ایک غزل تبصرہ و تنقید کیلئے،'' ہے یقیں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی''

ہے یقیں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی
میں کہیں ، ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی

مجھ کو لے جا کے ہواؤں میں ہی ضائع کرنا
بر زمیں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی

ریزگی مجھ میں ہے جاری، تو ذرا دور رہو
گر قریں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی

بد ترین روٹھ گیا تھا تو کہاں فرق پڑا؟
بہتریں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی

درد اُٹھا تھا جو دشمن کو شکستہ دیکھا
ہم نشیں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی

آخری بار سمیٹا تھا تُجھے مر مر کے
پھر وہیں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی

تُجھ میں نفرت کا جوالا ہے بکھر جا اظہر
اب نہیں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی​
 

الف عین

لائبریرین
زمین ہی ایسی ہے کہ بات درست نہیں کہی جا سکتی۔ بیشتر کرتب بازی ہی محسوس ہوتی ہے۔
بد ترین اور بہتریں کو عموماً غنہ نہیں کیا جاتا شعر میں۔
اسے مشق کے لئے رکھ لو
 
Top