ایک غزل،'' چھوڑ دی ہے تمام تر اُلفت''

چھوڑ دی ہے تمام تر اُلفت
مانگتی پھر رہی تھی سر اُلفت

آرزو ایک گھر بنانا تھا
توڑتی بھی تو ایک گھر اُلفت

زندگی کو سمجھ لیا سب نے
اک معمہ رہی مگر اُلفت

میری آنکھوں میں خواب اُترا ہے
کوچہ کوچہ، نگر نگر اُلفت

الفتوں کا شمار کیا کرنا
جس قدر جی میں آئے کر اُلفت

آرزوئیں اُڑان بھر پائیں
تُو لگا دے جو بال و پر اُلفت

زندگی ہو جو چار دیواری
اُس کا اظہر ہو بام و در اُلفت​
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل کہی ہے۔
چھوڑ دی ہے تمام تر اُلفت
مانگتی پھر رہی تھی سر اُلفت
یہاں ’تمام تر ’ معنی خیز نہیں۔ محض تمام میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔

آرزو ایک گھر بنانا تھا
توڑتی بھی تو ایک گھر اُلفت
۔۔سمجھ میں نہیں آیا۔ روانی کی کمی بھی ہے،

آرزوئیں اُڑان بھر پائیں
تُو لگا دے جو بال و پر اُلفت
۔۔اڑنے لگیں کہا جائے تو بہتر ہو۔

زندگی ہو جو چار دیواری
اُس کا اظہر ہو بام و در اُلفت
۔۔اور اظہر ہوں بام و در۔۔۔
بہتر ہو گا۔
باقی درست ہیں
 
Top