ایک بے نام کو اعزازِ نسب مل جائے

ایک بے نام کو اعزازِ نسب مل جائے
کاش مدّاحِ پیمبر کا لقب مل جائے

میری پہچان کسی اور حوالے سے نہ ہو
اقتدارِ درِ سلطانِ عرب مل جائے

آدمی کو وہاں کیا کچھ نہیں ملتا ہوگا
سنگ ریزوں کو جہاں جنبشِ لب مل جائے

کس زباں سے میں تری ایک جھلک بھی مانگوں
طلبِ حُسن تو ہے حُسنِ طلب مل جائے

اب تو گھر میں بھی مسافر کی طرح رہتا ہوں
کیا خبر اذنِ حضوری مجھے کب مل جائے

خیمہِ دل ترے جلووں سے منور کرلوں
دیدہِ شوق کو بیداریِ شب مل جائے

تو اگر چھاپ غلامی کی لگا دے مجھ پر
مجھ گنہگار کو پروانہِ رب مل جائے

دے نہ قسطوں میں مظؔفر کو مَحبت اپنی
جس قدر اس کے مقدر میں ہے سب مل جائے

مظفر وارثی
 
Top