ایک غزل ،'' جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا'' اور اک سوال

اساتذہ کرام ذیل میں دی گئی غزل بحر محتث میں موزوں ہوئی ہے، سوال مطلع کے مصرع ثانی سے متعلق ہے، میں نے اس کی تقطیع یوں کی ہے
مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلاتن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلن”فعلان'مفعول؛ فعلن
پ رُس کے بع۔۔۔۔۔۔۔۔ د چ را غو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ن خی ر بع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ د ک یا
کیا یہ تقطیع ٹھیک ہے؟ یا مصرع تبدیل کرنا پڑے گا
جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا
پھر اُس کے بعد، چراغوں نے خیر باد کیا
ترے ہی ہجر میں جلتے رہے قدم ثابت
ترے وصال کی منزل کو ہی مُراد کیا
جلا جو گُل تیری صورت سے اور سیرت سے
تری وجہ سے ہی خوشبو نے بھی فساد کیا
نظر پڑی جو مفادات پر ترے جاناں
رُکے تھے، اپنا تو ضائع وہیں مفاد کیا
ترے لیے ہی ہوے جگ سے ہم تھے رنجیدہ
بتائیں کیا تُجھے، اظہر سے بھی عناد کیا
 

الف عین

لائبریرین
عروضی اعتبار سے تو کوئی غلطی نہیں، صرف ایک دو الفاظ کا تلفظ غلط ہے۔ باقی بعد میں، لیکن یہاں یہ تو کہہ ہی دوں کہ ’خیرباد‘ کیا نہیں ’کہا‘ جاتا ہے۔
 
ایک تبدیلی اُستاد محترم آپ کے ارشاد کی روشنی میں

جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا
ترا فراق، چراغوں نے ایسے شاد کیا
ترے ہی ہجر میں جلتے رہے قدم ثابت
ترے وصال کی منزل کو ہی مُراد کیا
جلا جو گُل تیری صورت سے اور سیرت سے
تری وجہ سے ہی خوشبو نے بھی فساد کیا
نظر پڑی جو مفادات پر ترے جاناں
رُکے تھے، اپنا تو ضائع وہیں مفاد کیا
ترے لیے ہی ہوے جگ سے ہم تھے رنجیدہ
بتائیں کیا تُجھے، اظہر سے بھی عناد کیا
 
کچھ تبدیلیاں

جلے وہ رات، مرے ساتھ ، دل کو شاد کیا
جدا تھے تُم، تو چراغوں نے بھی تھا یاد کیا

جلن کے مارے، گلوں نے کیا جو ہنگامہ
حسد تھا تجھ سے تو خوشبو نے بھی فساد کیا

چمن سے مول عداوت بھی لی تری خاطر
ترے لئے ہی ہواوں سے بھی عناد کیا

چلے فراق کی راہوں میں ، پر رہے قائم
ترے وصال کی منزل کو جو مراد کیا

نظر میں تھے جو مفادات بس ترے اظہر
کہ جن پہ اپنا تو قربان ہر مفاد کیا
 
جلا بھی رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا
چراغ شب کی رفاقت نے دل کو شاد کیا
جلن کے مارے گلوں نے کیا تھا ہنگامہ
حسد تھا تجھ سے تو خوشبو نے بھی فساد کیا
چمن سےمجھ کو عداوت جو تھی،تری خاطر
ترے لئے ہی ہواوں سے بھی عناد کیا
نظر میں بس تھے مفادات جان جاں تیرے
اُنہی پہ اپنا تو قربان ہر مفاد کیا
چلے فراق کی راہوں میں غم نہیں اظہر
ترے وصال کی منزل کو جو مراد کیا
 
تھوڑی تبدیلی مزید، استاد محترم اب آپ فرمائیے
جلا بھی رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا
چراغ شب کی رفاقت نے دل کو شاد کیا
جلن کے مارے گلوں نے کیا تھا ہنگامہ
حسد تھا تجھ سے تو خوشبو نے بھی فساد کیا
چمن سےمجھ کو عداوت جو تھی،تری خاطر
ترے لئے ہی ہواوں سے بھی عناد کیا
کسی زیاں کو کبھی میں نہ لایا خاطر میں
تُمہارے واسطے قربان ہر مفاد کیا
چلا فراق کی دشوار رہ پہ بھی اظہر
ترے وصال کی منزل کو جو مراد کیا
 

الف عین

لائبریرین
جلا بھی رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا
چراغ شب کی رفاقت نے دل کو شاد کیا
//یاد کس نے کیا، چراغ نے؟

جلن کے مارے گلوں نے کیا تھا ہنگامہ
حسد تھا تجھ سے تو خوشبو نے بھی فساد کیا
// شعر واضح نہیں ہوا۔ابہام کا حسن تو ہے۔


چمن سے مجھ کو عداوت جو تھی،تری خاطر
ترے لئے ہی ہواؤں سے بھی عناد کیا
// یہ بھی واضح نہیں ہوا۔ ویسے ابہام کا حسن تو ہے۔

کسی زیاں کو کبھی میں نہ لایا خاطر میں
تُمہارے واسطے قربان ہر مفاد کیا
//درست

چلا فراق کی دشوار رہ پہ بھی اظہر
ترے وصال کی منزل کو جو مراد کیا
//’مراد کیا‘ یہ کیا محاورہ ہے؟
 
Top