این آر او کی قانونی حیثیت ختم!

arifkarim

معطل
پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس یا این آر او کو چار ماہ میں پارلیمان سے منظور کرانے کی مدت ہفتے کے روز ختم ہوگئی ہے جس کے بعد اس آرڈیننس کی قانونی حثیت ختم ہوگئی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے اکتیس جولائی سن دو ہزار نو کے فیصلے میں سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر دو ہزار سات کی ایمرجنسی کے بعد اور اس سے کچھ عرصہ پہلے جاری کئے جانے گئے آرڈیننس چار ماہ کے اندر پارلیمان سے منظور کرانے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرف سے جاری کردہ سینتیس آرڈیننس متاثر ہوئے تھے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی مہلت سنیچر کو ختم ہوگئی لیکن اس سے ایک دن قبل جمعہ کو صدر پاکستان نے اٹھائیس آرڈیننس دوبارہ جاری کر دئے جن کے متعلق پارلیمنٹ سے بل منظور نہیں ہوسکے تھے۔

ان میں جوہری تنصیبات اور جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے متعلق نیشنل کمانڈ اینڈ کنڑول اتھارٹی آرڈینیس اور مسابقت کے بارے میں کمپٹیشن کمیشن آرڈیننس سمیت اٹھائیس آرڈیننس دوبارہ جاری کیے۔

قومی مصالحتی آرڈیننس یا این آر او سمیت نو آرڈیننس دوبارہ جاری نہیں کیے گئے اور ان آرڈیننس کی قانونی حثیت ختم ہوگئی ہے۔

پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو کے درمیان معاہدے کے بعد جاری ہونے والے قومی مصالحتی آرڈیننس کے ذریعے حکومت نے انیس سو چھیاسی اور انیس سو نو نناوے کے درمیان قائم ہونے والے بد عنوانی اور دیگر فوجداری نوعیت کے مقدمات سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان کے وزیر مملکت برائے قانون و پارلیمانی امور محمد افضل سندھو نے چند روز پہلے ایک نیوز کانفرنس میں این آر او سے فائدہ اٹھانے والے آٹھ ہزار افراد کی فہرست جاری کی تھی۔ اس فہرست میں صدر آصف علی زرداری، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین اور بعض وفاقی وزراء سمیت چونتیس سیاست دانوں کے علاوہ فوجی اور سول افسران بھی شامل ہیں۔

حکومت این آر او کو حزب مخالف اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے اتحادیوں کی مخالفت کے باعث این آر او کو اس ماہ کے اوائل میں پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرسکی تھی۔اس کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ این آر او کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں گے۔

بشکریہ بی بی سی اردو!
 

گرائیں

محفلین
بی بی سی کے مطابق:
وزیر مملکت برائے قانون افضل سندھو کے مطابق الطاف حسین کے خلاف فوجداری کے بہتتر مقدمات تھے جنہیں این آر او کے تحت ختم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فوجداری کے مقدمات ختم کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے کوئی حکم نامہ دیا تھا جس کا سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے نفی میں جواب دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر اس ضمن میں صوبائی حکومت نے کوئی احکامات نہیں دیے تو پھر یہ فوجداری کے مقدمات ختم نہیں ہوئے بلکہ التوا کا شکار ہیں۔افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ این آر او اپنی قسمت پر رو رہا ہوگا کہ اُس سے فائدہ تو ہزاروں افراد نے اُٹھایا لیکن آج اُس کا دفاع کرنے والہ کوئی نہیں ہے۔

ربط
 
Top