ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور اصلاح کی غرض سے،'' بنا دینا اُسے چندا، مجھے تارا بنا دو، پھر''

بنا دینا اُسے چندا، مجھے تارا بنا دو، پھر​
رہوں کچھ اُس کے قابل میں، بہت پیارا بنا دو پھر​
ابھی ہوں چاک پر رکھا، مری قیمت ہی کیا ہو گی​
مجھے تُم بیچ لینا پر، مجھے سارا بنا دو، پھر​
یہی پانی مصیبت بن نہ جائے، مانگنا لیکن​
زمیں کو کھود کر، اُس بیچ اک دھارا بنا دو پھر​
حصول اُس کے میں پابندی اگر ہے بے قراری کی​
چلو اس آرزو کو تُم مری پارا بنا دو پھر​
پھلانگوں، اس قدر دیوار رکھنا بیچ میں اظہر​
بنانا کچھ ہے جب ٹہرا تو بس پارہ بنا دو پھر​
 

الف عین

لائبریرین
اوزان کے حساب سے اب تم کوئی غلطی نہیںکر رہے ہو۔ مبارک ہو۔
اس غزل کی ردیف اچھی نہیں ہے، ’پھر‘ سے مطلب یوں نکلتا ہے کہ ایک بار پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔ یا دوسرا استعمال شرطیہ ہوتا ہے۔ کچھ اشعار میں دونوں مطلب نہیں نکلتے۔
خطاب کس سے ہے، یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا بطور خاص مطلع میں۔
 
اوزان کے حساب سے اب تم کوئی غلطی نہیںکر رہے ہو۔ مبارک ہو۔
اس غزل کی ردیف اچھی نہیں ہے، ’پھر‘ سے مطلب یوں نکلتا ہے کہ ایک بار پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔ یا دوسرا استعمال شرطیہ ہوتا ہے۔ کچھ اشعار میں دونوں مطلب نہیں نکلتے۔
خطاب کس سے ہے، یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا بطور خاص مطلع میں۔

اگر ردیف یون ہو تو اُستاد محترم

بنا دینا اُسے چندا، مجھے تارا بنا دو نا​
وہ چاہے ٹوٹ کے مجھ کو، بہت پیارا بنا دو نا​
ابھی ہوں چاک پر رکھا، مری قیمت اُٹھے گی کیا​
مجھے تُم بیچ لینا پر، مجھے سارا بنا دو نا​
یہی پانی مصیبت بن نہ جائے، مانگ لوں تُجھ سے​
زمیں کو کھود کرپہلے وہاں دھارا بنا دو نا​
حصول اُس کے میں پابندی اگر ہے بے قراری کی​
تو پھر اس آرزو کو تُم مری پارا بنا دو نا​
پھلانگوں، اس قدر دیوار رکھنا بیچ میں اظہر​
بنانا کچھ ہے جب ٹہرا تو بس پارہ بنا دو نا​
 
ہماری صلاح

بنا یا ہے تمہیں چندا، مجھے تارا بنا دو نا​
میں تم کو ٹوٹ کر چاہوں، مجھے پیارا بنا دو نا​

ابھی ہوں چاک پر رکھا، مری قیمت اُٹھے گی کیا​
مجھے تُم بیچ لینا پھر، ابھی سارا بنا دو نا​

یہ اشکوں کی روانی تھم نہ جائے مانگ لوں تُم سے​
زمیں کو کھود کرپہلے وہاں دھارا بنا دو نا​

تمہاری چاہ میں بندش اگر ہے بے قراری کی​
تو پھر اس آرزو کو تُم مری پارا بنا دو نا​

تمنا ہے کہ اک دیوار رکھنا بیچ میں اظہر​
گرائی ہے یہی فاصل تو دوبارہ بنا دو نا​
 

الف عین

لائبریرین
یہ ردیف بہتر ہے اظہر۔
مطلع میں چاہے یہ ترمیم رکھو، یا خلیل کی ‘صلاح‘ قبول کر لو
وہ مجھ کو ٹوٹ کر چاہے، بہت پیارا بنا دو نا
دوسرے شعر میں خلیل کی صلاح درست ہے​
تیسرے شعر میں بھی خلیل کے مصرع میں روانی بہتر ہے لیکن مفہوم مختلف ہے۔ تمہارے مصرع میں​
مانگ لوں تُجھ سے​
سے بیانیہ متاثر ہوتا ہے، اس کو یوں کیا جا سکتا ہے​
یہی پانی مصیبت بن نہ جائے، کچھ کرو ایسا​
چوتھے شعر میں خلیل کی اصلاح قبول کی جا سکتی ہے یا اس مصرع کو یوں کر دو​
تمہاری چاہ میں ہے شرط اگر اس بے قراری کی​
مقطع میں خلیل کی صلاح نے مفہوم بدل دیا ہے۔ تمہارا ہی شعر اس طرح کیا جا سکتا ہے۔​
لگاؤں جست میں جتنی، رہےکچھ فاصلہ اظہر
بنانا ہی جو کچھ ٹہرا تو بس پارہ بنا دو نا
 
آداب عرض ہے استادِ محترم جناب الف عین ۔

ہماری صلاح آپ کو پسند آئی۔ شکریہ اور آداب قبول فرمائیے۔

جناب محمد اظہر نذیر بھائی آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہماری صلاح کو پسند کیا ۔ استادِ محترم نے اس صلاح کو اصلاح میں بدل دیا ہے۔ کیا خوب غزل ہوئی ہے۔ داد قبول فرمائیے۔
 
آداب عرض ہے استادِ محترم جناب الف عین ۔

ہماری صلاح آپ کو پسند آئی۔ شکریہ اور آداب قبول فرمائیے۔

جناب محمد اظہر نذیر بھائی آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہماری صلاح کو پسند کیا ۔ استادِ محترم نے اس صلاح کو اصلاح میں بدل دیا ہے۔ کیا خوب غزل ہوئی ہے۔ داد قبول فرمائیے۔

تہہ دل سے شکر گزار ہوں جناب
 
یہ ردیف بہتر ہے اظہر۔
مطلع میں چاہے یہ ترمیم رکھو، یا خلیل کی ‘صلاح‘ قبول کر لو
وہ مجھ کو ٹوٹ کر چاہے، بہت پیارا بنا دو نا
دوسرے شعر میں خلیل کی صلاح درست ہے​
تیسرے شعر میں بھی خلیل کے مصرع میں روانی بہتر ہے لیکن مفہوم مختلف ہے۔ تمہارے مصرع میں​
مانگ لوں تُجھ سے​
سے بیانیہ متاثر ہوتا ہے، اس کو یوں کیا جا سکتا ہے​
یہی پانی مصیبت بن نہ جائے، کچھ کرو ایسا​
چوتھے شعر میں خلیل کی اصلاح قبول کی جا سکتی ہے یا اس مصرع کو یوں کر دو​
تمہاری چاہ میں ہے شرط اگر اس بے قراری کی​
مقطع میں خلیل کی صلاح نے مفہوم بدل دیا ہے۔ تمہارا ہی شعر اس طرح کیا جا سکتا ہے۔​
لگاؤں جست میں جتنی، رہےکچھ فاصلہ اظہر
بنانا ہی جو کچھ ٹہرا تو بس پارہ بنا دو نا

یوں دیکھ لیجیے اُستاد محترم

بنایا ہے اُسے چندا، مجھے تارا بنا دو نا​
اُسے اچھا لگوں بس اس قدر پیارا بنا دو نا
ابھی ہوں چاک پر رکھا، مری قیمت اُٹھے گی کیا​
مجھے تُم بیچ لینا پھر، ابھی سارا بنا دو نا
یہی پانی مصیبت بن نہ جائے کچھ کرو ایسا
زمیں کو کھود کرپہلے وہاں دھارا بنا دو نا​
جو اُس کی چاہ میں بندش دھری بے قراری کی
تو پھر اس آرزو کو تُم مری پارا بنا دو نا​
لگاؤں جست میں جتنی، رہے کچھ فاصلہ اظہر
بنانا کچھ ہے جب ٹہرا تو بس پارہ بنا دو نا​
 
بہت ممنون ہوں جناب الف عین صاحب۔
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی طرف سے کی گئی اصلاح اور اس پر آپ کی طرف سے اصلاحِ مزید کے بعد کچھ اور کہنا بہت مشکل ہے۔ تاہم شاعر کے ساتھ ایک مسئلہ ہوا کرتا ہے (یہ بات جناب محمد اظہر نذیر کے ساتھ خاص نہیں) کہ وہ جب تک اظہار اور مافی ضمیر میں انطباق نہ ہو جائے وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ یہ عدم اطمینان بہت قیمتی مہمیز ہے، اس کو زندہ رہنا چاہئے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ شاعر ایک شعر کہتا ہے اور اس میں بیس پچیس سال بعد ترمیم کر دیتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔
صاحبِ غزل تک آپ کی آراء پہنچ گئیں، اب وہ جس طرح مناسب خیال فرمائیں۔
 
بہت ممنون ہوں جناب الف عین صاحب۔
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی طرف سے کی گئی اصلاح اور اس پر آپ کی طرف سے اصلاحِ مزید کے بعد کچھ اور کہنا بہت مشکل ہے۔ تاہم شاعر کے ساتھ ایک مسئلہ ہوا کرتا ہے (یہ بات جناب محمد اظہر نذیر کے ساتھ خاص نہیں) کہ وہ جب تک اظہار اور مافی ضمیر میں انطباق نہ ہو جائے وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ یہ عدم اطمینان بہت قیمتی مہمیز ہے، اس کو زندہ رہنا چاہئے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ شاعر ایک شعر کہتا ہے اور اس میں بیس پچیس سال بعد ترمیم کر دیتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔
صاحبِ غزل تک آپ کی آراء پہنچ گئیں، اب وہ جس طرح مناسب خیال فرمائیں۔

محترم اُستاد،
میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ عدم اطمنان رہتا ہے
بارک اللہ فیک
 
Top