ایک غزل اساتذہ کی توجہ کیلئے،“ محبتوں کا محبت جواب، کیسے دوں“

محبتوں کا محبت جواب، کیسے دوں
نہیں ہو کوئی جو تعبیر، خواب کیسے دوں

بندھے ہیں ہاتھ مگر، تھام میں نے رکھا ہے
تُمہیں میں سُرخ تُمہارا گُلاب کیسے دوں

نمو فراق کا ہونا ہے جس کی مٹی میں
اُسی زمین میں اُلفت کو داب کیسے دوں

مجھے ہے خوف، مری سوچ پڑھ نہ لے کوئی
ترے خیال پہ گہرا نقاب کیسے دوں

میں کر رہا تو ہوں محسوس تشنگی تیری
پہ جس جگہ ہوں وہاں پر سے آب کیسے دوں

نہیں ہے ہاتھ مرے داستاں تری اظہر
تو پھر ملن کا کہانی کو باب کیسے دوں​
 

الف عین

لائبریرین
اب تک اساتذہ نہیں آئے یہاں!!
اچھی غزل ہے، جہاں کچھ محسوس ہوا ہے اس کا ذکر کر دیتا ہوں۔
بندھے ہیں ہاتھ مگر، تھام میں نے رکھا ہے
تُمہیں میں سُرخ تُمہارا گُلاب کیسے دوں
۔۔پہلا مصرع رواں ہو سکتا ہے، ’تھام میں‘ میں م کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی
بندھے ہیں ہاتھ مگر، میں نے تھام رکھا ہے
اور دوسرے میں بھیچستہی اور روانی عنقا ہے
تُمہیں میں سُرخ تُمہارا گُلاب کیسے دوں

مجھے ہے خوف، مری سوچ پڑھ نہ لے کوئی
ترے خیال پہ گہرا نقاب کیسے دوں
÷÷گہرا نقاب؟؟ گہرا کی جگہ کوئی اور صفت شاید بہتر ہو۔

میں کر رہا تو ہوں محسوس تشنگی تیری
پہ جس جگہ ہوں وہاں پر سے آب کیسے دوں
۔۔محض پانی کے لئے آب کا استعمال روز مرہ کا مھاورہ نہیں۔

نہیں ہے ہاتھ مرے داستاں تری اظہر
تو پھر ملن کا کہانی کو باب کیسے دوں
÷÷کہانی کو باب۔۔۔ سمجھ میں نہیں آیا
 
Top