حفیظ جالندھری ایک لڑکی شاداں۔۔

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
حفیظ جالندھری کی اپنی بیٹی شاداں کے لئے لکھی گئی نظم۔
وہ لکھتے ہیں
یہ نظم میری عزیز بیٹی ارشاد بتول کی یادگار ہے ۔۔۔۔ میں نے ایک مدت تک بچوں کے لئے نظمیں لکھی ہیں ۔ میری سب سے بڑی بیٹی ارشاد بتول جسے میں پیار سے ''شاداں'' کہا کرتا تھا،بڑے شوق سے پڑھا کرتی تھی ۔اکتوبر ۱۹۲۹ میں جب میں نے رسالہ 'پھول' کی سالگرہ کے لئے متعدد نظمیں لکھیں تو ان میں ایک نظم یہ تھی ۔ میں اس وقت سفر میں تھا اور میرے بال بچے جالندھر میں تھے جہاں ''شاداں'' مدرسۃالبنات میں قران مجید پڑھ رہی تھی اس نظم سے مقصود محض شاداں کو دق کرنا تھا۔ میں نے لکھا کہ وہ پڑھتی پڑھاتی کچھ نہیں ۔سارا دن کھیل کود میں ضائع کر دیتی ہے ۔خیال یہ تھا کہ اول تو وہ اس نظم کو اپنے نام پر دیکھ کر خوش ہوگی ۔جب اسے پڑھے گی تو پڑھ کر بگڑے گی۔ اور اسی طرح خوب ہنسی مذاق رہے گا۔ان پر لطف خیالات کو لئے جس روز میں گھر پہنچا اسی دن شام کو یہ میری پیاری بچی جو میری آنکھوں کا نور تھی ،اچانک کنویں میں گر کر جاں بحق تسلیم ہو گئی ۔رسالہ 'پھول' کا سالگرہ نمبر اس وقت ملا۔ جب میں اپنے لخت جگر کو سپرد خاک کر چکا تھا۔۔
حفیظ جالندھری

ایک لڑکی شاداں۔۔۔

اک لڑکی تھی چھوٹی سی
دبلی سی اور موٹی سی
ننھی سی اور منی سی
بالکل ہی تھن متھنی سی
اس کے بال تھے کالے سے
سیدھے گھنگریالے سے
منہ پر اس کے لالی سی
چٹی سی مٹیالی سی
اس کی ناک پکوڑی سی
نوکیلی سی چوڑی سی
آنکھیں کالی نیلی سی
سرخ سفید اور پیلی سی
کپڑے اس کے تھیلے سے
اجلے سے اور میلے سے
یہ لڑکی تھی بھولی سی
بی بی سی اور گولی سی
ہر دم کھیل کام تھا اس کا
شاداں بی بی نام تھا اس کا
ہنستی تھی اور روتی تھی
جاگتی تھی اور سوتی تھی
ہر دم اس کی اماں جان
کھینچا کرتی اس کے کان
کہتی تھیں مکتب کو جا
کھیلوں میں مت وقت گنوا
امی سب کچھ کہتی تھی
شاداں کھیلتی رہتی تھی
اک دن شاداں کھیل میں تھی
آئے اس کے ابا جی
وہ لاہور سے آئے تھے
چیزیں ویزیں لائے تھے
باکس میں تھیں یہ چیزیں سب
خیر تماشا دیکھو اب
ابا نے آتے ہی کہا
شاداں آ کچھ پڑھ کے سنا
گم تھی اک مدت سے کتاب
کیا دیتی اس وقت جواب
دو بہنیں تھیں شاداں کی
چھوٹی ننھی منی سی
نام تھا منجھلی کا سیماں
گڑیا سی ننھی ناداں
وہ بولی اے ابا جی
اب تو پڑھتی ہوں میں بھی
بلی ہے سی اے ٹی کیٹ
چوہا ہے آر اے ٹی ریٹ
منہ ماؤتھ ہے ناک ہے نوز
اور گلاب کا پھول ہے روز
میں نے ابا جی دیکھا
خوب سبق ہے یاد کیا
شاداں نے اس وقت کہا
میں نے ہی تو سکھایا تھا
لیکن ابا نے چپ چاپ
کھولا باکس کو اٹھ کر آپ
اس میں جو چیزیں نکلیں
ساری سیماں کو دے دیں
اک چینی کی گڑیا تھی
اک جادو کی پڑیا تھی
اک ننھی سی تھی موٹر
آپ ہی چلتی تھی فر فر
گیندوں کا اک جوڑا تھا
اک لکڑی کا گھوڑا تھا
اک سیٹی تھی اک باجا
ایک تھا مٹی کا راجا
شاداں کو کچھ بھی نہ ملا
یعنی کھیل کی پائی سزا
اب وہ غور سے پڑھتی ہے
پورے طور سے پڑھتی ہے!
 
آخری تدوین:
Top