ایک غزل بغرض اصلاح پیش ہے،'' ہونٹوں سے دور جاتی، صدا ہو گیا تو کیا ''

ہونٹوں سے دور جاتی، صدا ہو گیا تو کیا
چپکے سے ایک دن میں ہوا ہو گیا تو کیا
تُم سے نہیں ہے کوئی تعلق نہ واسطہ
راضی میں ہوں نہیں ہوں ، خفا ہو گیا تو کیا
دارالشفا کو جانے، وہ جانے طبیب کو
اب اُس کے درد کی میں دوا ہو گیا تو کیا
چسکے زبان کے جو تعقب میں آ گئے
پھر عمر بھر کہا وہ سزا ہو گیا تو کیا
بھولے سے بھی بُری نہ کبھی بات تُم کرو
پورا جو غیب سے وہ کہا ہو گیا تو کیا
بگڑے گا اُس کا کچھ بھی نہیں پھر بھی بیر ہے
اظہر غریب کا جو بھلا ہو گیا تو کیا
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہوں اصلاح کے ساتھ


ہونٹوں سے دور جاتی، صدا ہو گیا تو کیا
چپکے سے ایک دن میں ہوا ہو گیا تو کیا
//درست، البتہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہوا ہی صدا کی طرح دور جاتی ہے؟

تُم سے نہیں ہے کوئی تعلق نہ واسطہ
راضی میں ہوں نہیں ہوں ، خفا ہو گیا تو کیا
//جب تم سے کچھ رہا نہیں رشتہ ، نہ واسطہ
راضی ہوں یا نہیں ہوں، خفا۔۔۔۔۔
کر دو، رواں ہو جائے گا۔

دارالشفا کو جانے، وہ جانے طبیب کو
اب اُس کے درد کی میں دوا ہو گیا تو کیا
//شعر سمجھ میں نہیں آیا۔

چسکے زبان کے جو تعقب میں آ گئے
پھر عمر بھر کہا وہ سزا ہو گیا تو کیا
//تعقب یا تعاقب؟ یہ شعر بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

بھولے سے بھی بُری نہ کبھی بات تُم کرو
پورا جو غیب سے وہ کہا ہو گیا تو کیا
//بہتر ہو کہ روانی کے پیش نظر یوں کہو
بھولے سے بھی کرو نہ بُری بات تُم کبھی

بگڑے گا اُس کا کچھ بھی نہیں پھر بھی بیر ہے
اظہر غریب کا جو بھلا ہو گیا تو کیا
//یہ بھی سمجھ میں نہیں آ سکا
 
Top