محمد اظہر نذیر
محفلین
محبتوں کا محبت جواب، کیسے دوں
نہیں ہو کوئی جو تعبیر، خواب کیسے دوں
بندھے ہیں ہاتھ مگر، تھام میں نے رکھا ہے
تُمہیں میں سُرخ تُمہارا گُلاب کیسے دوں
نمو فراق کا ہونا ہے جس کی مٹی میں
اُسی زمین میں اُلفت کو داب کیسے دوں
مجھے ہے خوف، مری سوچ پڑھ نہ لے کوئی
ترے خیال پہ گہرا نقاب کیسے دوں
میں کر رہا تو ہوں محسوس تشنگی تیری
پہ جس جگہ ہوں وہاں پر سے آب کیسے دوں
نہیں ہے ہاتھ مرے داستاں تری اظہر
تو پھر ملن کا کہانی کو باب کیسے دوں
نہیں ہو کوئی جو تعبیر، خواب کیسے دوں
بندھے ہیں ہاتھ مگر، تھام میں نے رکھا ہے
تُمہیں میں سُرخ تُمہارا گُلاب کیسے دوں
نمو فراق کا ہونا ہے جس کی مٹی میں
اُسی زمین میں اُلفت کو داب کیسے دوں
مجھے ہے خوف، مری سوچ پڑھ نہ لے کوئی
ترے خیال پہ گہرا نقاب کیسے دوں
میں کر رہا تو ہوں محسوس تشنگی تیری
پہ جس جگہ ہوں وہاں پر سے آب کیسے دوں
نہیں ہے ہاتھ مرے داستاں تری اظہر
تو پھر ملن کا کہانی کو باب کیسے دوں