ایک شعر

پپو

محفلین
جناب پپو اور جناب محمد احمد آپ حغرات سے استدعا ہے کہ اپنی گپ شپ کے لیے ایک نیا دھاگہ شروع کر لیجیے تاکہ اساتذہ کرام غیر ضروری مراسلات سے بچ جائیں، نوازش ہو گی​
بھائی اظہر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے میں نے ایک غزل برائے اصلاح پوسٹ کی ہے اور اسی پر بات ہو رہی ہے اب کیا اس کا تذکرہ کہیں اور کریں
 

محمداحمد

لائبریرین
اُستاد محترم ایک کوشش اور کیے لیتے ہیں
محبت کے خیالوں کےکسی محور کا ہو جاوں
جنوں کے رنگ میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں
سدھر جانا نہیں ممکن اگر حالات کا تو پھر
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
بتا اے درد دل کیا مستقل ساغر کا ہو جاوں؟
نہیں چاہوں میں طولُ عرض کا مالک بنوں اظہر
مجھے کافی زمیں ہے کاش مٹھی بھر کا ہو جاوں
 
بھائی اظہر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے میں نے ایک غزل برائے اصلاح پوسٹ کی ہے اور اسی پر بات ہو رہی ہے اب کیا اس کا تذکرہ کہیں اور کریں
محترم عرض ہے کہ ایک مخصوص کلام کے لیے ایک ہی لڑی ہو تو اساتذہ کے لیے بھی آسانی رہتی ہے ۔ احسن تو یہی ہے کہ آُپ ایک نیا دھاگہ شروع کیجیے تاکہ اساتذہ کو معلوم بھی ہو :) کوئی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت قبول کیجیے گا
 

الف عین

لائبریرین
ہاں، اب درست لگ رہے ہیں اشعار، لیکن مقطع میں اب بھی روانی کی کمی ہے۔ اسی خیال کو کچھ دوسرے الفاظ میں کہہ کے دیکھو۔
 
اب دیکھیے تو اُستاد محترم

محبت کے خیالوں کےکسی محور کا ہو جاوں
جنوں کے رنگ میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں
ترا در چھوڑ دیتا ہوں، مگر اتنی دعا کرنا
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
پیوں اک جام غم یا مستقل ساغر کا ہو جاوں؟
نہیں کرنا مجھے اظہار الفت، چار لفظوں میں
مجسم ہی محبت ہو میں جس مظہر کا ہو جاوں
پھرا ہوں دربدر اظہر، چلو خاطر تغیر کے
پیالہ وصل کا پی لوں، کسی کے در کا ہو جاوں
 

الف عین

لائبریرین
تفصیلی اصلاح اب، دیر آید درست آید

محبت کے مباحث کا ذرا محور تو ہو جاوں
مرا دل چاہتا ہے اب کہ میں اظہر کا ہو جاوں
//مباحث کا محور؟ یہ دوسرا مصرع کون کہہ رہا ہے؟

سبھی کے ساتھ چل پانا ، نہیں ممکن ، مگر یوں ہے
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
//پہلے مصرع سی دوسرے کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔ دوسرے مصرع میں ’یا میں‘ میں الف گرنا اچھا نہیں۔ اسکو یوں کیا جا سکتا ہے
مرا احساس مر جائے، یا پتھر کا میں ہو جاؤں

میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
//درست

مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
مگر اب سوچتا ہوں ، پی ہی لوں ، ساغر کا ہو جاوں
//درست، شعر کا مفہوم اگرچہ سمجھ میں نہیں آیا۔

چھڑا لوں جان ابتر سے، دعا کرتا ہوں میں اظہر
نہیں ممکن اگر اچھا، تو کچھ بہتر کا ہو جاوں
//’ابتر سے‘ اور ’بہتر کا‘ سے مطلب؟
 
Top