے کھیل جوا رات گئے گھر آیا
وہ شرافت کو نفاست کو پرے دھر آیا
ایک لحظہ بھی نہ سوچا کہ وہ پنچایت میں
اپنی ہی جان کو بیٹی کو ونی کر آیا

تیرا سب گھر جو چلاتی تھی وہی ناری ہے
کیسا یہ دن ہے کہ اس ذات پہ اب بھاری ہے
کس گنہ کی تو سزا دے گا اسے‘ بول ذرا
بدچلن خود ہے تو پھر ٹھہری وہ کیوں کاری ہے
 

الف عین

لائبریرین
یہ مصرعے سمجھ میں نہیں آئے
درد گلشن کا، خزاؤں سے گذرتا مجھ سے

پر درندوں نے جلا ڈالی حزینہ کیسی

ہم نے مسکین جلا ڈالی پتی بن ویسی
اور
وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی سنگ لیکن
میں ’سنگ‘ محض سن‘ وزن میں آ رہا ہے، گاف ساقط ہے۔ یہ غلط ہے۔
آخری بند میں قوافی غلاط ہیں، ٹھکرائی اور کر آئی قوافی پر غور کرو۔
باقی بعد میں
 
محتم اُستاد،

درد گلشن کا، خزاؤں سے گذرتا مجھ سے
گویا گلشن کا وہ درد جبکہ گلشن خزاں سے گذر رہا ہو اور پھول پتے سب بکھر چکے ہوں

پر درندوں نے جلا ڈالی حزینہ کیسی
گویا درندوں نے وہ غمذدہ عورت جلا ڈالی تھی

ہم نے مسکین جلا ڈالی پتی بن ویسی
ہندو پتنی کو پتی کے ساتھ جلاتے تھے، مگر ہم نے تو حد ہی کر دی کے اُسے اکیلے ہی جلا ڈالا

وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی سنگ لیکن
تبدیل کر دیتے ہیں
وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی کے ہمراہ

آخری بند میں قوافی غلاط ہیں، ٹھکرائی اور کر آئی قوافی پر غور کرو۔
معذرت کے میں سمجھ نہیں سکا



پتی پھول کی


پھر تو دیکھا نہ گیا، پھول بکھرتا مجھ سے
خوف پتی کےدُکھے قلب، اُترتا مجھ سے
جب سے پُر خار سی دیکھی ہے گزرگاہ میں نے
درد گلشن کا، خزاؤں سے گذرتا مجھ سے

وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
پر درندوں نے جلا ڈالی حزینہ کیسی
وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی کے ہمراہ
ہم نے مسکین جلا ڈالی پتی بن ویسی

خوف سے کانپتی وہ رات کو گھر آئی تھی
اک درندے کی ہوسناکی کو ٹھکرآئی تھی
لا کے تیزاب جلا ڈالا اُسے قاتل نے
جگ میں عریاں کہ وہ بد ذات کو کر آئی تھی


قرض پے کھیل جوا رات گئے گھر آیا
وہ شرافت کو نفاست کو پرے دھر آیا
ایک لحظہ بھی نہ سوچا کہ وہ پنچایت میں
اپنی ہی جان کو بیٹی کو ونی کر آیا

تیرا سب گھر جو چلاتی تھی وہی ناری ہے
کیسا یہ دن ہے کہ اس ذات پہ اب بھاری ہے
کس گنہ کی تو سزا دے گا اسے‘ بول ذرا
بدچلن خود ہے تو پھر ٹھہری وہ کیوں کاری ہے
 
ایک نظم برائے اصلاح'' پتی پھول کی '' از محمد اظہر نزیر
معذرت خواہ ہوں، پتہ نہیں مجھے دخل در معقولات کا حق ہے بھی کہ نہیں۔ آ ہی گیا ہوں تو کچھ عرض بھی کرتا چلوں۔

معذرت مزید، آپ کو یاد ہو گا، میں نے پہلے بھی ”نزیر“ کے ہجے درست یعنی ”نذیر“ لکھنے کی درخواست کی تھی۔ آپ سے شاید پھر فروگزاشت ہو گئی۔ گزاشت سے یاد آیا، فیس بک پر ایک بحث میں سب سنار اپنی اپنی مارتے رہے، پر اختتام محمد وارث صاحب نے ایک لوہار کی سے کیا تھا۔ بارے پھر انہی سے راہنمائی کا طلبگار ہوں کہ حافظہ کچھ پیچھے رہ رہا ہے۔ ذال، زے پر وہ بحث میں نے محفوظ بھی کی تھی مگر یہاں وہ والی ہارڈ ڈِسک اس وقت منسلک نہیں ہے۔


پتی پھول کی
نظم کی ہئیت جو بھی ہو، اُس میں موضوع کے حوالے سے ایک منطقی تسلسل ہونا چاہئے۔ ایک نظم میں ایک ہی موضوع ہو تو یہ تقاضا بڑھ جاتا ہے، جب کہ کثیرالموضوعاتی نظم میں شاعر کو کچھ سہولتِ اختیار مل جاتی ہے۔ یہ نظم یک موضوعی ہے، سو آپ کو یہاں وہ سہولت نہیں مل سکتی۔

پھر تو دیکھا نہ گیا، پھول بکھرتا مجھ سے
یہاں فنی گرفت بہت کمزور ہے۔ یہ نظم کا ابتدائیہ ہے مگر اس کا اسلوب اختتامیہ کا سا ہے۔ آئندہ مصرعوں کو ذہن میں رکھیں تو وہ پھول تو کب کا بکھر چکا، یہاں ”بکھرتا“ کا محل نہیں بنتا۔

خوف پتی کےدُکھے قلب، اُترتا مجھ سے
آپ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں <کہ پھول کی پتی کا درد مجھے اپنے دل میں اترتا محسوس ہوا؟> شعر، مصرعے میں الفاظ کی نشست و برخاست کو بدل دیتے ہیں اور کچھ حذف اور حک سے بھی کام لیا جاتا ہے کہ نثر کو مطلوبہ وزن میں ڈھالا جا سکے۔ تاہم یہ تبدل، حذف اور حک ایسا نہ ہو کہ الفاظ اپنا مفہوم کھو دیں یا غیرمقصود مفہوم در آئے۔ مصرع کو ”لفظ مچولی“ بنانا مقصود نہیں ہوتا، مقصودِ اصلی تو ابلاغ ہے۔ الفاظ کو مقصود کے ماتحت رہنا چاہئے۔

جب سے پُر خار سی دیکھی ہے گزرگاہ میں نے
اس مصرع میں لفظ ”سی“ لگتا ہے پاسنگ کے طور پر لایا گیا ہے۔ ورنہ گزرگاہ کا پرخار ہونا کافی ہے، پرخار سی ہونا کیا ہوا؟ عروضی صحت کے لئے یہاں آپ ”گزرگہ“ لائیں، اس میں کوئی تفاوت نہیں، نہ لفظی نہ معنوی۔ بلکہ اس سے عروضی اِشکال ختم ہو جائے گا

درد گلشن کا، خزاؤں سے گذرتا مجھ سے
یہاں ردیف ”مجھ سے“ معاناً قطعی ناموزوں ہے۔ آپ کے ہاں مجھے کم سے کم لفظ استعمال کرنے کا رجحان نظر آتا ہے۔ جو یقیناً مستحسن ہے اگر ایہام یا ابہام پیدا نہ ہو، یا بات نامکمل نہ رہ جائے۔ یہی اختصارِ الفاظ اگر موعودہ مفہوم کے ابلاغ سے قاصر ہو تو اس سے گریز لازم ہے۔

وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
پر درندوں نے جلا ڈالی حزینہ کیسی
یہاں تلازموں اور علامات میں عدم تعلق ہے۔ نازک، پھول، پتی، جلا ڈالا ۔۔۔ درندہ کی بجائے یہاں آگ، خزاں، لُو مناسب تلازمہ ہوتا۔ درندہ کے ساتھ دریدن، دانت گاڑنا، جبڑے اور اس کے ساتھ رعایتِ لفظی کے طور پر جبر لایا جا سکتا تھا، ایسی صورت میں پھول پتی کی بجائے، غزال وغیرہ موزوں ہوتا۔

وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی کے ہمراہ
ہم نے مسکین جلا ڈالی پتی بن ویسی
ستی کرنا، بات سمجھ میں آتی ہے اور ودھوا ہوئے بنا ستی کیا جانا بہت اعلٰی مضمون بنتا مگر الفاظ نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے پہلے دونوں مصرعوں کے ساتھ لسانی اور تلازماتی رابطہ کمزور رہ گیا۔ لفظ مسکین اس پورے ماحول میں اجنبی لگ رہا ہے، یہاں ”بے چاری“ بہتر تاثر دے سکتا تھا۔

خوف سے کانپتی وہ رات کو گھر آئی تھی
اک درندے کی ہوسناکی کو ٹھکرآئی تھی
دوسرا مصرع غرابتِ لفظی کا شکار ہو گیا ہے۔ ترکیب ”ہوسناکی“ تو چلئے کسی حد تک قابلِ قبول ہے مگر یہ ”ٹھکرآئی“ تو دو الفاظ کو مدغم کر کے کوئی ایسا لفظ بنانے کی کوشش دکھائی دیتی ہے جسے انگریزی لسانیات میں ایکرونیم کہا جاتا ہے۔

لا کے تیزاب جلا ڈالا اُسے قاتل نے
جگ میں عریاں کہ وہ بد ذات کو کر آئی تھی
یہاں شدید ابہام ہے، قاتل کون ہے؟ جس کو وہ ٹھکرا آئی تھی یا جو گھر میں اس کا رکھوالا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے مصرعے میں ”کہ“ غالباً ”کیونکہ“ کے معانی میں آیا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کا مقام غلط ہے اسے یا تو مصرع کے شروع میں لاتے یا حذف کر دیتے۔ مسئلہ یہاں بھی وہی لگتا ہے کہ واقعہ کو اتنے تھوڑے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی کہ ابہام پیدا ہو گیا۔ عریاں کون بد ذات ہوا؟ وہ اور قاتل کیا وہی ہے تو پھر ”کر آئی تھی“ کا کیا جواز ہے؟ نظم میں گنجائش ہوتی ہے کہ آپ جہاں ایسی تنگی محسوس کریں ایک دو چار مصرعے ڈال کر اس کو فراخ کر لیں۔

قرض پے کھیل جوا رات گئے گھر آیا
وہ شرافت کو نفاست کو پرے دھر آیا
قرض پہ، نہ کہ قرض پے، یہ تو لسانی مسئلہ ہوا۔ کھیل جوا یعنی جوا کھیل کر؟ تو پھر اس کو کھیلا جوا لکھیں کہ تقاضا بھی یہی ہے۔ ”پرے دھر آیا“ قافیے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بیان کو کمزور کر دیا آپ نے یہاں۔

ایک لحظہ بھی نہ سوچا کہ وہ پنچایت میں
اپنی ہی جان کو بیٹی کو ونی کر آیا
کیا جوا کھیلنے والوں کی ٹیم کو پنچایت کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یا یہ ہے کہ وہ جوے میں بیٹی ہار آیا، بات پنچایت میں گئی اور پنچایت نے اسے ونی کرنے پر مجبور کر دیا؟ دوسرے مصرعے میں ”جان“ سے زیادہ غیرت کا معاملہ ہے، لفظ ”آن“ کے بارے میں سوچئے گا۔ اس پورے سیاق و سباق میں ایک لحظہ بھی نہ سوچا کی بجائے اگر قطعاً نہ سوچا کا مفہوم ہو تو بات بہتر طور پر بیان ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

تیرا سب گھر جو چلاتی تھی وہی ناری ہے
کیسا یہ دن ہے کہ اس ذات پہ اب بھاری ہے
ناری کا لفظ معناً تو کسی بھی عورت کے لئے ہو سکتا ہے، تاہم اس نظم کے پیش منظر میں، اور خاص طور پر اس بند میں ناری کا مفہوم جورو نکلتا ہے، اوپر بیٹی کا ذکر ہے۔ یہ بات قاری کو الجھا دیتی ہے۔ گھر چلاتی تھی، اور وہی ناری ہے، جب اس کو تیل چھڑک کر جلا دیا تو یہ ہے بھی تھی میں بدل جانی چاہئے۔ اس پر بھی توجہ دیجئے گا۔

کس گنہ کی تو سزا دے گا اسے‘ بول ذرا
بدچلن خود ہے تو پھر ٹھہری وہ کیوں کاری ہے
تو گویا ابھی اس ناری کو سزا ملنی ہے؟ اور سزا وہ دے گا؟ یہ نظم واقعاتی طور پر عدم موافقت کا شکار ہو گئی ہے۔ ”بول ذرا“ میں جو چیلنج درکار تھا وہ نہیں آ پایا۔ یہاں یا تو اس تخاطب میں قوت پیدا کریں یا کوئی دوسرا تخاطب لے آئیں، مثلاً اے ظالم، او بدذات، اے بد بخت وغیرہ۔


مجموعی طور پر یہ نظم کہنے کی ایک کوشش ہے۔ بارِ دگر کوشش کیجئے، ایک اچھی نظم بن سکتی ہے۔ یہاں ایک موٹی سی بات عرض کر دوں کہ شعر محض ہم وزن سطروں کا نام نہیں، اس میں احساس، اظہار، فن، ابلاغ اور دیگر عناصر بہت اہم ہیں۔ اردو محفل پر میرا ایک مضمون چل رہا ہے ”شاعری کیا ہے“۔ کسی وقت اسے ایک نظر دیکھ لیجئے گا۔

معذرت خواہ ہوں مگر جو کچھ عرض کیا ہے، ضروری سمجھ کر عرض کیا ہے۔ کڑوی دوائی سمجھ لیجے گا۔
 
ایک نظم برائے اصلاح'' پتی پھول کی '' از محمد اظہر نزیر
معذرت خواہ ہوں، پتہ نہیں مجھے دخل در معقولات کا حق ہے بھی کہ نہیں۔ آ ہی گیا ہوں تو کچھ عرض بھی کرتا چلوں۔

معذرت مزید، آپ کو یاد ہو گا، میں نے پہلے بھی ”نزیر“ کے ہجے درست یعنی ”نذیر“ لکھنے کی درخواست کی تھی۔ آپ سے شاید پھر فروگزاشت ہو گئی۔ گزاشت سے یاد آیا، فیس بک پر ایک بحث میں سب سنار اپنی اپنی مارتے رہے، پر اختتام محمد وارث صاحب نے ایک لوہار کی سے کیا تھا۔ بارے پھر انہی سے راہنمائی کا طلبگار ہوں کہ حافظہ کچھ پیچھے رہ رہا ہے۔ ذال، زے پر وہ بحث میں نے محفوظ بھی کی تھی مگر یہاں وہ والی ہارڈ ڈِسک اس وقت منسلک نہیں ہے۔


پتی پھول کی
نظم کی ہئیت جو بھی ہو، اُس میں موضوع کے حوالے سے ایک منطقی تسلسل ہونا چاہئے۔ ایک نظم میں ایک ہی موضوع ہو تو یہ تقاضا بڑھ جاتا ہے، جب کہ کثیرالموضوعاتی نظم میں شاعر کو کچھ سہولتِ اختیار مل جاتی ہے۔ یہ نظم یک موضوعی ہے، سو آپ کو یہاں وہ سہولت نہیں مل سکتی۔

پھر تو دیکھا نہ گیا، پھول بکھرتا مجھ سے
یہاں فنی گرفت بہت کمزور ہے۔ یہ نظم کا ابتدائیہ ہے مگر اس کا اسلوب اختتامیہ کا سا ہے۔ آئندہ مصرعوں کو ذہن میں رکھیں تو وہ پھول تو کب کا بکھر چکا، یہاں ”بکھرتا“ کا محل نہیں بنتا۔

خوف پتی کےدُکھے قلب، اُترتا مجھ سے
آپ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں <کہ پھول کی پتی کا درد مجھے اپنے دل میں اترتا محسوس ہوا؟> شعر، مصرعے میں الفاظ کی نشست و برخاست کو بدل دیتے ہیں اور کچھ حذف اور حک سے بھی کام لیا جاتا ہے کہ نثر کو مطلوبہ وزن میں ڈھالا جا سکے۔ تاہم یہ تبدل، حذف اور حک ایسا نہ ہو کہ الفاظ اپنا مفہوم کھو دیں یا غیرمقصود مفہوم در آئے۔ مصرع کو ”لفظ مچولی“ بنانا مقصود نہیں ہوتا، مقصودِ اصلی تو ابلاغ ہے۔ الفاظ کو مقصود کے ماتحت رہنا چاہئے۔

جب سے پُر خار سی دیکھی ہے گزرگاہ میں نے
اس مصرع میں لفظ ”سی“ لگتا ہے پاسنگ کے طور پر لایا گیا ہے۔ ورنہ گزرگاہ کا پرخار ہونا کافی ہے، پرخار سی ہونا کیا ہوا؟ عروضی صحت کے لئے یہاں آپ ”گزرگہ“ لائیں، اس میں کوئی تفاوت نہیں، نہ لفظی نہ معنوی۔ بلکہ اس سے عروضی اِشکال ختم ہو جائے گا

درد گلشن کا، خزاؤں سے گذرتا مجھ سے
یہاں ردیف ”مجھ سے“ معاناً قطعی ناموزوں ہے۔ آپ کے ہاں مجھے کم سے کم لفظ استعمال کرنے کا رجحان نظر آتا ہے۔ جو یقیناً مستحسن ہے اگر ایہام یا ابہام پیدا نہ ہو، یا بات نامکمل نہ رہ جائے۔ یہی اختصارِ الفاظ اگر موعودہ مفہوم کے ابلاغ سے قاصر ہو تو اس سے گریز لازم ہے۔

وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
پر درندوں نے جلا ڈالی حزینہ کیسی
یہاں تلازموں اور علامات میں عدم تعلق ہے۔ نازک، پھول، پتی، جلا ڈالا ۔۔۔ درندہ کی بجائے یہاں آگ، خزاں، لُو مناسب تلازمہ ہوتا۔ درندہ کے ساتھ دریدن، دانت گاڑنا، جبڑے اور اس کے ساتھ رعایتِ لفظی کے طور پر جبر لایا جا سکتا تھا، ایسی صورت میں پھول پتی کی بجائے، غزال وغیرہ موزوں ہوتا۔

وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی کے ہمراہ
ہم نے مسکین جلا ڈالی پتی بن ویسی
ستی کرنا، بات سمجھ میں آتی ہے اور ودھوا ہوئے بنا ستی کیا جانا بہت اعلٰی مضمون بنتا مگر الفاظ نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے پہلے دونوں مصرعوں کے ساتھ لسانی اور تلازماتی رابطہ کمزور رہ گیا۔ لفظ مسکین اس پورے ماحول میں اجنبی لگ رہا ہے، یہاں ”بے چاری“ بہتر تاثر دے سکتا تھا۔

خوف سے کانپتی وہ رات کو گھر آئی تھی
اک درندے کی ہوسناکی کو ٹھکرآئی تھی
دوسرا مصرع غرابتِ لفظی کا شکار ہو گیا ہے۔ ترکیب ”ہوسناکی“ تو چلئے کسی حد تک قابلِ قبول ہے مگر یہ ”ٹھکرآئی“ تو دو الفاظ کو مدغم کر کے کوئی ایسا لفظ بنانے کی کوشش دکھائی دیتی ہے جسے انگریزی لسانیات میں ایکرونیم کہا جاتا ہے۔

لا کے تیزاب جلا ڈالا اُسے قاتل نے
جگ میں عریاں کہ وہ بد ذات کو کر آئی تھی
یہاں شدید ابہام ہے، قاتل کون ہے؟ جس کو وہ ٹھکرا آئی تھی یا جو گھر میں اس کا رکھوالا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے مصرعے میں ”کہ“ غالباً ”کیونکہ“ کے معانی میں آیا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کا مقام غلط ہے اسے یا تو مصرع کے شروع میں لاتے یا حذف کر دیتے۔ مسئلہ یہاں بھی وہی لگتا ہے کہ واقعہ کو اتنے تھوڑے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی کہ ابہام پیدا ہو گیا۔ عریاں کون بد ذات ہوا؟ وہ اور قاتل کیا وہی ہے تو پھر ”کر آئی تھی“ کا کیا جواز ہے؟ نظم میں گنجائش ہوتی ہے کہ آپ جہاں ایسی تنگی محسوس کریں ایک دو چار مصرعے ڈال کر اس کو فراخ کر لیں۔

قرض پے کھیل جوا رات گئے گھر آیا
وہ شرافت کو نفاست کو پرے دھر آیا
قرض پہ، نہ کہ قرض پے، یہ تو لسانی مسئلہ ہوا۔ کھیل جوا یعنی جوا کھیل کر؟ تو پھر اس کو کھیلا جوا لکھیں کہ تقاضا بھی یہی ہے۔ ”پرے دھر آیا“ قافیے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بیان کو کمزور کر دیا آپ نے یہاں۔

ایک لحظہ بھی نہ سوچا کہ وہ پنچایت میں
اپنی ہی جان کو بیٹی کو ونی کر آیا
کیا جوا کھیلنے والوں کی ٹیم کو پنچایت کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یا یہ ہے کہ وہ جوے میں بیٹی ہار آیا، بات پنچایت میں گئی اور پنچایت نے اسے ونی کرنے پر مجبور کر دیا؟ دوسرے مصرعے میں ”جان“ سے زیادہ غیرت کا معاملہ ہے، لفظ ”آن“ کے بارے میں سوچئے گا۔ اس پورے سیاق و سباق میں ایک لحظہ بھی نہ سوچا کی بجائے اگر قطعاً نہ سوچا کا مفہوم ہو تو بات بہتر طور پر بیان ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

تیرا سب گھر جو چلاتی تھی وہی ناری ہے
کیسا یہ دن ہے کہ اس ذات پہ اب بھاری ہے
ناری کا لفظ معناً تو کسی بھی عورت کے لئے ہو سکتا ہے، تاہم اس نظم کے پیش منظر میں، اور خاص طور پر اس بند میں ناری کا مفہوم جورو نکلتا ہے، اوپر بیٹی کا ذکر ہے۔ یہ بات قاری کو الجھا دیتی ہے۔ گھر چلاتی تھی، اور وہی ناری ہے، جب اس کو تیل چھڑک کر جلا دیا تو یہ ہے بھی تھی میں بدل جانی چاہئے۔ اس پر بھی توجہ دیجئے گا۔

کس گنہ کی تو سزا دے گا اسے‘ بول ذرا
بدچلن خود ہے تو پھر ٹھہری وہ کیوں کاری ہے
تو گویا ابھی اس ناری کو سزا ملنی ہے؟ اور سزا وہ دے گا؟ یہ نظم واقعاتی طور پر عدم موافقت کا شکار ہو گئی ہے۔ ”بول ذرا“ میں جو چیلنج درکار تھا وہ نہیں آ پایا۔ یہاں یا تو اس تخاطب میں قوت پیدا کریں یا کوئی دوسرا تخاطب لے آئیں، مثلاً اے ظالم، او بدذات، اے بد بخت وغیرہ۔


مجموعی طور پر یہ نظم کہنے کی ایک کوشش ہے۔ بارِ دگر کوشش کیجئے، ایک اچھی نظم بن سکتی ہے۔ یہاں ایک موٹی سی بات عرض کر دوں کہ شعر محض ہم وزن سطروں کا نام نہیں، اس میں احساس، اظہار، فن، ابلاغ اور دیگر عناصر بہت اہم ہیں۔ اردو محفل پر میرا ایک مضمون چل رہا ہے ”شاعری کیا ہے“۔ کسی وقت اسے ایک نظر دیکھ لیجئے گا۔

معذرت خواہ ہوں مگر جو کچھ عرض کیا ہے، ضروری سمجھ کر عرض کیا ہے۔ کڑوی دوائی سمجھ لیجے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
جزاک اللہ خیراً آسی صاحب۔ میں تو عرصے سے چاہ رہا تھا کہ آپ یہاں میری مدد فرمائیں۔ مجھ میں اتنا صبر، علم، اور برداشت نہیں کہ میں تفصیلی گفتگو کرتا۔
لگتا ہے کہ آپ اظہر سے پہلے سے واقف ہیں۔ ہاں، کچھ اسلفاظ جو میں نہیں سمجھ سکا وہ شاید آپ سمجھ سکے ہیں۔ جو میں پاکستانی پنجابی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں سمجھ سکا۔
میں آپ کی رائے سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں۔
 
ایسی بھی کیا کسرِ نفسی جناب اعجاز عبید صاحب، آپ مجھ سے کہیں زیادہ باصلاحیت ہیں، مجھے پتہ ہے۔
پنجابی رسم الخط اور املاء کے حوالے سے بات چلی تو اظہر نذیر صاحب سے یاد اللہ ہو گئی۔ اور پھر اپنے بیگانے کی تو کوئی بات ہی نہیں۔ جب ہم ادب کی بات کرتے ہیں تو ہم قرینے کی بات کرتے ہیں۔ میں نے قرینہ قائم رکھنے کی کوشش کی ہے، اب دیکھئے اظہر صاحب کیا کہتے ہیں۔
آج کل کچھ فرصت ہے، سو اس محفل میں بیٹھا رہتا ہوں، کل کیا ہو کسے خبر۔ آپ نے میری ہمت افزائی کی، میں ممنون ہوں۔
ہاں، یاد آیا۔ آپ مجھے دیوناگری خط سے کچھ شناسائی دلا سکتے ہیں؟ کوئی آسان سا قاعدہ ہو، کوئی ابتدائی کتاب ہو، اگر اس میں شاہ مکھی اور گورمکھی دونوں جمع ہوں تو سونے پر سہاگا۔
 
ستی کا تو آپ کو پتہ ہی ہے، ونی (جہاں تک میں جانتا ہوں) سندھ میں ایک قبیح رسم ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اظہر نذیر صاحب کا تعلق بھی سندھ سے ہے، تبھی تو انہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ ونی کی قباحتوں سے شناسا ہیں۔ و اللہ اعلم۔
 

الف عین

لائبریرین
میں سمجھا کہ ونی بھی کوئی پنجابی لفظ ہے جس طرح اکثر اصلاح کے لئے نئے شعراء جو کلام لے کر آتے ہیں اس میں کئی بار کچھ اٹ پٹے الفاظ اور محاورے ہوتے ہیں۔
اسی صاحب، پنجابی سے تو میں واقف ہی نہیں اور نہ یہاں حیدر آباد میں قاعدے ملتے ہیں۔ پنجاب میں ہی دیکھنا ہوگا۔ معذرت کہ آپ کی مدد کرنے سے قاصر ہوں۔
 
ایک نظم برائے اصلاح'' پتی پھول کی '' از محمد اظہر نزیر
معذرت خواہ ہوں، پتہ نہیں مجھے دخل در معقولات کا حق ہے بھی کہ نہیں۔ آ ہی گیا ہوں تو کچھ عرض بھی کرتا چلوں۔

معذرت مزید، آپ کو یاد ہو گا، میں نے پہلے بھی ”نزیر“ کے ہجے درست یعنی ”نذیر“ لکھنے کی درخواست کی تھی۔ آپ سے شاید پھر فروگزاشت ہو گئی۔ گزاشت سے یاد آیا، فیس بک پر ایک بحث میں سب سنار اپنی اپنی مارتے رہے، پر اختتام محمد وارث صاحب نے ایک لوہار کی سے کیا تھا۔ بارے پھر انہی سے راہنمائی کا طلبگار ہوں کہ حافظہ کچھ پیچھے رہ رہا ہے۔ ذال، زے پر وہ بحث میں نے محفوظ بھی کی تھی مگر یہاں وہ والی ہارڈ ڈِسک اس وقت منسلک نہیں ہے۔


پتی پھول کی
نظم کی ہئیت جو بھی ہو، اُس میں موضوع کے حوالے سے ایک منطقی تسلسل ہونا چاہئے۔ ایک نظم میں ایک ہی موضوع ہو تو یہ تقاضا بڑھ جاتا ہے، جب کہ کثیرالموضوعاتی نظم میں شاعر کو کچھ سہولتِ اختیار مل جاتی ہے۔ یہ نظم یک موضوعی ہے، سو آپ کو یہاں وہ سہولت نہیں مل سکتی۔

پھر تو دیکھا نہ گیا، پھول بکھرتا مجھ سے
یہاں فنی گرفت بہت کمزور ہے۔ یہ نظم کا ابتدائیہ ہے مگر اس کا اسلوب اختتامیہ کا سا ہے۔ آئندہ مصرعوں کو ذہن میں رکھیں تو وہ پھول تو کب کا بکھر چکا، یہاں ”بکھرتا“ کا محل نہیں بنتا۔

خوف پتی کےدُکھے قلب، اُترتا مجھ سے
آپ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں <کہ پھول کی پتی کا درد مجھے اپنے دل میں اترتا محسوس ہوا؟> شعر، مصرعے میں الفاظ کی نشست و برخاست کو بدل دیتے ہیں اور کچھ حذف اور حک سے بھی کام لیا جاتا ہے کہ نثر کو مطلوبہ وزن میں ڈھالا جا سکے۔ تاہم یہ تبدل، حذف اور حک ایسا نہ ہو کہ الفاظ اپنا مفہوم کھو دیں یا غیرمقصود مفہوم در آئے۔ مصرع کو ”لفظ مچولی“ بنانا مقصود نہیں ہوتا، مقصودِ اصلی تو ابلاغ ہے۔ الفاظ کو مقصود کے ماتحت رہنا چاہئے۔

جب سے پُر خار سی دیکھی ہے گزرگاہ میں نے
اس مصرع میں لفظ ”سی“ لگتا ہے پاسنگ کے طور پر لایا گیا ہے۔ ورنہ گزرگاہ کا پرخار ہونا کافی ہے، پرخار سی ہونا کیا ہوا؟ عروضی صحت کے لئے یہاں آپ ”گزرگہ“ لائیں، اس میں کوئی تفاوت نہیں، نہ لفظی نہ معنوی۔ بلکہ اس سے عروضی اِشکال ختم ہو جائے گا

درد گلشن کا، خزاؤں سے گذرتا مجھ سے
یہاں ردیف ”مجھ سے“ معاناً قطعی ناموزوں ہے۔ آپ کے ہاں مجھے کم سے کم لفظ استعمال کرنے کا رجحان نظر آتا ہے۔ جو یقیناً مستحسن ہے اگر ایہام یا ابہام پیدا نہ ہو، یا بات نامکمل نہ رہ جائے۔ یہی اختصارِ الفاظ اگر موعودہ مفہوم کے ابلاغ سے قاصر ہو تو اس سے گریز لازم ہے۔

وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
پر درندوں نے جلا ڈالی حزینہ کیسی
یہاں تلازموں اور علامات میں عدم تعلق ہے۔ نازک، پھول، پتی، جلا ڈالا ۔۔۔ درندہ کی بجائے یہاں آگ، خزاں، لُو مناسب تلازمہ ہوتا۔ درندہ کے ساتھ دریدن، دانت گاڑنا، جبڑے اور اس کے ساتھ رعایتِ لفظی کے طور پر جبر لایا جا سکتا تھا، ایسی صورت میں پھول پتی کی بجائے، غزال وغیرہ موزوں ہوتا۔

وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی کے ہمراہ
ہم نے مسکین جلا ڈالی پتی بن ویسی
ستی کرنا، بات سمجھ میں آتی ہے اور ودھوا ہوئے بنا ستی کیا جانا بہت اعلٰی مضمون بنتا مگر الفاظ نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے پہلے دونوں مصرعوں کے ساتھ لسانی اور تلازماتی رابطہ کمزور رہ گیا۔ لفظ مسکین اس پورے ماحول میں اجنبی لگ رہا ہے، یہاں ”بے چاری“ بہتر تاثر دے سکتا تھا۔

خوف سے کانپتی وہ رات کو گھر آئی تھی
اک درندے کی ہوسناکی کو ٹھکرآئی تھی
دوسرا مصرع غرابتِ لفظی کا شکار ہو گیا ہے۔ ترکیب ”ہوسناکی“ تو چلئے کسی حد تک قابلِ قبول ہے مگر یہ ”ٹھکرآئی“ تو دو الفاظ کو مدغم کر کے کوئی ایسا لفظ بنانے کی کوشش دکھائی دیتی ہے جسے انگریزی لسانیات میں ایکرونیم کہا جاتا ہے۔

لا کے تیزاب جلا ڈالا اُسے قاتل نے
جگ میں عریاں کہ وہ بد ذات کو کر آئی تھی
یہاں شدید ابہام ہے، قاتل کون ہے؟ جس کو وہ ٹھکرا آئی تھی یا جو گھر میں اس کا رکھوالا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے مصرعے میں ”کہ“ غالباً ”کیونکہ“ کے معانی میں آیا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کا مقام غلط ہے اسے یا تو مصرع کے شروع میں لاتے یا حذف کر دیتے۔ مسئلہ یہاں بھی وہی لگتا ہے کہ واقعہ کو اتنے تھوڑے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی کہ ابہام پیدا ہو گیا۔ عریاں کون بد ذات ہوا؟ وہ اور قاتل کیا وہی ہے تو پھر ”کر آئی تھی“ کا کیا جواز ہے؟ نظم میں گنجائش ہوتی ہے کہ آپ جہاں ایسی تنگی محسوس کریں ایک دو چار مصرعے ڈال کر اس کو فراخ کر لیں۔

قرض پے کھیل جوا رات گئے گھر آیا
وہ شرافت کو نفاست کو پرے دھر آیا
قرض پہ، نہ کہ قرض پے، یہ تو لسانی مسئلہ ہوا۔ کھیل جوا یعنی جوا کھیل کر؟ تو پھر اس کو کھیلا جوا لکھیں کہ تقاضا بھی یہی ہے۔ ”پرے دھر آیا“ قافیے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بیان کو کمزور کر دیا آپ نے یہاں۔

ایک لحظہ بھی نہ سوچا کہ وہ پنچایت میں
اپنی ہی جان کو بیٹی کو ونی کر آیا
کیا جوا کھیلنے والوں کی ٹیم کو پنچایت کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یا یہ ہے کہ وہ جوے میں بیٹی ہار آیا، بات پنچایت میں گئی اور پنچایت نے اسے ونی کرنے پر مجبور کر دیا؟ دوسرے مصرعے میں ”جان“ سے زیادہ غیرت کا معاملہ ہے، لفظ ”آن“ کے بارے میں سوچئے گا۔ اس پورے سیاق و سباق میں ایک لحظہ بھی نہ سوچا کی بجائے اگر قطعاً نہ سوچا کا مفہوم ہو تو بات بہتر طور پر بیان ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

تیرا سب گھر جو چلاتی تھی وہی ناری ہے
کیسا یہ دن ہے کہ اس ذات پہ اب بھاری ہے
ناری کا لفظ معناً تو کسی بھی عورت کے لئے ہو سکتا ہے، تاہم اس نظم کے پیش منظر میں، اور خاص طور پر اس بند میں ناری کا مفہوم جورو نکلتا ہے، اوپر بیٹی کا ذکر ہے۔ یہ بات قاری کو الجھا دیتی ہے۔ گھر چلاتی تھی، اور وہی ناری ہے، جب اس کو تیل چھڑک کر جلا دیا تو یہ ہے بھی تھی میں بدل جانی چاہئے۔ اس پر بھی توجہ دیجئے گا۔

کس گنہ کی تو سزا دے گا اسے‘ بول ذرا
بدچلن خود ہے تو پھر ٹھہری وہ کیوں کاری ہے
تو گویا ابھی اس ناری کو سزا ملنی ہے؟ اور سزا وہ دے گا؟ یہ نظم واقعاتی طور پر عدم موافقت کا شکار ہو گئی ہے۔ ”بول ذرا“ میں جو چیلنج درکار تھا وہ نہیں آ پایا۔ یہاں یا تو اس تخاطب میں قوت پیدا کریں یا کوئی دوسرا تخاطب لے آئیں، مثلاً اے ظالم، او بدذات، اے بد بخت وغیرہ۔


مجموعی طور پر یہ نظم کہنے کی ایک کوشش ہے۔ بارِ دگر کوشش کیجئے، ایک اچھی نظم بن سکتی ہے۔ یہاں ایک موٹی سی بات عرض کر دوں کہ شعر محض ہم وزن سطروں کا نام نہیں، اس میں احساس، اظہار، فن، ابلاغ اور دیگر عناصر بہت اہم ہیں۔ اردو محفل پر میرا ایک مضمون چل رہا ہے ”شاعری کیا ہے“۔ کسی وقت اسے ایک نظر دیکھ لیجئے گا۔

معذرت خواہ ہوں مگر جو کچھ عرض کیا ہے، ضروری سمجھ کر عرض کیا ہے۔ کڑوی دوائی سمجھ لیجے گا۔


مکرمی جناب یعقوب صاحب،
سب سے پہلے آپ کو اوراصحاب محفل کو دلی عید مبارک، کل عام و انتم طیبین کل کم باذن اللہ سبحانہھ و تعالٰی
میرا اس فورم پہ آنا کچھ سیکھنے کے لئیے ہی تھا اور علم کہیں سے بھی ملے حاصل کرنا میرا حق، سو یہاں دخل در معقولات کیسے، یہ خالصتاً علمی اور تعلیمی مسئلہ ہے، اھلاًً و سہلاً مرحبا جناب۔

انشااللہ آئندہ محمد اظہر نذیر ہی لکھنے کی کوشش ہو گی، غلطی معاف

مجھے اگر اجاذت دیں تو عرض کروں کہ اردو زبان سے میری واقفیت صرف ستہی سی ہے اور ابھی تک عبور کی منزل '' ہنوذ دلی دور است'' کے مصداق ہی ناپی جا سکتی ہے

آپ نے جس فصاحت اور بلاغت سے اصلاحات کی طرف توجہ دلائی ہے اُن کے لئے بے حد شکر گذار ہوں، بس طلبگار ہوں وقت کا کی انہیں تھوڑا سمجھ لوں تاکہ اُن کی روشنی میں اصلاح کر سکوں

اجازت ہو تو گذارش کروں کے موضوعاتی لحاظ سے نظم یک موضوع ہی ہے، مگر چونکہ کثیر جہتی تھی چناچہ کچھ آسانیاں خود کے لئے اختیار کر لی تھیں، مگر اب جب آپ وہ آسانیاں نہیں دینا چاہتے تو کچھ کرنا ہی پڑے گا

جہاں تک ابتدائیے کا تعلق ہے تو آپ جانتے ہی ہیں کے اسلوب گفتگو کے کئی ڈھنگ ہوتے ہیں، کچھ لوگ میری طرح اختتامیہ کو ابتدائیہ بنا کے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، جس کا مقصد شروع ہی سے قاری کی توجہ حاصل کر لینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ بلکل صحیح فرمایا آپ نے

خوف پتی کےدُکھے قلب، اُترتا مجھ سے
یہاں اُس دکھ کا ذکر ہے جو ٹوٹنے سے پہلے پھول کی پتی کے دل مِیں پیدا ہوتا اور اترتا شاعر محسوس کرتا ہے، شاعر کا اپنا دکھ نہیں

آپ نے بلکل صحیح ارشاد فرمایا کے مجھے کم از کم الفاظ میں مدعا بیان کرنے کی عادت ہے، اور مِن بزعم خود without compromising the quality of the text so that it can be understood easily اردو میں معاف کیجیے گا پتہ نہیں کیسے کہیں گے اسے۔ خیر کہنا یہ تھا کے اپنے طور پہ تو جملہ میں کم از کم ابہام رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ لازمی خیال قاری پر اعتبار کرتے ہوئے مصرع لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

خیر آپ نے جو فرمایا ہے انشااللہ اُس کی روشنی میں کوشش کروں گا، کچھ وقت دیجیے از راہ کرم

خیر اندیش
اظہر 
 

پتی پھول کی


کس قدرپھول بکھرنے پے تڑپتا ہو گا
خوف پتی کے دکھے قلب اُترتا ہو گا
اس تصور سے کے پر خار گزر گاہیں ہیں
درد گلشن کے بھی سینے سےگزرتا ہو گا

وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
آگ کے سیک نے جھلسا دی مگر ہے کیسی
وہ ستی کرتے تھے ودھوا کو پتی کے ہمراہ
ہم نے بے چاری جلا ڈالی پتی بن ویسی

خوف سے کانپتی وہ رات کو گھر آئی تھی
کہ خبر جگ میں پڑوسی کی وہ کر آئی تھی
پر ہوس شخص نے تیزاب گرا، مارا ہے
قرض لینے کے لئیے جس کے وہ در آئی تھی

ایک جھگڑے کی طوالت کو ختم کر آیا
وہ شرافت کو نفاست کو کہاں دھر آیا
ایک لحظہ بھی نہ سوچا کہ وہ پنچایت میں
اپنی معصوم سی بیٹی کو ونی کر آیا

تیرا سب گھر جو چلاتی تھی وہی ناری ہے
کیسا یہ دن ہے کہ اس ذات پہ اب بھاری ہے
کس گنہ کی تو سزا دے گا اسے‘ اے ظالم
بدچلن خود ہے تو پھر ٹھہری وہ کیوں کاری ہے

محترم جناب یعقوب صاحب،
اگر برا نہ لگے تو اُستاد کہوں کیوں کی ایک حرف سکھانے والا بھی اگر اُستاد ہوتا ہے تو آپ سے تو ماشااللہ اب اچھا خاصہ فیض یاب ہو چکا، کوشش کی کہ آُپ کے معیار پہ پورا اُتر سکوں، کوئی کمی ہو تو نشاندہی فرمائیے گا۔ آخری بند آپ نے درست فرمایا اس میں مراد بیوی سے ہی ہے جسے ہمارے دیس کے کچھ علاقوں میں بدچلن کہہ کر کاری کر دیا گیا ہے۔
نظم جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یک موضوع مگر کثیر الجہتی ہے۔ مرکزی کردار عورت ہے مگر اُس کے رشتے جو کثیرالجہت ہیں انہیں اور اُن کے ساتھ روا ظلم کو موضوع بنایا ہے، بند الاولٰی استعاراتی ہے، الثانی میں ایک علاقے میں مختلف وجوہات سے جلا دی جانے والی خواتیں کا ذکر ہے، الثالث معاشرے کی بھیانک عکاسی ہے جو بے آسرا خواتین کو جھپٹ لینے میں دیر نہیں کرتا اور ناکامی پہ۔۔۔۔۔ الرابع پنجاب میں روا ونی جس میں کم عمر بیٹیاں ونی کی جاتی ہیں طویل جھگڑے مٹانے کے لئیے اور الخامس سندھ کی اُن خواتیں کے نام جنہیں اپنی بدکاریوں کے ظاہر ہونے کو چھپانے کے لئیے کاری کر دیا جاتا ہے
دعا گو
اظہر
 
اُستاد مت کہئے گا اظہر نذیر صاحب، کہ یہ بہت بڑا منصب ہے اور مجھے معلوم ہے کہ میں اس منصب کے قابل نہیں، ہاں کسی درجہ میں اچھا شاگرد کہہ لیں تو کوئی قباحت نہیں۔

آپ نے اچھی ترمیم کی ہے، پسند آئی۔ پھر بھی کچھ مقامات پر بہتری کی گنجائش دیکھی۔ سو، اپنی سمجھ بُوجھ کے مطابق، جو بہتر جانا وہ درج کر رہا ہوں۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف

ملاحظہ کیجئے، کہ:۔

کس قدر پھول بکھرنے پہ تڑپتا ہو گا
خوف پتی کے دکھے دل میں اُترتا ہو گا
اس تصور سے کہ پر خار گزر گاہیں ہیں
درد گلشن کے بھی سینے سےگزرتا ہو گا

وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
ظلم کے سیک نے جھلسا دی مگر ہے کیسی
وہ ستی کرتے تھے ودھوا کو پتی کے ہمراہ
ہم نے بے چاری جلا ڈالی پتی بن ویسی

زیادہ تر املاء کی فروگزاشتیں تھیں۔ باقی بہت بہتر ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اور بہتر ہو جائے گی۔

خوش رہئے اور دعاؤں میں یاد رکھئے۔
 
پتی پھول کی


کس قدر پھول بکھرنے پہ تڑپتا ہو گا
خوف پتی کے دکھے دل میں اُترتا ہو گا
اس تصور سے کہ پر خار گزر گاہیں ہیں
درد گلشن کے بھی سینے سےگزرتا ہو گا

وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
ظلم کے سیک نے جھلسا دی مگر ہے کیسی
وہ ستی کرتے تھے ودھوا کو پتی کے ہمراہ
ہم نے بے چاری جلا ڈالی پتی بن ویسی

خوف سے کانپتی وہ رات کو گھر آئی تھی
کہ خبر جگ میں پڑوسی کی وہ کر آئی تھی
پر ہوس شخص نے تیزاب گرا، مارا ہے
قرض لینے کے لئیے جس کے وہ در آئی تھی

ایک جھگڑے کی طوالت کو ختم کر آیا
وہ شرافت کو نفاست کو کہاں دھر آیا
ایک لحظہ بھی نہ سوچا کہ وہ پنچایت میں
اپنی معصوم سی بیٹی کو ونی کر آیا

تیرا سب گھر جو چلاتی تھی وہی ناری ہے
کیسا یہ دن ہے کہ اس ذات پہ اب بھاری ہے
کس گنہ کی تو سزا دے گا اسے‘ اے ظالم
بدچلن خود ہے تو پھر ٹھہری وہ کیوں کاری ہے​


جناب،
بے حد خوش رہیے، انشااللہ مزید بہتر کی تلاش جاری رہے گی
آپ کے تعاون کا متمنی رہوں گا
دعا گو
اظہر
 
Top