ایک غزل،'' آ گئی ہے بہار آو تو '' اصلاح کے لئے پیش ہے

آ گئی ہے بہار آو تو
ختم ہو انتظار آو تو

پتا پتا چہک رہا ہو گا
ڈالی ڈالی نکھار آو تو

پھول بھی مسکُرا رہے ہوں گے
اور ہم اشکبار آو تو

پھر محبت میں سوچنا کیسا
جیت ہو اب کہ ہار آو تو

کل ترا تھا میں آج تیرا ہوں
کیا نہیں اعتبار؟ آو تو

جان تیرے لئے ہے دل بھی ہے
سب ترے اختیار آو تو

گلشنوں میں خزاں تو آتی ہے
پھر سے لیں گے سنوار آو تو

کب کہاں زخم آ گئے اظہر
راز ہوں آشکار آو تو​
 
کچھ تبدیلیاں کی ہیں


آ گئی ہے بہار آو تو
ختم ہو انتظار آو تو

پتا پتا چمک رہا ہے دیکھ
ڈالی ڈالی نکھار آو تو

پھول بھی مسکُرا رہے ہوں گے
اور ہم اشکبار آو تو

پھر محبت میں سوچنا کیسا
جیت ہو اب کہ ہار آو تو

کل ترا تھا میں آج تیرا ہوں
کیا نہیں اعتبار؟ آو تو

جان و دل تجھ کو دے دیے میں نے
بس ترا اختیار آو تو

گلشنوں میں خزاں تو آتی ہے
پھر سے لیں گے سنوار آو تو

کب کہاں زخم آ گئے اظہر
راز ہوں آشکار آو تو​
 

الف عین

لائبریرین
آ گئی ہے بہار آؤ تو
ختم ہو انتظار آؤ تو
//درست، لیکن کوئی خاص بات نہیں شعر میں!!

پتا پتا چمک رہا ہے دیکھ
ڈالی ڈالی نکھار آؤ تو
//ایک تو یہ غلطی ہے کہ پہلے مصرع میں ’دیکھ‘ سے "تو" کا صیغہ ہے، اور دوسرے میں ’آؤ‘ میں ’تم‘ کا صیغہ۔ اس کا خیال رکھا کرو، دوسرے یہ کہ پہلے مصرع میں ‘دیکھ‘ اور دوسرے مصرع میں پھر ’آؤ‘، صیغے الگ الگ ہیں۔ اس کے علاوہ پتے چمکتے ہیں؟ یہ نئی بات معلوم ہوئی۔ اور نکھار کے بعد فقرہ مکمل نہیں۔ غرض بہت اغلاط ہیں۔ ’آؤ تو‘ میں محبوب کو کیوں بلایا جا رہا ہے، یہ واضح نہیں۔

پھول بھی مسکُرا رہے ہوں گے
اور ہم اشکبار آؤ تو
//دوسرے مصرع میں فقرہ مکمل نہیں، اس کو یوں کیا جا سکتا ہے۔
ہم رہے اشکبار۔۔ آؤ تو۔

پھر محبت میں سوچنا کیسا
جیت ہو اب کہ ہار آؤ تو
//درست۔ لیکن ردیف؟؟

کل ترا تھا میں آج تیرا ہوں
کیا نہیں اعتبار؟ آؤ تو
//کیا محبوب کے آنے سے ہی ثبوت مل جاتا ہے اپنی وفا کا؟ مفہوم کے اعتبار سے شعر عجیب و غریب ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بھی ردیف کا مفہوم کچھ نہیں ہے۔
تکنیکی اعتبار سے صرف پہلے مصرع میں ایک ’بھی‘ کی کمی محسوس ہوتی ہے، کہ یہی کہنا چاہ رہے ہو نا کہ کل بھی تمہارا تھا اور آج بھی تمہارا ہوں،
کل بھی تھا، آج بھی میں تیرا ہوں
سے یہ سقم دور ہو سکتا ہے۔

جان و دل تجھ کو دے دیے میں نے
بس ترا اختیار آؤ تو
//اغلاط:
۱۔ ردیف
۲۔دوسرے مصرع کا فقرہ مکمل نہیں۔ ہاں اگر ’اب ترا اختیار‘ ہو تو لگتا ہے کہ بات مکمل ہو گئی۔
۳۔ یہاں ایک ہی مصرع دوسرے) میں ’تو‘ اور ’تم‘ کا صیغہ ہے۔

گلشنوں میں خزاں تو آتی ہے
پھر سے لیں گے سنوار آؤ تو
//’گلشنوں ‘میں جمع کا صیغہ کیوں؟ ’ہر چمن‘ سے یہ سقم دور ہو سکتا ہے۔ باقی درست شعر ہے۔

کب کہاں زخم آ گئے اظہر
راز ہوں آشکار آؤ تو
//یہاں بھئ ردیف محض اضافی ہے۔
 
Top