ایک تھی ایم کیو ایم

جاسم محمد

محفلین
ایک تھی ایم کیو ایم
08/06/2019 مظہر عباس



سوچتا ہوں آغاز کہاں سے کروں اور اختتام کہاں۔ ان چالیس سالوں میں مہاجر قومی موومنٹ کا عروج بھی دیکھا اور متحدہ قومی موومنٹ کا زوال بھی۔ سیاست میں تشدد غالب آجائے تو نہ سیاست رہتی ہے نہ نظریات۔ پہلے تالیاں نہ بجانے اور نعرہ کا جواب نہ دینے پر ناراضی کا اظہار کیا جاتا تھا۔ آج کل تالیاں بجانے اور نعرےکا جواب دینے کے مقدمات کا سامنا ہے۔ شہری سندھ کی سیاست 70کے بعد کچھ اس طرح پروان چڑھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ اقتدار (1972-1977)وہ وقت تھا جب مذہبی جماعتوں کا زور تھا، ’’مہاجر کارڈ‘‘ ان کے پاس تھا۔ سندھی زبان کا بل اور اس پر لسانی فسادات۔ کوٹہ سسٹم، تعلیمی اداروں میں داخلے میں دشواریاں، نوکریوں میں کراچی، حیدرآباد، سکھر کے لوگوں پر پابندی۔ بھٹو اور اردو بولنے والے دانشوروں کے درمیان مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات اور معاملہ 60فیصد دیہی اور 40فیصد شہری کوٹہ پر حل ہوگیا۔ بدقسمتی سے یہ فارمولہ سیاست کی نذر ہو گیا۔

1976 میں الیکشن ہوئے، نتائج تسلیم نہیں کئے گئے۔ قومی اتحاد کی تحریک چلی اور شہری سندھ گڑھ بنا۔ جولائی 1977مارشل لا کا نفاذ، شہروں میں مٹھائی تقسیم، 90روز کےوعدے پر الیکشن ملتوی۔ 1978اردو بولنے والے نوجوانوں کا مہاجر سیاست، مہاجر کے نام سے کرنے کا فیصلہ۔ کہتے ہیں APMSOسے ایم کیو ایم تک کے سفر میں بنیادی لوگوں میں بانی متحدہ کے علاوہ اختر رضوی مرحوم، عظیم احمد طارق مرحوم، ڈاکٹر عمران فاروق مرحوم، سلیم شہزاد مرحوم، ڈاکٹر سلیم حیدر، ماسٹر علی حیدر، احمد سلیم صدیقی، طارق مہاجر، کشور زہرہ، زرین مجید اور کچھ لوگ شامل تھے۔ 1984طلبہ تنظیم سے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ مگر سندھی، مہاجر، اتحاد قائم کرنا جس میں رضوی صاحب کا اہم کردار رہا جس کی ایک وجہ ان کا بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق۔ 1986میں نشتر پارک میں پہلا جلسہ، سفید کرتا پاجامہ کو مہاجر شناخت کے طور پر متعارف کرانا۔

1978 سے 1986تک شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں بدترین فرقہ وارانہ اور پھر لسانی فسادات، نئی نئی تنظیمیں اور گروپ تشکیل پاتے گئے۔ 1987بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے سندھ میں ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی جسے بھرپور عوامی پذیرائی ملی۔ ایسے ایسے لوگ ایوانوں میں پہنچے جنہیں پتا بھی نہیں تھا کہ بلدیہ عظمیٰ کی عمارت کدھر ہے اور حلف کیسے لیتے ہیں۔ 1988الیکشن سے کچھ ہفتے پہلے حیدر آباد میں دو سو افراد منٹوں میں قتل کردیئے گئے۔ جواب میں کراچی میں خونیں ردعمل سامنے آیا اور سو سے زائد افراد مار دیئے گئے۔ انتخابات ہوئے تو ایسا لگا جیسے سندھ کو انتخابی طور پر دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کردیا گیا ہو پھر پی پی پی اور ایم کیو ایم حکومتی اتحاد بنا۔

1989 بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ایم کیو ایم کا خفیہ طور پر حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے مخالفت میں ووٹ۔ دونوں جماعتوں میں بداعتمادی کی ابتدا ہوئی جو شاید آج تک قائم ہے۔ ایم کیو ایم کے نعروں میں شدت آ گئی، الگ صوبے سے لے کر محصورین مشرقی پاکستان کی واپسی، شہروں میں فسادات اور 6 اگست 1990 کو بے نظیر حکومت کا خاتمہ۔ 1990 کے الیکشن اور متحدہ کی کامیابی مگر اس بار زور زبردستی کا الزام، جام صادق کی حکومت قائم، نواز شریف اتحادی، 1992 ڈاکوئوں اور کرمنل کے خلاف فوجی آپریشن۔ کراچی میں ایم کیو ایم میں پہلی تقسیم، حقیقی کا قیام اور آفاق اور عامر خان الگ، بانی متحدہ جام صادق کے مشورے پر جنوری 92ء میں لندن روانہ جہاں سے آج تک واپسی نہیں ہوئی۔

1994 میں پولیس آپریشن میں متحدہ کے کئی سو مبینہ کرمنل مارے گئے مگر بڑی تعداد میں لوگ ماورائے عدالت بھی قتل کئے گئے۔ 1993 میں بانی چیئرمین عظیم احمد طارق کا قتل الزام متحدہ پر، وجہ بانی سے اختلاف۔ اس کے بعد یہ سلسلہ رک نہ سکا مگر ان تمام سالوں میں کچھ خفیہ ہاتھ بھی نمایاں رہے اور ان کی سیاست بھی۔ 2002 سے 2007 تک ایم کیو ایم کو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ پہلی بار شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں ترقیاتی کام ہوئے مگر جس چیز نے ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ علاقہ کنٹرول، زور زبردستی، بھتہ خوری اور پرتشدد واقعات تھے۔

2013 الیکشن میں متحدہ کامیاب مگر بانی پارٹی سےناراض۔ تحریک انصاف کو 8لاکھ ووٹ کیسے پڑگئے۔ یہیں سے جماعت کے خاتمہ کا آغاز ہوا۔ اس بار ہونے والے آپریشن کو وہ سمجھ ہی نہیں پائے۔ کچھ عرصے بعد قابل اعتراض تقاریر کرنے پر لاہور ہائی کورٹ نے اس کی کوریج پر پابندی لگادی جو اب تک برقرار ہے۔ 22؍اگست 2016 کو رہی سہی کسر بھی پوری ہوئی۔ متحدہ کا مرکز، دفتر سیل ہوا بلکہ اس کے اطراف تمام سیاسی سرگرمیاں بھی۔ کچھ رہنمائوں نے پارٹی کو بچانے کی کوشش کی اور شاید آج بھی کررہے ہیں مگر اب یہ اندر کی لڑائی زیادہ نظر آتی ہے۔

چالیس سال کا سفر بے نتیجہ ہی رہا مگر آج بھی مطالبات وہی ہیں نوکریاں، داخلے نہیں تو الگ صوبہ۔ تقسیم نہیں اتحاد میں اتفاق میں برکت ہوتی ہے۔ ناانصافیاں بہرحال ختم کرنا ہوں گی۔ کراچی کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھنا چھوڑیں یہ سندھ کا دارالحکومت بھی اور پاکستان کا معاشی حب بھی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ غلطیوں سے سیکھیں۔ حقیقت یہ کہ آپ کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب آپ کے پاس اختیار بھی ہو اور آپ شریک اقتدار بھی ہوں۔ یہ مواقع ملے مگر آپ کے لوگ چمک کا شکار ہو گئے اور آپ کسی اور جانب نکل گئے۔ تشدد اور سیاست، جرائم اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ استعمال ہونے والوں کو بھی سوچنا ہے اور استعمال کرنے والوں کو بھی۔ جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ان کے لئے بھی سبق ہے اور جنہوں نے ہتھیار دینے میں سہولت کاری کی ہے، پھر کبھی سہی۔ اگر موقع ملے تو حسن جاوید کا ناول ’’شہر بے مہر‘‘ پڑھ لیجئے گا۔
 
Top