ایک غزلِ مسلسل ...وہ خلوت میں جب سے ہیں آنے لگے...!

متلاشی

محفلین
ایک غزلِ مسلسل اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہے ۔۔۔!​
وہ خلوت میں جب سے ہیں آنے لگے​
مزے ہم محبت کے پانے لگے​
رہا یاد ہم کو نہ کچھ بھی نصر​
سوا ان کے سب بھول جانے لگے​
پلا کر ہمیں جامِ الفت وہ پھر​
ترانے وفا کے سنانے لگے​
ہوئے ختم جب جام سب کے سبھی​
وہ آنکھوں سے مے پھر پلانےلگے​
سنا کر محبت کے قصے ہمیں​
یقیں وہ وفا کا دلانے لگے​
کیا یوں ہی بے خود انہوں نے ہمیں​
ہمیں یوں ہی مجنوں بنانے لگے​
ہوا پورا مطلب گئے پھر بدل​
شب و روز کرنے بہانے لگے​
وہ کر کر تقاضے نئے روز و شب​
محبت پھر اپنی جتانے لگے​
کھلی آنکھ جب پھر نہ تھا پاس کچھ​
ہمیں اپنے سب ہی بیگانے لگے​
حقیقت تھے سمجھے جسے کل تلک​
وہی آج ہم کو فسانےلگے​
جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی​
وہ کر کے محبت ٹھکانے لگے​
محمد ذیشان نصر​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کیا یہ غزل مندرجہ ذیل بحر میں ہے:


فعون ؛ فعولن ؛ فعولن ؛ فعل

دیکھتے ہیں میں صحیح پہنچا یا نہیں۔
اصلاح تو اساتذہ ہی کریں گے، میں تو اپنی مشق کر رہا ہوں،
برا مت مانیے گا۔:)
 

متلاشی

محفلین
کیا یہ غزل مندرجہ ذیل بحر میں ہے:


فعون ؛ فعولن ؛ فعولن ؛ فعل

دیکھتے ہیں میں صحیح پہنچا یا نہیں۔
اصلاح تو اساتذہ ہی کریں گے، میں تو اپنی مشق کر رہا ہوں،
برا مت مانیے گا۔:)
استاذ گرامی نے جواب دے دیا ہے ۔۔۔ اس میں برا منانے والی کیا بات ہے بلال بھائی۔۔۔!
 
وہ خلوت میں جب سے ہیں آنے لگے​
ہماری کمزور نظر میں اس مصرع میں تنقید شعری ہے یعنی الفاظ اپنی درست جگہ پر نہیں شاید اس طرح بہتر ہو
وہ ہیں جب سے خلوت میں آنے لگے۔
باقی اگر میں غلطی پر ہوں تو برائے کرم اساتذہ اصلاح کردیں۔۔
 

الف عین

لائبریرین
وہ خلوت میں جب سے ہیں آنے لگے
مزے ہم محبت کے پانے لگے
//درست، ۔لیکن کوئی خاص بات نہیں شعر میں

رہا یاد ہم کو نہ کچھ بھی نصر
سوا ان کے سب بھول جانے لگے
//درست

پلا کر ہمیں جامِ الفت وہ پھر
ترانے وفا کے سنانے لگے
//جام کیوں پلایا اور پھر وفا (فلم ’وفا‘؟؟) کے گانے کیوں گائے یہ واضح نہیں، بہر حال شعر یوں رواں ہو گا
پلا کر ہمیں جام الفت کا وہ
ترانے وفا کے سنانے لگے

ہوئے ختم جب جام سب کے سبھی
وہ آنکھوں سے مے پھر پلانےلگے
//جام خالی ہونا زیادہ بہتر ہے۔
سبھی کے ہوئے جام خالی تو پھر
وہ آنکھوں سے مستی پلانے لگے

سنا کر محبت کے قصے ہمیں
یقیں وہ وفا کا دلانے لگے
//درست

کیا یوں ہی بے خود انہوں نے ہمیں
ہمیں یوں ہی مجنوں بنانے لگے
//’ہمیں‘ کیوں دہرایا گیا ہے
کیا یوں ہی بے خود انہوں نے مگر
ہمیں یوں ہی مجنوں بنانے لگے
لیکن بات واضح نہیں ہوئی۔ کہ شعر دو لخت ہے۔

ہوا پورا مطلب گئے پھر بدل
شب و روز کرنے بہانے لگے
//وزن میں درست ہے، لیکن ’‘کرنے بہانے‘ پسند نہیں آیا۔ اور پہلے مصرع میں ’ گئے پھر بدل‘ بھی۔

وہ کر کر تقاضے نئے روز و شب
محبت پھر اپنی جتانے لگے
//’کر کر‘ سے مراد؟ ’کر کے؟
یہ شعر بھی دو لخت ہے، دونوں مصرعوں میں باہمی تعلق سمجھنے کا قرینہ نہیں۔

کھلی آنکھ جب پھر نہ تھا پاس کچھ
ہمیں اپنے سب ہی بیگانے لگے
// کھلی آنکھ جب پھر نہ کچھ پاس تھا
زیادہ رواں ہو جائے گا۔

حقیقت تھے سمجھے جسے کل تلک
وہی آج ہم کو فسانےلگے
// حقیقت تھے سمجھے جنہیں کل تلک
وہی آج ہم کو فسانےلگے

جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی
وہ کر کے محبت ٹھکانے لگے
//واہ، زبان کا شعر ہے۔ درست
 
Top