ایک غزل برائے تنقید، تبصرہ و اصلاح ،'' آہ بندش میں ہو، پابند ہوں نالے، کب تک''

آہ بندش میں ہو، پابند ہوں نالے، کب تک
درد، بے درد ہے، سینے میں تُو بالے کب تک

روشنی اور ہوا روک نہ پایا کوئی
روک پایا بھی تو روکوں گا اُجالے کب تک

درد رُخصت ہوا کب کا ترا رستہ چلتے
ساتھ دیتے ہیں مرا پاؤں کے چھالے کب تک

چشم جمہور میں طوفان ہے برپا جیسے
دیکھنا ہے تو یہ بس، ہونٹوں پہ تالے کب تک

سال خوردہ ہیں ترے خط، انہیں لے جا آ کر
کوئی آخر یہ امانت بھی سنبھالے کب تک

اپنی مرضی سے ہو اک بار رواں نرم وجود
خود کو تیری ہی وہ خواہش پہ بھی ڈھالے کب تک

خامشی سے تُو ذرا دیکھ تو آخر اظہر
بھول پاتے ہیں تُجھے بھولنے والے کب تک​
 

الف عین

لائبریرین
آہ بندش میں ہو، پابند ہوں نالے، کب تک
درد، بے درد ہے، سینے میں تُو بالے کب تک
۔۔مطلع کم از کم میرئ سمجھ میں نہیں آیا۔ خاص کر دوسرا مصرع۔

روشنی اور ہوا روک نہ پایا کوئی
روک پایا بھی تو روکوں گا اُجالے کب تک
مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے۔ یعنی کیاا میں ہوا کو تو بہر حال ہیمشہ کے لئے روک سکوں گا؟

درد رُخصت ہوا کب کا ترا رستہ چلتے
ساتھ دیتے ہیں مرا پاؤں کے چھالے کب تک
÷÷اچھا شعر ہے، بہتر ہو کہ یوں کر دو
درد رُخصت ہوا کب کا تری رہ میں، دیکھیں

چشم جمہور میں طوفان ہے برپا جیسے
دیکھنا ہے تو یہ بس، ہونٹوں پہ تالے کب تک
۔۔دوسرے مصرع میں ’رہیں گے ‘ آ سکے تو بہتر ہو۔

سال خوردہ ہیں ترے خط، انہیں لے جا آ کر
کوئی آخر یہ امانت بھی سنبھالے کب تک
÷÷درست

اپنی مرضی سے ہو اک بار رواں نرم وجود
خود کو تیری ہی وہ خواہش پہ بھی ڈھالے کب تک
÷÷دوسرے مصرع کو پھر دیکھو، روانی بہتر کی جا سکتی ہے۔

خامشی سے تُو ذرا دیکھ تو آخر اظہر
بھول پاتے ہیں تُجھے بھولنے والے کب تک
÷÷خامشی کا یہاں کیا محل؟ محاورہ چپ چاپ کا ہے، اور ’دیکھ‘ کا ھی نہیں ’دیکھتا رہ‘ کا ہے۔
 
آہ بندش میں ہو، پابند ہوں نالے، کب تک
درد، بے درد ہے، سینے میں تُو بالے کب تک
۔۔مطلع کم از کم میرئ سمجھ میں نہیں آیا۔ خاص کر دوسرا مصرع۔

روشنی اور ہوا روک نہ پایا کوئی
روک پایا بھی تو روکوں گا اُجالے کب تک
مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے۔ یعنی کیاا میں ہوا کو تو بہر حال ہیمشہ کے لئے روک سکوں گا؟

درد رُخصت ہوا کب کا ترا رستہ چلتے
ساتھ دیتے ہیں مرا پاؤں کے چھالے کب تک
÷÷اچھا شعر ہے، بہتر ہو کہ یوں کر دو
درد رُخصت ہوا کب کا تری رہ میں، دیکھیں

چشم جمہور میں طوفان ہے برپا جیسے
دیکھنا ہے تو یہ بس، ہونٹوں پہ تالے کب تک
۔۔دوسرے مصرع میں ’رہیں گے ‘ آ سکے تو بہتر ہو۔

سال خوردہ ہیں ترے خط، انہیں لے جا آ کر
کوئی آخر یہ امانت بھی سنبھالے کب تک
÷÷درست

اپنی مرضی سے ہو اک بار رواں نرم وجود
خود کو تیری ہی وہ خواہش پہ بھی ڈھالے کب تک
÷÷دوسرے مصرع کو پھر دیکھو، روانی بہتر کی جا سکتی ہے۔

خامشی سے تُو ذرا دیکھ تو آخر اظہر
بھول پاتے ہیں تُجھے بھولنے والے کب تک
÷÷خامشی کا یہاں کیا محل؟ محاورہ چپ چاپ کا ہے، اور ’دیکھ‘ کا ھی نہیں ’دیکھتا رہ‘ کا ہے۔
محترم اُستاد یوں دیکھ لیجئے از راہ کرم


آہ بندش میں ہے، پابند ہوں نالے کب تک
مُجھ سا کوئی بھی ہو اب درد کو پالے کب تک


روشنی پھر سے کسی درز سے در آئی ہے
روک پایا بھی تو روکوں گا اُجالے کب تک


درد رُخصت ہوا کب کا تری رہ میں، دیکھیں
ساتھ دیتے ہیں مرا پاؤں کے چھالے کب تک

چشم جمہور میں طوفان ہے برپا جیسے
اب رہیں گے پڑے ہونٹوں پہ یہ تالے کب تک

سال خوردہ ہیں ترے خط، انہیں لے جا آ کر
کوئی آخر یہ امانت بھی سنبھالے کب تک

اپنی مرضی سے ہو اک بار رواں نرم وجود
اُس کی خواہش پہ کوئی خود کو بھی ڈھالے کب تک

دیکھتا رہ تُو بھی چُپ چاپ کہ آخر اظہر
بھول پاتے ہیں تُجھے بھولنے والے کب تک​
 

الف عین

لائبریرین
اب درست ہے
اب رہیں گے پڑے ہونٹوں پہ یہ تالے کب تک
کو
اب پڑے رہتے ہیں ہونٹوں پہ یہ تالے کب تک
کر دو تو بہتر ہو
 
Top