این اے 122دھاندلی کیس ، حالات کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

این اے 122دھاندلی کیس ، حالات کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
12 جنوری 2015 (21:15)
لاہور(سعید چودھری )لوکل کمیشن غلام حسین اعوان نے حلقہ این اے 122کے انتخابی ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد اپنی رپورٹ الیکشن ٹربیونل کو پیش کردی ہے ،الیکشن ٹربیونل نے اس کیس کی مزید سماعت کے لئے 17جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے ،اس روز لوکل کمیشن کا بیان قلمبند کیا جائے گاجس کے بعد فریقین کے وکلاءان پرجرح کریں گے ۔اس رپورٹ کی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور حکومتی حلقے اپنے اپنے انداز میں تشریح کررہے ہیں جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ دونوں طرف سے اس بابت مبالغہ آمیزی سے کام لیا جارہا ہے ۔اس سارے معاملے کی قانونی حیثیت کیا ہے ؟ کیا عمران خان کا یہ دعوی ٰ درست ہے کہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد34ہزار376ووٹ بوگس پائے گئے ہیں ؟اور کیا وزیر اطلاعات پرویز رشید کا یہ کہنا غلط ہے کہ لوکل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ایک بھی بوگس ووٹ کا ذکرنہیں کیا ؟پرویز رشید نے یہ اعلان ٰ بھی کیا ہے کہ اگر کوئی بیلٹ پیپرجعلی پایا گیا تو ایاز صادق خود اس نشست سے مستعفی ہوجائیں گے ۔کیا ایاز صادق کے مستعفی ہونے کی نوبت آسکتی ہے ؟صورتحال یہ ہے کہ لوکل کمیشن کی یہ رپورٹ بظاہر بہت جامع ہے جس میں اس کیس میں اٹھائے گئے یا مستقبل میں سامنے آنے والے تقریباً تمام سوالات کے جواب موجود ہیں ۔ریکارڈ میں جس جگہ کوئی بے ضابطگی پائی گئی ہے لوکل کمیشن نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے تاہم یہ بات درست ہے کہ لوکل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کسی جگہ بھی بوگس ووٹوں کا ذکر نہیں کیا ہے ۔چند ایک پولنگ سٹیشنز کی کاﺅنٹر فائلز کے سیریل نمبرز ایک دوسرے سے مختلف ہیں ان کے حوالے سے عمران خان نے کہا ہے کہ یہ وہی بیلٹ پیپرز ہیں جو اردو بازار سے چھپوائے گئے تھے جبکہ لوکل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اسے معمولی بے ضابطگی قرار دیا ہے ۔لوکل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس حلقہ میں 1لاکھ 83ہزار757ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ان میں سے 3ہزار642ووٹ مسترد ہوئے ۔مجموعی طور پر ایاز صادق نے 92ہزار 393ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل عمران خان کو 83ہزار 542ووٹ ملے ۔اس حلقہ کے باقی امیدواروں کے حصے میں 4ہزار 180ووٹ آئے ۔جن پولنگ سٹیشنز کی کاﺅنٹر فائلز کے سیریل نمبرز ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے ،اگر ان تمام پولنگ سٹیشنز کے ووٹ عمران خان کے کھاتے میں ڈال دیئے جائیں تب بھی ان کے ووٹوں میں دو سے تین ہزار کا اضافہ ہوگا جبکہ انہوں نے اس حلقہ سے 8ہزار 851ووٹوں سے شکست کھائی تھی ۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جن کاﺅنٹر فائلز پر پریذائیڈنگ افسر وں نے دستخط اور مہر نہ لگانے کی کوتاہی کی ہے کیا وہ تمام ووٹ ایاز صادق کو ملے ہیں ؟ اس بات کا تعین کسی انکوائری میں بھی نہیں کیا جاسکتا ۔یہ بے ضابطگیاں ان پولنگ سٹیشنز پر بھی پائی گئی ہیں جہاں سے عمران خان جیتے تھے ،جیسا کہ پولنگ سٹیشنز نمبر237پر کل 519ووٹ کاسٹ ہوئے ان میں سے عمران خان کے حصے میں 275جبکہ ایاز صادق کے حصے میں 232ووٹ آئے تھے ،یہی وہ پولنگ سٹیشن ہے جس کے تھیلوں سے متعلقہ فارم نہیں نکلے۔جن کاﺅنٹرفائلز پر پریذائیڈنگ افسر وں کے دستخط یا مہر موجود نہیں ہے ان پر ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشان اور ان کے شناختی کارڈ نمبرز موجود ہیں جن کی نادرا سے تصدیق کا راستہ موجود ہے ۔

یہ چیز بھی الیکشن ٹربیونل کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جن پولنگ سٹیشنز پر عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگایا تھا ان کا کوئی ایک پولنگ ایجنٹ بھی انہوں نے عینی شاہد کے طور پر پیش نہیں کیا ۔ان کی طرف سے جو 6گواہ پیش کئے گئے ان کا تعلق غیر متعلقہ پولنگ سٹیشنز سے تھا ۔وہ دھاندلی کے حوالے سے کوئی فوٹیج بھی ٹربیونل میں پیش نہیں کرسکے تھے ۔عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976کے سیکشن 33میں ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار دیا گیا ہے جس کے تحت پریذائیڈنگ ےا پولنگ افسرکو کاﺅنٹر فائل پر اپنے دستخط کرنے ،مہر ثبت کرنے ،ووٹر سے نشان انگوٹھا حاصل کرنے اور ووٹر کے شناختی کارڈ کا نمبردرج کرنے کے لئے کہا گیا ہے جبکہ ووٹوں کی گنتی کا طریقہ کار عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976کے سیکشن 38میں دیا گیا ہے جس میں ووٹوں کی گنتی کے وقت کاﺅنٹر فائلز کا جائزہ لینا شامل نہیں ہے ۔لوکل کمیشن نے ایسے تمام بیلٹ پیپرز کو جائز قرار دے کر شمار کیا ہے جن کے پیچھے پریذائیڈنگ یا پولنگ افسر کے دستخط اور مہر موجود تھی ۔یہ گنتی عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976کے سیکشن 38کے عین مطابق ہے ۔قانونی طور پر ایسے بیلٹ پیپرز کو مسترد نہیں کیا جاسکتا جن پر صحیح خانوں میں مہر لگائی گئی ہواور ان کے پیچھے پریذائیڈنگ یا پولنگ افسر کے دستخط او مہر موجود ہو ۔ سپریم کورٹ 1999میں قرار دے چکی ہے کہ اس بے ضابطگی کی بناءپر انتخابی نتیجہ منسوخ یا تبدیل نہیں ہوسکتا ۔بیلٹ پیپرزپر پریذائیڈنگ افسر کی مہر یا دستخطوں میں سے ایک چیز موجود ہو تو اسے ضابطے کی کارروائی مکمل ہونا تصور کیا جائے گا، (ایس سی ایم آر 1999صفحہ 284)۔اسی طرح یعنی کہ کاﺅنٹر فائلز کے حوالے سے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 33پرجزوی عمل درآمد بھی قانون کی تکمیل تصور کیا جائے گا،ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ جن کاﺅنٹرفائلز پر پریذائیڈنگ افسروں کی مہر اور دستخط موجودنہیں ہیں ان پر ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشان اور شناختی کارڈز کے نمبر موجود ہیں جسے ضابطے کی جزوی کارروائی لیکن کاﺅنٹرفائلزکی تکمیل تصور کیا جائے گا۔ لوکل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق حلقہ این اے 122میں ایسا کوئی بیلٹ پیپر جائز شمار نہیں کیا گیا جس پر پریذائیڈنگ افسر کی مہر یا دستخط موجود نہیں تھے اور یہ چیز ایاز صادق کے حق میں جاتی ہے ۔حلقہ این اے 122کا معاملہ ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے جس کا نتیجہ ملک کی آئندہ سیاست پر زبردست اثرات مرتب کرے گا۔دونوں طرف سے بیان بازی کرکے الیکشن ٹربیونل پر بالواسطہ دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس بیان بازی کے حوالے سے الیکشن ٹربیونل کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا غلط ہے ۔الیکشن ٹربیونل کی اب تک کی کارروائی سے تو یہی لگتا ہے کہ ایاز صادق کا کیس کمزور نہیں ہے اور یہ کہ ایازصادق کے استعفی کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔
 
یہ حقیقت ہے کہ دھاندلی کے متعلق کپتان کے الزامات میں زیادہ جان نہیں ہے۔ اب بھی کپتان اپنی سیاسی حکمت عملی کو تبدیل کرکے صوبہ خیبرپی کے میں زیادہ بہتر کارکردگی کو اپنی سیاست کا محور بنا لے تو عوام کا بھی بھلا ہوگا اور عمران کا بھی۔
 
Top