ایک شعر اور خدا کی ایک صفت پر شعراء کی آراء

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آج ہم نے فیس بک پر ایک شعر پوسٹ کیا:
مقامِ عرشِ اعظم پر وہی قائم، وہی قابض
وہی خالق، وہی مالک، وہی یکتا، وہی دانا ۔۔۔

ظاہر ہے یہ علامہ اقبال کے ایک شعر سےبہت زیادہ Inspired ہے:
نگاہِ عشق و مستی میں، وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
۔۔۔
اس پر فیس بک سے جن افراد نے رائے دی، ان کے نام اور آراء یہاں درج کررہا ہوں۔ تعریف و توصیف اور اس کی شعری حیثیت اپنی جگہ ، لیکن یہاں ایک علمی بحث ہوئی ہے جس پر مولانا محمد اشرف قریشی سے بھی میں نے رائے لی جس کا ذکر اس بحث میں موجود ہے۔۔۔ آپ سے بھی گزارش ہے کہ اپنی آراء سے نوازیں ۔۔۔
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
مزمل شیخ بسمل
ان کے علاوہ اگر کوئی صاحب دینی حوالے سے صائب الرائے ہوں، تو انہیں ٹیگ کرنے کی درخواست ہے۔۔۔

مقامِ عرشِ اعظم پر وہی قائم، وہی قابض
وہی خالق، وہی مالک، وہی یکتا، وہی دانا ۔۔۔

  • Malik Javed · 8 mutual friends
    beshak
    about an hour ago · Like

  • Muhammad Ashraf Qureshi · 33 mutual friends
    واہ : ماشاء اللہ کیا خوبصورت کلام ہے ۔ براہ کرم وضاحت کریں کہ یہ شاہکار شعر کس شاعر کا کلام ہے ؟
    about an hour ago · Unlike · 1

  • Shahid ShahnawazMuhammad Ashraf Qureshi sahab, ye mera she'r hai, jo Iqbal ke aik she'r ko madd-e-nazar rakh ker likha gaya hai...
    about an hour ago · Like · 1

  • Muhammad Ashraf Qureshi · 33 mutual friends
    Shahid Shahnawaz صاحب یہ بہت عمدہ شعرہے لیکن اس کے ساتھ نام نہ لکھنے کی وجہ سے جب یہاں سے لوگ شئیر کریں گے تو لاوارث ہو جائے گا براہ کرم شعر کے ساتھ نام لکھ دیا کریں ۔ جزاک اللہ
    about an hour ago · Unlike · 3

  • Shahid ShahnawazMuhammad Ashraf Qureshi sahab, she'r ke neeche Engilsh meN nam likha hai ... aur "Inspired by Iqbal" bhi likha hai ... be-had shukriya...
    about an hour ago · Like

  • Naseem Shaikhshahid shahnawaaz bhai qabiz lafz hamd o sana main nahi aata qabiz matlab kissi aur ki cheez per qabza agar issay wo hi qaim wo hi daim kah detay to yah jazbay ki tarah paak ho jaata aik baat dekhi to kah di aap mashallah sahim e ilm hain
    about an hour ago · Like · 1

  • Naeem Ur Rehmaan Shaaiqسبحان اللہ ، اچھا شعر ہے ۔ "لفظ ِ قابض مجھے بھی کھٹک رہا ہے ، لیکن اسماء الحسنیٰ میں اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام "قابض" بھی ہے ، ممکن ہے ، وہاں قابض دوسرے معنوں میں استمعال ہوا ہو ، شاید روح کے قبض کرنے کے لیے استعمال ہوا ، جو براہ راست تو عزرائیل علی...See More
    about an hour ago · Edited · Like

  • Siadath Khan · 10 mutual friends
    Allah Malik wo mukhtar hai us ko Qhabiz hone ki zarourt nahi hai---------------
    about an hour ago · Like

  • Shahid Shahnawazالقابض : کنٹرولر اور محافظ کے معنی بھی استعمال ہوتا ہے .. یہ بات Muhammad Ashraf Qureshi Sahabسے بھی یہ بات پوچھ چکا ہوں۔۔۔ اللہ ہم سب کو درست لکھنے اور سمجھنے کی توفیق دے (آمین) Naseem Shaikh , Naeem Ur Rehmaan Shaaiq aur Siadath Khan ... آپ سب کی تشویش سر آنکھوں پرکیونکہ اس میں کوئی بدنیتی نہیں تھی ۔۔ غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔۔۔
    about an hour ago · Like · 1

  • Naseem Shaikhmagar jab muqam e arshe azam hay to qabis ka mafhoom kuch aur hota hay shahid bhai aap ki neeyat per shak nahi hay ghalti behar haal insaan say hi hoti hay salamat rahain
    about an hour ago · Like

  • Iqbal Tariqبھای شاھد شاھنواز صاحب کمال کا شعر ھے ۔۔۔
    بلا شبہ اللہ تعالی عرشِ اعظم پر ھے اور اسے علم ھے لیکن قرآن میں ،، بلا شبہ قرآن اللہ کا ھی کلام ھے ،، اللہ تعالی کہتا ھے کہ تمام تعریفیں اللہ ھی کے لیے ھیں جو تمام زمینوں اور آسمانوں کا مالک ھے جب اللہ عرشِ اعظم پر ھے اور کلام الہی میں ھے کہ ،، تمام تعریفیں اللہ ھی کے لیے ھیں ،، اور ،، شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ھے ،، حالانکہ نہ خود اللہ کو شک ھے اور نہ اس کے بندوں کو کہ ،، اللہ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ھے ،، لیکن ھم اس کے بنا کلام اللہ پڑھ ھی نہیں سکتے کیونکہ یہی ابتدا ھے کلام اللہ کی نماز کی بھی اور ھر کام سے پہلے ایک مسلمان یہی کہتا ھے کہ ،، شروع کرتا ھوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ھے ،، جب وہ مقامِ عرشِ اعظم پر ھے قایم بھی ھے خالق و مالک ، یکتا و دانا بھی زندگی لینے اور دینے والا بھی تو ھم قابض کیوں نہیں کہہ سکتے جبکہ اسی کے قبضے میں ساری خدای ھے
    48 minutes ago · Unlike · 1

  • Gulzar Zaidi · 4 mutual friends
    Laraib
    36 minutes ago · Unlike · 1

  • Rasul Khan Mahsud · 4 mutual friends
    beshak
    28 minutes ago · Unlike · 1

  • Shahid ShahnawazNaseem Shaikh Sahab, mera bhi yahi kehna hai, jesa ke Iqbal Tariq sahab ke istadlal se bhi zahir hai, agar Qabiz ALLAH ki sift hai to us ko manfi ma'noN meN istamal ker hi nahiN sakte... QABIZ ko qabza kerne ke ma'noN meN hi lijiye... Arsh-e-Azam per ALLAH ka qabza hai, is ka matlab sirf itna hai ke ARSH us ke qabze meN hai, ham QABZA-E-QUDRAT bhi to kehte haiN... ye lafz to negative nahiN hai, phir agar ARSH per wo sirf QAIM o DAIM hai lekin ARSH us ke qabze meN hai, is akhri sift ki nafi ki jaye ke NAHIN, qabze meN nahiN, to ap ne MALKIAT ki nafi ker di... isi se bachna chahta hoN ...
 
بات بہت سیدھی ہے صاحبو!
ہم نے عجیب سا رویہ اختیار کر لیا ہے۔ اوپر والے سارے مکالمے میں زیادہ حصہ عقلیت پر مبنی ہے۔ جیسے ہم فزکس یا انجینئرنگ کی کسی تھیوری پر بات کر رہے ہوں۔ جب مذکور اللہ کریم کی صفات ہیں تو اس کا بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ اللہ کی کتاب سے فیض حاصل کیا جائے اور بنیاد اللہ کریم کے اپنے ارشادات کو بنایا جائے جن میں اللہ کریم نے خود اپنی صفات کو بیان فرمایا ہے۔ اور پھر اُنہی ارشادات کو کافی سمجھا جائے۔ ہماری یہ جرأت؟ کہ ہم اس پر کچھ جمع تفریق کر سکیں!؟ معاذ اللہ۔
 
ہماری عمومی بدقسمتی یہ ہے اور زوالِ امت کی وجہ بھی کہ ہم قرآنِ کریم سے دُور، دُور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اور مجرداً عقل پر بھروسا کئے بیٹھے ہیں۔ اصولی بات یہ ہے کہ انسان عقلِ کُل نہیں ہے۔
 
میں کچھ کہنے کی اجازت چاہونگا۔
اللہ تعالی قابض ہے اس میں کسی کو شک نہیں۔ دائم بھی ہے، یکتا بھی، دانا بھی ہے اس سے بھی انکار نہیں۔
البتہ:
عرشِ اعظم پر قائم ہونے سے مراد کیا ہے؟ پھر قابض ہونا بھی عرش پر کیا موقوف؟
اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عرش پر ہی قیام کرتے ہیں تو یہ عقائد کے لحاظ سے اور اللہ کی صفات کے حوالے سے بھی غلط ہے۔
کیونکہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ اسے کسی ایک مقام پر موقوف کرنا درست نہیں۔ اگر اللہ تعالی کی ذات کے عرش پر قیام کو مان لیا جائے تو معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عرش پر جانے کا عقیدہ تو نعوذ باللہ توحید صفات میں اللہ کے ساتھ نبی ﷺ کو شریک کرنا ہوا۔۔۔
اب یا تو معراج کی رات حضور ﷺ کے عرش تک جانے کا انکار کرنا ہوگا، یا اللہ کے عرش پر قیام کا انکار کرنا ہوگا۔
اب چونکہ یہ بات تو طے ہے کہ نبی ﷺ عرش تک گئے ہیں، اس لئے اللہ کے عرش کے ساتھ اللہ کی ذات کو موقوف کردینا درست نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ اسے کسی جگہ کی قید میں نہیں لایا جاسکتا۔
بہتر ہوگا کہ شعر میں ترمیم کی جائے اور اس کا مفہوم جو کہ غلط ہے بدل دیا جائے۔

محمد اسامہ سَرسَری توجہ فرمائیں۔
 
میں کچھ کہنے کی اجازت چاہونگا۔
اللہ تعالی قابض ہے اس میں کسی کو شک نہیں۔ دائم بھی ہے، یکتا بھی، دانا بھی ہے اس سے بھی انکار نہیں۔
البتہ:
عرشِ اعظم پر قائم ہونے سے مراد کیا ہے؟ پھر قابض ہونا بھی عرش پر کیا موقوف؟
اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عرش پر ہی قیام کرتے ہیں تو یہ عقائد کے لحاظ سے اور اللہ کی صفات کے حوالے سے بھی غلط ہے۔
کیونکہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ اسے کسی ایک مقام پر موقوف کرنا درست نہیں۔ اگر اللہ تعالی کی ذات کے عرش پر قیام کو مان لیا جائے تو معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عرش پر جانے کا عقیدہ تو نعوذ باللہ توحید صفات میں اللہ کے ساتھ نبی ﷺ کو شریک کرنا ہوا۔۔۔
اب یا تو معراج کی رات حضور ﷺ کے عرش تک جانے کا انکار کرنا ہوگا، یا اللہ کے عرش پر قیام کا انکار کرنا ہوگا۔
اب چونکہ یہ بات تو طے ہے کہ نبی ﷺ عرش تک گئے ہیں، اس لئے اللہ کے عرش کے ساتھ اللہ کی ذات کو موقوف کردینا درست نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ اسے کسی جگہ کی قید میں نہیں لایا جاسکتا۔
بہتر ہوگا کہ شعر میں ترمیم کی جائے اور اس کا مفہوم جو کہ غلط ہے بدل دیا جائے۔

محمد اسامہ سَرسَری توجہ فرمائیں۔

میں ذاتی طور پر اس طرح کی ابحاث میں پڑنے کی ہمت نہیں کرپاتا ہوں چونکہ آپ نے متوجہ ہونے کا کہا ہے تو کچھ باتیں ذہن میں ہیں وہ کردیتا ہوں:
1۔ ثم استوی علی العرش قرآن کی آیت ہے اور اس کی مکمل حقیقت کہ استوا سے کیا مراد ہے اور عرش کیا ہے اور عرش پر اللہ کا استوا کیسے ہے ان باتوں کی حقیقت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے لہٰذا اگر یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر موجود ہے یا عرش پر رہتا ہے یا عرش پر بیٹھا ہے تو اس سے اللہ کے لیے جسم کو ماننا لازم آئے گا۔ معاذ اللہ!
3۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ، یہ اردو محاورہ ہے جبکہ اصل مفہوم اس کا یہ ہے کہ وہ لامکاں ہے یعنی جگہ سے پاک ہے۔
4۔ جہاں تک بات شعر کی ہے تو اس کے مطلب میں اصل اعتبار شاعر کی اپنی مراد کا ہوگا۔ البتہ جب بات اتنی گہرائی میں چلی جائے تو کیا حرج ہے کہ ہم اپنا ایک شعر ہی بدل دیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
 
میں ذاتی طور پر اس طرح کی ابحاث میں پڑنے کی ہمت نہیں کرپاتا ہوں چونکہ آپ نے متوجہ ہونے کا کہا ہے تو کچھ باتیں ذہن میں ہیں وہ کردیتا ہوں:
1۔ ثم استوی علی العرش قرآن کی آیت ہے اور اس کی مکمل حقیقت کہ استوا سے کیا مراد ہے اور عرش کیا ہے اور عرش پر اللہ کا استوا کیسے ہے ان باتوں کی حقیقت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے لہٰذا اگر یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر موجود ہے یا عرش پر رہتا ہے یا عرش پر بیٹھا ہے تو اس سے اللہ کے لیے جسم کو ماننا لازم آئے گا۔ معاذ اللہ!
3۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ، یہ اردو محاورہ ہے جبکہ اصل مفہوم اس کا یہ ہے کہ وہ لامکاں ہے یعنی جگہ سے پاک ہے۔
4۔ جہاں تک بات شعر کی ہے تو اس کے مطلب میں اصل اعتبار شاعر کی اپنی مراد کا ہوگا۔ البتہ جب بات اتنی گہرائی میں چلی جائے تو کیا حرج ہے کہ ہم اپنا ایک شعر ہی بدل دیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔


آپ نے درست فرمایا۔
میرا مقصد آپ سے تصدیق کروانا تھا۔ کیونکہ آپ بہر حال علامہ ہیں۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین

یہ فوٹو دیکھئے گا۔


اس میں اللہ کریم کے وہ صفاتی نام شامل ہیں جو کتاب اللہ میں مذکور ہیں۔ تیسری سطر میں پہلا اسم ہے ’’القابض‘‘ ۔


دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔

بے حد شکریہ استادِ محترم ۔۔
اور محترم مزمل شیخ بسمل اور جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحبان ۔۔۔ آپ کی نگارشات پڑھیں ۔۔۔ تو ہمارا استدلال آپ اوپر دیکھ چکے ہوں گے۔۔ آخری بار میں نے لکھا تھا:
قابض اللہ کی صفت ہے، اس کو منفی معنوں میں استعمال کر ہی نہیں سکتے۔ قابض کو قبضہ کے معنوں میں ہی لیجئے۔ عرش اعظم پر اللہ کا قبضہ ہے، اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ عرش اس کے قبضے میں ہے۔ ہم قبضہ قدرت بھی تو کہتے ہیں۔ یہ لفظ تو منفی نہیں۔ پھراگر عرش پر وہ صرف قائم و دائم ہے، عرش اس کے قبضے میں، اس آخری صفت کی نفی کی جائے کہ نہیں، عرش قبضے میں نہیں تو آپ نے ملکیت کی نفی کردی۔۔۔ اسی سے بچنا چاہتا ہوں۔۔۔
اب آگے آپ کی آراء کو دیکھتے ہوئے میں مزید لکھ رہا ہوں:
اللہ کیصفت القابض عرش پر قبضے سے کہیں بڑی ہے۔۔ اس کے قبضے میں کتنے عالمین ہیں، ہم آپ کیا جانیں۔۔۔ شعر کہتا ہے اللہ مقامِ عرشِ اعظم پر قابض ہے۔۔۔ یعنی قبضے کی صفت کا اطلاق عرشِ اعظم جیسی عظیم شے پر ہونا شاعر کے نزدیک قابل تعریف بات ہے۔۔۔ وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ صرف عرش اعظم پر قابض ہے اور کہیں نہیں۔۔۔دوسرے مصرعے میں باقی صفات کا ذکر آیا لیکن ان کا اطلاق کس کس شے پر ہے، اس کی تفصیل نہیں دی گئی ۔۔۔جب کوئی شاعر کہتا ہے: زمین و آسماں تیرے لیے ہیں ۔۔۔ تو وہ قرآن کی آیات کا مفہوم ہی بیان کر رہا ہوتا ہے۔۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ صرف زمین اور آسمان ہی اللہ کے لیے ہیں، اور کچھ نہیں ۔۔۔
اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عرش پر ہی قیام کرتے ہیں تو یہ عقائد کے لحاظ سے اور اللہ کی صفات کے حوالے سے بھی غلط ہے۔ (اوپر اس کا جواب دیا گیا)
اور میں بھی قائل ہوں کہ ’’اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ اسے کسی جگہ کی قید میں نہیں لایا جاسکتا۔‘‘
بڑی باریک سی بات پڑھی تھی میں نے کہ لفظ ’’موجود‘‘ سے وجود ثابت ہوتا ہے، اس لیے اس کو استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔۔۔ خیر، یہ ہمارا موضوع نہیں ہے ۔۔۔
اسامہ سرسری صاحب فرماتے ہیں:
۔ ثم استوی علی العرش قرآن کی آیت ہے اور اس کی مکمل حقیقت کہ استوا سے کیا مراد ہے اور عرش کیا ہے اور عرش پر اللہ کا استوا کیسے ہے ان باتوں کی حقیقت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
یہیں ہماری بات ختم ہوجاتی ہے کہ ان باتوں کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔۔۔ مزید ہم کچھ نہیں لکھتے ۔۔۔ تو چلئے اگر میں اس شعر میں تبدیلی اور کوئی ایسی صورت چاہوں جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو تو وہ آپ کے خیال میں کیا ہوگی؟
 
میری اوقات اتنی نہیں ہے شاہد شاہنواز صاحب

اللہ کریم نے اپنے بارے میں فرما دیا: ’’اس جیسی کوئی شے نہیں‘‘۔ سو، وہ (اللہ کریم) اور اس کی صفات میرے حیطہِ ادراک میں کیسے آ سکتے ہیں۔ ہم خود کو اس کے بندے ثابت کر سکیں تو ہی بہت ہے۔ وہ اور اس کی صفات کیسے کارفرما ہیں، میں اُن پر کلام کروں؟ ۔۔۔ میری یہ جرات؟ ۔۔۔
 
اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عرش پر ہی قیام کرتے ہیں تو یہ عقائد کے لحاظ سے اور اللہ کی صفات کے حوالے سے بھی غلط ہے۔ (اوپر اس کا جواب دیا گیا)
اور میں بھی قائل ہوں کہ ’’اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔ اسے کسی جگہ کی قید میں نہیں لایا جاسکتا۔‘‘
بڑی باریک سی بات پڑھی تھی میں نے کہ لفظ ’’موجود‘‘ سے وجود ثابت ہوتا ہے، اس لیے اس کو استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔۔۔ خیر، یہ ہمارا موضوع نہیں ہے ۔۔۔
اسامہ سرسری صاحب فرماتے ہیں:
۔ ثم استوی علی العرش قرآن کی آیت ہے اور اس کی مکمل حقیقت کہ استوا سے کیا مراد ہے اور عرش کیا ہے اور عرش پر اللہ کا استوا کیسے ہے ان باتوں کی حقیقت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔


میرے دوست آپ نے اگر میرے نے میرا مراسلہ اوپر پڑھا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میرا اعتراض در حقیقت عرش پر قیام کے حوالے سے ہے۔
عرش پر قیام سے ذہن میں لغوی طور پر اللہ کا عرش پر رہنا، کھڑا ہونا یا بیٹھا ہونا ہی تو آتا ہے۔
اب دیکھیں قران کیا کہتا ہے:

1۔ مشرق بھی اللہ کا اور مغرب بھی اللہ کا، تم جس طرف نگاہ اٹھاؤ وہاں اللہ ہی موجود ہے۔ البقرہ
2۔ اے پیغمبر! جب لوگ میری ذات کے بارے میں پوچھیں تو جواب دو کہ خدا قریب ہے۔ البقرہ ( جبکہ عرش بعید ہے)
3۔ ہم تمہاری شہرگ سے بھی قریب ہیں۔ الکہف

اسی طرح متعدد آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ کسی ایک جگہ قیام سے پاک ہیں۔ یوں بھی جب اللہ کے فرشتے اپنی اصل حالت میں کسی ایک جگہ قیام نہیں کر سکتے تو اللہ کی ذات کا تو کیا ہی اندازہ لگایا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ امام ترمذی سورۃ الحدید کی تفسیر میں نقل فرماتے ہیں کہ اگر تم کوئی رسی نیچے والی زمین تک پھینکو تو وہ رسی بھی اللہ کی ذات تک ہی جائے گی۔
اللہ کی ذات کا عرش پر بیٹھنے کا ہمارے دور میں صرف ایک ہی گروہ قائل ہے۔ جسکی وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھتا :)
جہاں تک مستوی علی العرش کا سوال ہے تو محمد اسامہ سَرسَری بھائی نے کہا کہ اس کی کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
امام مالک فرماتے ہیں:
استوا ہمیں معلوم ہے، اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں، اس بارے میں سوال کرنا بدعت ہے، ایمان اس پر لانا واجب ہے۔

والسلام
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہم بہت دور نکل گئے ، اس شعر کو پھر ایک بار دیکھئے، شاید ہمارا ابہام دور ہوجائے:
مقامِ عرشِ اعظم پر وہی قائم، وہی قابض، وہی خالق، وہی مالک، وہی یکتا، وہی دانا۔۔۔۔
شعر کا مطلب یہ بھی تو لیا جاسکتا ہے کہ وہ قائم و قابض ہستی عرش اعظم پر ہے جو خالق، مالک، یکتا اور دانا ہے ۔۔۔
ہاں، شعر اس مطلب کو واضح نہیں کرتا تو میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں، الفاظ تبدیل ہوسکتے ہیں، شعر بدل سکتا ہے۔۔۔ شعر میں اصلاح ہوسکتی ہے۔۔۔ جس ہستی کے بارے میں یہ شعر ہے اس کا کلام قرآن ہے۔۔۔ میرا کلام محض شعر ہے، قرآن نہیں ہے کہ تبدیل نہ کیاجائے۔۔۔
 
مقامِ عرشِ اعظم پر وہی قائم، وہی قابض
وہی خالق، وہی مالک، وہی یکتا، وہی دانا

اس شعر میں اصل مسئلہ مراعات النظیر کا ہے۔ اللہ کریم کے صفاتی نام تو بہت ہیں، ان میں سے کچھ کو منتخب کر کے شعر کرنا ہے تو بھائی ناموں کے انتخاب اور ترتیب میں فن کاری سے کام لیجئے۔ جو مباحث ہو چکے اُن سے قطع نظر پہلے مصرعے میں عجزِ بیان کی جو کیفیت ہے اس سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے مندرجات کو بدل دیجئے۔

کچھ رعایات کو دیکھ لیجئے۔ خالق اور فاطر قریب المعانی ہیں، مالک اور مولٰی قریب المعانی ہیں، یکتا اور واحد، قریب المعانی ہیں،
یہاں پہلے دو (خالق مالک) عربی زبان میں ہیں، دوسرے دو (یکتا دانا) فارسی زبان میں ہیں۔ ایسی ہی رعایات پہلے مصرعے میں بھی لائی جا سکتی ہیں۔ صفاتِ الٰہی کا احاطہ نہ تو ہو سکتا ہے، نہ یہاں ایسا کوئی مقصود ہے۔

ایک درخواست ضرور کروں گا، کہ جیسے مباحث اوپر ہوئے ہیں، ایسے مباحث میں مجھ فقیر کو شامل نہ کریں تو نوازش ہو گی۔

شاہد شاہنواز
 
مقامِ عرشِ اعظم پر وہی قائم، وہی قابض
وہی خالق، وہی مالک، وہی یکتا، وہی دانا

بڑی خوبصورت نظیر بن سکتی ہے کہ ایک مصرعے میں آپ عرشِ اعظم کی بات کریں تو دوسرے میں کرسی کی بات کریں
اور دونوں کو جوڑ دیں۔ [ARABIC]وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْض[/ARABIC]

’’عرشِ اعظم‘‘ کے ساتھ مضاف ’’مقام‘‘ کی ضرورت نہیں۔
 
Top