ایک دن، شاہینوں کے شہر میں ۔ از طاہرمسعود

یوسف-2

محفلین
جب ہم رات کے ملگجے اندھیرے میں سرگودھا یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں داخل ہوئے تو اسے طلبا و طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا پایا۔ اسٹیج پر بے باک شاعرہ کشور ناہید فروکش تھیں۔ ان کے ساتھ وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری اور شعبہ¿ اردو کے صدر نشیں ڈاکٹر عامر سہیل براجمان تھے۔ معلوم ہوا کشور ناہید کے ساتھ شام منائی جارہی ہے۔ ہمیں صف اول میں جگہ دی گئی جہاں بیٹھ کے ہم نے کشور کی شخصیت اور ادبی خدمات پر کئی نہایت پر مغزمقالے سنے۔ جب یہ مقالے پڑھے جارہے تھے تو کشور کے ہونٹوں پہ دل فریب اور خوش کن مسکراہٹ تھی۔ میں نے برسوں بعد انہیں دیکھا تھا، گزران وقت نے انہیں تھکا دیا تھا، سنجیدہ بنادیا تھا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں پابندیوں سے عبارت اس ماحول کا بطور خاص ذکر کیا، جس میں ان کی پرورش ہوئی۔ شعر کہنے پر پابندی ۔پردہ کرنے کی پابندی، مردوں سے آزادانہ اختلاط پر پابندی، ان پابندیوں نے انہیں باغی بنادیا۔ وہ خود بھی اردو ادب کی ایک باغی عورت ہیں اور چاہتی ہیں کہ صنف نسواں بغاوت کرکے مردوں کی غلامی سے نجات حاصل کرلے۔ چنانچہ وہ اس بات پر معترض تھیں کہ آخر شادی کے بعد عورت کے نام کے ساتھ اس کے شوہر کا نام کیوں ٹانکا جائے یا طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں حاصل ہو۔ انھوں نے یہ اعلان کرکے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا کہ وہ الحمد للہ مسلمان ہیں اور پابندی سے نماز پڑھتی ہیں۔ کشور کے خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اپنے نظریات کے سلسلے میں ان کے اخلاص سے انکار ممکن نہیں۔ وہ اپنے سینے میں ایک درد مند دل رکھتی ہیں اور شعراءو ادباءکے مشکل وقت میں، جب ساتھی سنگت ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، وہ ان کے کام آتی ہیں۔​
اگلا دن بہت مصروفیت کا تھا۔ شعبہ¿ اردو کے زیر اہتمام” اردو زبان و ادب اور صحافت”پر اس ایک روزہ کانفرنس میں ملک کے معروف کالم نگار ، ادیب اور صحافی حضرات تشریف لارہے تھے، جن کی بڑی بڑی تصویریں کیمپس کے کھمبوں سے ٹنگی تھیں اور ایک عجب بہار دکھارہی تھیں۔ صبح کے اجلاس سے عطاءالحق قاسمی، معروف اینکر سید طلعت حسین، کشور ناہید اور دوسرے مقرروں نے خطاب کیا ۔ عطاءالحق قاسمی نے اپنی زبانی تقریر میں کیبل ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز کے میزبانوں کی خوب خبر لی۔ ان کے خیال میں یہ میزبان حضرات مرغ لڑانے کے شوقین ہیں لہٰذا ان کے پروگراموں میں سیاست داں بھی لڑاکا مرغوں کی طرح ایک دوسرے سے باہم دست بہ گریباں ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیبل ٹیلی ویژن ملک میں مایوسی اور فحاشی پھیلانے کا مرتکب ہورہا ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر کا اختتام اس دل چسپ فقرے پر کیا کہ “میں آپ کے سامنے تقریر تو کررہا تھا لیکن ساتھ ہی ڈر بھی رہا تھا کہ میرے منہ سے کوئی سچی بات نہ نکل جائے”​
اینکر پرسن طلعت حسین نے جن کا تعلق اسی شہر سرگودھا سے ہے، اپنی تقریر میں ذرائع ابلاغ کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ نہایت سلیقے سے کیا۔ ان کا شکوہ تھا کہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ صحافی مطالعہ نہیں کرتے، جس موضوع پر لکھتے ہیں، اس پہ تحقیق کا حق ادا نہیں کرتے۔ اسکرین پہ نمو دار ناتجربہ کار لڑکیاں مائیک اٹھائے افتاد میں گھری خواتین سے انٹرویو کرنے پہنچ جاتی ہیں اور انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ پوچھنا کیا ہے۔ سید طلعت حسین جنھیں عطاءالحق قاسمی نے ایک نہایت ذمہ دار اورسنجیدہ ترین اینکر قرار دیا۔ یہ بتانا بھول گئے کہ وہ کئی چینلوں پر انتہائی بااختیار عہدوں پہ فائز رہے، سو انہوں نے اپنے سٹاف کی تربیت کے لیے کیا کیا۔ کشور ناہید نے لکھا ہوا مقالہ پڑھا جس میں انہوں نے یہ لکھ کر واقفان حال کو حیران کردیا کہ مولانا مودودی کی صحافتی تحریروں میں ادبیت نہیں ہوتی تھی۔ مولانا کی فکر سے کٹر اختلاف رکھنے والے بھی معترف ہیں کہ علماءمیں ان جیسی جاندار، پراثر اور سلیس نثر تو کسی نے لکھی ہی نہیں۔ ان کی ادبیت اور انشاءپردازی کا شاندار نمونہ قرآن حکیم کا ترجمہ ہے، جسے انہوں نے ترجمانی کا نام دیا۔ غالباً کشور ناہید کی نظروں سے مولانا کی تحریریں اور یہ ترجمہ نہیں گذرا۔ ورنہ و ہ اس درجہ غلط بیانی کی مرتکب نہ ہوتیں۔​
سہ پہر کے اجلاس میں سجاد میر اور یا مقبول جان، ڈاکٹر عطیہ سید(دختر ڈاکٹر سید عبداللہ) ، فاروق عادل اور اس ناچیز کو مقالہ پڑھنا تھا۔ فاروق عادل نے تو اپنے مخصوص کالمانہ اسلوب میں موضوع کو برتا۔ ان کا مضمون ان ہی صفحات میں دو قسطوں میںشائع ہوچکا ہے۔ اوریا مقبول جان اور سجاد میر نے موضوع پر خطابت کے خوب جوہر دکھائے۔ ان دونوں کی تقریروں کا لب لباب یہ تھا کہ انگریزی ہمارے ملک میں طبقہ ¿ اشرافیہ کی زبان ہے، اسے ایک طبقے کے تسلط کے لیے عوام پر ٹھونسا گیا ہے۔ ورنہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں تعلیم کی زبان انگریزی نہیں ہے۔ قوموں نے اپنی مادری زبان کو اپنا کر ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ میرا مقالہ بھی “اردو سرکاری زبان کب بنے گی؟”کے عنوان سے دو قسطوں میں اسی صفحے کی زینت بن چکا ہے۔ ڈاکٹر عطیہ سید کی باری آئی تو کافی وقت ہوچکا تھا، اس لیے انہوں نے مقالہ سنانے کے بجائے زبانی گفتگو پہ اکتفا کیا۔​
سرگودھا یونیورسٹی کی یہ کانفرنس اپنی علمی و فکری سطح، حسن انتظام اور طلبا و طالبات کی پر انہماک شرکت کے اعتبار سے نہایت کامیاب رہی۔​
یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری نہایت ذی علم، متحرک اور انتظامی صلاحیتوں سے متصف شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا تعلق ویسے تو عربی زبان و ادب سے ہے اور وہ عربی ، فارسی اور انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے چند برسوں میں اپنی شبانہ روز محنت سے سرگودھا یونیورسٹی کو مالی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا کردیا ہے۔ دوسری سرکاری جامعات جو گرانٹ کے لیے حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کا منہ تکتی رہتی ہیں، سرگودھا یونیورسٹی نے کئی ایسے تجارتی منصوبوں کا ڈول ڈال دیا ہے، جس سے خطیر آمدنی کے دروازے کھل گئے ہیں اور یونیورسٹی سرکاری گرانٹ کی محتاج نہیں رہی۔ ان ہی منصوبوں میں ایک تجارتی منصوبہ منرل واٹر کی تیاری کا ہے، جو”خوشاب”کے نام سے مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے اور یونیورسٹی کو خوب آمدنی ہورہی ہے۔ کانفرنس کو کامیاب بنانے میں ڈاکٹر عامر سہیل، طارق کلیم اور دوسرے اساتذہ کا بطور خاص حصہ تھا۔ لاہور سے مجھے اور فاروق عادل کو لینے کے لیے شعبہ¿ اردو کے استاد نعیم صاحب آئے جن سے رستے بھر علمی وادبی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کانفرنس کے بہانے ہم پر کھلا کہ شاہینوں کا شہر سرگودھا فکری اعتبار سے ایک زندہ اور توانا شہر ہے۔ (بہ شکریہ: روزنامہ نئی دنیا)​
 
Top