ایک سادہ سی پرانی طرز کی غزل برائے تنقید، تبصرہ اور اصلاح کے،'' رینا، رینا، نہ صبح ہو پائے''

رینا، رینا، نہ صبح ہو پائے
مدتوں بعد پی ہیں گھر آئے

ہجر برسات مختلف دونوں
اب کے برکھا وصال رُت لائے

جس نے بارش میں کھو دیا سب کچھ
گرتی بوندوں پہ گیت کیا گائے

بات بس بھی کرو نا برھا کی
وصل اب بے مزہ نہ ہو جائے

من میں آئے خیال پیتم کا
سامنے ہو بس آنکھ جھپکائے

تُم بھی اظہر کمال کرتے ہو
آتا جاتا یہی ہے فرمائے​
 

الف عین

لائبریرین
ہندی الفاظ کے درمیان فارسی الفاظ ذرا عجیب سے لگتے ہیں۔
بہر حال دیکھتا ہوں بعد میں۔ مقطع سمجھ میں نہیں آیا۔
 
کرنے کو تو کیا جا سکتا ہے، لیکن اچھا نہیں لگتا۔ مقطع کا کچھ سوچو تو بات آگے بڑھے
جی یوں دیکھ لیجئے اُستاد محترم مقطع کو

رینا، رینا، نہ صبح ہو پائے
مدتوں بعد پی ہیں گھر آئے

ہجر برسات مختلف دونوں
اب کے برکھا وصال رُت لائے

جس نے بارش میں کھو دیا سب کچھ
گرتی بوندوں پہ گیت کیا گائے

بات بس بھی کرو نا برھا کی
وصل اب بے مزہ نہ ہو جائے

من میں آئے خیال پیتم کا
سامنے ہو بس آنکھ جھپکائے

تُم ہو اظہر کمال کے شاعر
اب تو ہر شخص یہ ہی فرمائے
:battingeyelashes:
 

الف عین

لائبریرین
ہجر برسات مختلف دونوں
اب کے برکھا وصال رُت لائے
÷÷شعر واضح نہیں۔

من میں آئے خیال پیتم کا
سامنے ہو بس آنکھ جھپکائے
۔۔شاید آنکھ جھپکتے کہنا چاہ رہے ہو، آنکھ جھپکائے اس کے ہم معنی نہیں

تُم ہو اظہر کمال کے شاعر
اب تو ہر شخص یہ ہی فرمائے
÷÷کیا فرمائے قافیہ لانا ضروری ہےِ؟
 
ہجر برسات مختلف دونوں
اب کے برکھا وصال رُت لائے
÷÷شعر واضح نہیں۔

من میں آئے خیال پیتم کا
سامنے ہو بس آنکھ جھپکائے
۔۔شاید آنکھ جھپکتے کہنا چاہ رہے ہو، آنکھ جھپکائے اس کے ہم معنی نہیں

تُم ہو اظہر کمال کے شاعر
اب تو ہر شخص یہ ہی فرمائے
÷÷کیا فرمائے قافیہ لانا ضروری ہےِ؟
اُستاد محترم غزل میں تبدیلیاں کئے دیتا ہوں، بلکہ غزل ہی تبدیل کرتا ہوں :battingeyelashes:

دل کوئی آرزو نہ رہ جائے
بعد مدت کے پی ہیں گھر آئے

رات بولے ملن کبھو ہو گا
اور برسات بھی یہ فرمائے

وصل کچھ بھی کہو، نہیں مرہم
گھاؤ ہجراں کے کیسے بھر پائے

باغ الفت اداس کیونکر ہے
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے

ہر طرف سے غموں کی بارش کیوں
کاش برکھا نوید بھی لائے

چھوڑ اظہر یہ شاعری چل دے
اُس بنا کچھ نہیں ہے جو بھائے
 
کچھ اور تبدیلیاں

دل کوئی آرزو نہ رہ جائے
بعد مدت کے پی ہیں گھر آئے


رات پوچھے ملن کبھو ہو گا
اور برسات بھی یہ فرمائے

وصل کچھ بھی کہو، نہیں مرہم
گھاؤ ہجراں کا کیسے بھر پائے

باغ الفت اداس کیونکر ہے
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے

ہر طرف سے غموں کی بارش کیوں
اب کے برکھا نوید کچھ لائے

چھوڑ اظہر یہ شاعری چل دے
اُس کے بن کچھ نہیں ہے جو بھائے



 

الف عین

لائبریرین
دل کوئی آرزو نہ رہ جائے
بعد مدت کے پی ہیں گھر آئے
÷÷درست

رات پوچھے ملن کبھو ہو گا
اور برسات بھی یہ فرمائے
÷÷رات پوچھے‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا سوال ہے کہ کبھی ملن بھی ہو گا؟ لیکن رات محض فرما رہی ہے۔ یوں کہو تو اک بات ہے
رات کہتی ہے ہو رہے گا ملن
اگرچہ ’فرمائے‘ کا قافیہ اچھا نہیں لگ رہا۔ اللہ کے ساتھ تو توُ کے ساتھ فرمانا قابل قبول ہے، لیکن دوسروں کے لئے یہ تکریم کا لفظ ہے، جس کے ساتھ تو یا واحد کا صیغہ درست نہیں۔ ’رات صاحبہ یہ فرمائیں‘ کہنا چاہئے۔

وصل کچھ بھی کہو، نہیں مرہم
گھاؤ ہجراں کا کیسے بھر پائے
÷÷درست

باغ الفت اداس کیونکر ہے
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے
۔۔کیونکر ہے‘ اضافی لگ رہا ہے۔ یوں کہو تو
باغ الفت اداس ہے، اے کاش
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے
یا اس کو مقطع بنا کر تخلص بھی لا سکتے ہو

ہر طرف سے غموں کی بارش کیوں
اب کے برکھا نوید کچھ لائے
÷÷اس کو یوں کہو تو اچھا ہے
دکھ کی برسات ہر طرف کیوں ہے

چھوڑ اظہر یہ شاعری چل دے
اُس کے بن کچھ نہیں ہے جو بھائے
÷÷ ’جو‘ ’تو‘ دو حرفی کا استعمال کم از کم مجھے پسند نہیں آتا۔ دوسرا مصرع کچھ اور کہو
 
دل کوئی آرزو نہ رہ جائے
بعد مدت کے پی ہیں گھر آئے
÷÷درست

رات پوچھے ملن کبھو ہو گا
اور برسات بھی یہ فرمائے
÷÷رات پوچھے‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا سوال ہے کہ کبھی ملن بھی ہو گا؟ لیکن رات محض فرما رہی ہے۔ یوں کہو تو اک بات ہے
رات کہتی ہے ہو رہے گا ملن
اگرچہ ’فرمائے‘ کا قافیہ اچھا نہیں لگ رہا۔ اللہ کے ساتھ تو توُ کے ساتھ فرمانا قابل قبول ہے، لیکن دوسروں کے لئے یہ تکریم کا لفظ ہے، جس کے ساتھ تو یا واحد کا صیغہ درست نہیں۔ ’رات صاحبہ یہ فرمائیں‘ کہنا چاہئے۔
جی بہت بہتر جناب

وصل کچھ بھی کہو، نہیں مرہم
گھاؤ ہجراں کا کیسے بھر پائے
÷÷درست

باغ الفت اداس کیونکر ہے
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے
۔۔کیونکر ہے‘ اضافی لگ رہا ہے۔ یوں کہو تو
باغ الفت اداس ہے، اے کاش
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے
یا اس کو مقطع بنا کر تخلص بھی لا سکتے ہو
جی بہت بہتر

ہر طرف سے غموں کی بارش کیوں
اب کے برکھا نوید کچھ لائے
÷÷اس کو یوں کہو تو اچھا ہے
دکھ کی برسات ہر طرف کیوں ہے
جی یہ بہت اچھا لگ رہا ہے

چھوڑ اظہر یہ شاعری چل دے
اُس کے بن کچھ نہیں ہے جو بھائے
÷÷ ’جو‘ ’تو‘ دو حرفی کا استعمال کم از کم مجھے پسند نہیں آتا۔ دوسرا مصرع کچھ اور کہو
بہت بہتر جناب

یوں کئے دیتے ہیں



دل کوئی آرزو نہ رہ جائے
بعد مدت کے پی ہیں گھر آئے

رات کہتی ہے ، ہو رہے گا ملن
پھر یہ برسات بھی تو دہرائے


وصل کچھ بھی کہو، نہیں مرہم
گھاؤ ہجراں کا کیسے بھر پائے

باغ الفت اداس ہے، اے کاش
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے

دکھ کی برسات ہر طرف کیوں ہے
اب کے برکھا نوید کچھ لائے

چھوڑ اظہر یہ شاعری چل دے
وہ نہیں ہے، ذرا نہ کچھ بھائے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے، لیکن مقطع کو یوں کہو تو کیسا رہےِ
وہ نہیں ہے تو کچھ بھی کیوں بھائے ’ذرا نہ کچھ‘ میں روانی کی کمی لگتی ہے
 
درست ہے، لیکن مقطع کو یوں کہو تو کیسا رہےِ
وہ نہیں ہے تو کچھ بھی کیوں بھائے ’ذرا نہ کچھ‘ میں روانی کی کمی لگتی ہے
جی بہت بہتر ہے جناب

دل کوئی آرزو نہ رہ جائے
بعد مدت کے پی ہیں گھر آئے

رات کہتی ہے ، ہو رہے گا ملن
پھر یہ برسات بھی تو دہرائے

وصل کچھ بھی کہو، نہیں مرہم
گھاؤ ہجراں کا کیسے بھر پائے

باغ الفت اداس ہے، اے کاش
کوئی غنچہ کہیں تو مسکائے

دکھ کی برسات ہر طرف کیوں ہے
اب کے برکھا نوید کچھ لائے

چھوڑ اظہر یہ شاعری چل دے
وہ نہیں ہے تو کچھ بھی کیوں بھائے​
 
Top