ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور رہنُمائی کے لیے،'' بادل کی طرح چھائے، پر چھاو تو برسو بھی''

بادل کی طرح چھائے، پر چھاو تو برسو بھی​
بھیگا ہو بدن میرا، اوروں کو خبر ہو بھی​
پابند نہیں ہوں گے، ارمان جو مچلے ہیں​
یہ کیا کہ قریب اتنے، جب آو تو ترسو بھی​
برسوں سے نہیں دیکھا، آنکھوں میں نمی آتے​
پتھر کی نہ ہو جائیں، اک بار ذرا رو بھی​
قربان کرو جاں کو، تُم کہہ کہ نہیں آتے​
ہے جان ہتھیلی پر، تُم آو مگر لو بھی​
مرنا بھی مصیبت ہے، جینے بھی نہیں دیتے​
حاصل ہے جو کچھ ہوتا، کہتے ہیں کہ کچھ کھو بھی​
کیسا بھی ہو اب قاتل، ہتھیار بھی جیسا ہو​
مرنا ہے مجھے اظہر، ہو جائے ہے اب جو بھی​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے خیالات کے اعتبار سے۔ لیکن پہلے تو یہ کہوں کہ ’رو بھی‘ اور ‘کھو بھی‘ روؤ بھی اور کھوؤ بھی کے معانی میں غلط ہیں۔

بادل کی طرح چھائے، پر چھاو تو برسو بھی​
بھیگا ہو بدن میرا، اوروں کو خبر ہو بھی​
÷÷÷ پہلا مصرع اس طرح رواں ہو سکتا ہے​
بادل کی طرح چھائے، جب چھائے ہو، برسو بھی​
البتہ دوسرے مصرع میں بھیگا بدن اور اوروں کو خبر میں ربط نہیں بن رہا ہے۔​
پابند نہیں ہوں گے، ارمان جو مچلے ہیں​
یہ کیا کہ قریب اتنے، جب آو تو ترسو بھی​
۔۔پہلے مصرع میں پابند کا استعمال؟ مچلنے پر روک تھام ممکن ہے۔ یوں کہیں تو​
ارمان جو مچلے ہیں اب تھم نہیں پائیں گے​
یا​
اب ضبط نہیں ہو گا ارمانوں پہ، کیا کیجے​
یہ کیا کہ قریب اتنےآئے ہو تو ترسو بھی​
دوسرے مصرع میں باریک سی تبدیلی کی ہے۔ ’جب آؤ‘ کی بہ نسبت یوں زیادہ بہتر اظہار ہے​
برسوں سے نہیں دیکھا، آنکھوں میں نمی آتے​
پتھر کی نہ ہو جائیں، اک بار ذرا رو بھی​
۔۔رو بھی کا شروع میں ہی کہہ چکا ہوں​
قربان کرو جاں کو، تُم کہہ کہ نہیں آتے​
ہے جان ہتھیلی پر، تُم آو مگر لو بھی​
÷÷ یہ شعر ہی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ لو بھی؟​
مرنا بھی مصیبت ہے، جینے بھی نہیں دیتے​
حاصل ہے جو کچھ ہوتا، کہتے ہیں کہ کچھ کھو بھی​
÷÷یہ بھی قافئے کی غلطی کی وجہ سے درست نہیں کر رہا۔​
کیسا بھی ہو اب قاتل، ہتھیار بھی جیسا ہو​
مرنا ہے مجھے اظہر، ہو جائے ہے اب جو بھی​
÷÷؛پہلا مصرع اس طرح بہتر ہے​
ہتھیار ہوں جیسے بھی، کیسا ہی ہو قاتل بھی​
یا​
ہتھیار ہو جیسا بھی، کیسا ہی ہو قاتل بھی​
دوسرے مصرع میں ‘ہو جائے ہے‘ کھٹک رہا ہے۔ نثر میں تو کہا جاتا ہے کہ ’جو بھی ہے، اب ہو جائے‘ لیکن اس کی نظم میں بھی ’ہے‘ اور ’اب‘ کی نشست بدلنی پڑتی ہے۔’ہو جائے اب‘ تو کہا جا سکتا ہے، کچھ متبادل سوچو۔​
 
اچھی غزل ہے خیالات کے اعتبار سے۔ لیکن پہلے تو یہ کہوں کہ ’رو بھی‘ اور ‘کھو بھی‘ روؤ بھی اور کھوؤ بھی کے معانی میں غلط ہیں۔

بادل کی طرح چھائے، پر چھاو تو برسو بھی​
بھیگا ہو بدن میرا، اوروں کو خبر ہو بھی​
÷÷÷ پہلا مصرع اس طرح رواں ہو سکتا ہے​
بادل کی طرح چھائے، جب چھائے ہو، برسو بھی​
البتہ دوسرے مصرع میں بھیگا بدن اور اوروں کو خبر میں ربط نہیں بن رہا ہے۔​
پابند نہیں ہوں گے، ارمان جو مچلے ہیں​
یہ کیا کہ قریب اتنے، جب آو تو ترسو بھی​
۔۔پہلے مصرع میں پابند کا استعمال؟ مچلنے پر روک تھام ممکن ہے۔ یوں کہیں تو​
ارمان جو مچلے ہیں اب تھم نہیں پائیں گے​
یا​
اب ضبط نہیں ہو گا ارمانوں پہ، کیا کیجے​
یہ کیا کہ قریب اتنےآئے ہو تو ترسو بھی​
دوسرے مصرع میں باریک سی تبدیلی کی ہے۔ ’جب آؤ‘ کی بہ نسبت یوں زیادہ بہتر اظہار ہے​

برسوں سے نہیں دیکھا، آنکھوں میں نمی آتے​
پتھر کی نہ ہو جائیں، اک بار ذرا رو بھی​
۔۔رو بھی کا شروع میں ہی کہہ چکا ہوں​
قربان کرو جاں کو، تُم کہہ کہ نہیں آتے​
ہے جان ہتھیلی پر، تُم آو مگر لو بھی​
÷÷ یہ شعر ہی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ لو بھی؟​
مرنا بھی مصیبت ہے، جینے بھی نہیں دیتے​
حاصل ہے جو کچھ ہوتا، کہتے ہیں کہ کچھ کھو بھی​
÷÷یہ بھی قافئے کی غلطی کی وجہ سے درست نہیں کر رہا۔​
کیسا بھی ہو اب قاتل، ہتھیار بھی جیسا ہو​
مرنا ہے مجھے اظہر، ہو جائے ہے اب جو بھی​
÷÷؛پہلا مصرع اس طرح بہتر ہے​
ہتھیار ہوں جیسے بھی، کیسا ہی ہو قاتل بھی​
یا​
ہتھیار ہو جیسا بھی، کیسا ہی ہو قاتل بھی​
دوسرے مصرع میں ‘ہو جائے ہے‘ کھٹک رہا ہے۔ نثر میں تو کہا جاتا ہے کہ ’جو بھی ہے، اب ہو جائے‘ لیکن اس کی نظم میں بھی ’ہے‘ اور ’اب‘ کی نشست بدلنی پڑتی ہے۔’ہو جائے اب‘ تو کہا جا سکتا ہے، کچھ متبادل سوچو۔​
بہت بہتر جناب، یوں دیکھ لیجیے ، صرف مطلع میں عرض ہے کہ بھیگا ہو بدن میں اور اوروں میں خبر میں گہرا تعلق ہے ۔ کہ انسان ابنی کامیابی دوسروں کو جلانے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے، تو اوروں کو خبر ہونی چاہیے، فرما دیجیے گا اگر استدلال منضور ہوا تو

بادل کی طرح چھائے، جب چھائے تو برسو بھی
بھیگا ہو بدن کچھ تو، اوروں کو خبر ہو بھی
اب ضبط نہیں ہو گا، ارمانوں پہ کیا کیجئے
یہ کیا کہ قریب اتنے آئے ہو تو ترسو بھی
برسوں سے نہیں دیکھا، آنکھوں میں نمی آتے
پتھر کی نہ ہو جائیں، اک بار یہ سوچو بھی
جیسے بھی کہو گے تُم، ارشاد کی دیری ہے
ہم در پہ بھی رہ لیں گے، پر اذن ہمیں دو بھی
ناراض رہے کوئی، موقع پہ نہ خوشیوں کے
تُم سب کو خبر کرنا، یاروں کو عدو کو بھی
قاتل بھی ہو اب کیسا، ہتھیار کوئی بھی ہو
مرنا ہے مجھے ٹہرا ، اظہر تو ہو اب جو بھی
 

الف عین

لائبریرین
بہت معمولی اصلاح کی ضرورت ہے
بادل کی طرح چھائے، جب چھائے ہو، برسو بھی​
بھیگا ہو بدن کچھ تو، اوروں کو خبر ہو بھی​
اب ضبط نہیں ہو گا، ارمانوں پہ کیا کیجئے​
یہ کیا کہ قریب اتنے آئے ہو تو ترسو بھی​
÷÷÷درست​
برسوں سے نہیں دیکھا، آنکھوں میں نمی آتے​
پتھر کی نہ ہو جائیں، اک بار یہ سوچو بھی​
۔۔بہت خوب​
جیسے بھی کہو گے تُم، ارشاد کی دیری ہے​
ہم در پہ بھی رہ لیں گے، پر اذن ہمیں دو بھی​
÷÷ یہ شعر ادھورا مھسوس ہو رہا ہے​
ناراض رہے کوئی، موقع پہ نہ خوشیوں کے​
یاروں کو خبر کرنا، بھولو نہ عدو کو بھی​
قاتل بھی ہو اب کیسا، ہتھیار کوئی بھی ہو​
مرنا ہی مجھے ٹہرا ، اظہر تو ہو اب جو بھی​
 
Top